عزاءی ادب میں مرثیہ گوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ضمیر کاظمی


عزایی ادب میں مرثیہ گوئی

ضمیر کاظمی مدیر اعلیٰ’’تریاق‘‘

    مر ثیہ کیا ہے؟ اس کی تعریف میں صالحہ عابد حسین ’’انیس کے مرثیے ‘‘(جلد اول ) میں رقمطراز ہیں ’’،مرثیئے کے لغوی معنی اس نظم کے ہیں جو کسی مرنے والے کی یاد میں کہی جائے ، اردو میں کربلا سے متعلق مرثیوں کے علاوہ اور بھی مرثیے کہے گئے ہیں جن میں سب سے مشہور اور پر اثر مرثیہ مولانا حالیؔ کا ’’مرثیہ غالب‘‘ ہے۔ڈاکٹر اقبال ؔنے ’’والدہ محترم کی یادمیں ‘‘ جو نظم کہی ہے وہ بھی اردو کے عمدہ مرثیوں میں شامل کی جاسکتی ہے  ۔لیکن جب ہم مرثیہ بولتے ہیں تو ذہن فوراً شہادت امام حسین ؑ اور واقعات کربلا سے متعلق کہی گئی نظموں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور اب اردو میں مجرد لفظ مرثیہ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے‘‘۔ 

 محترمہ صالحہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مولانا حالیؔکا ’’مرثیہ غالبؔ‘‘ اور ڈاکٹر اقبال کا ’’والدہٗ محترمہ کی یاد میں ‘‘ بہترین نظمیں تو ہوسکتی ہیں مگر مرثیہ نہیں، اسلئے کہ مرثیہ صرف رونے دھونے اور  یاد رفتگاں کے ماتم کا نام نہیں ہے ،ایک مخصوص شعری اسلوب ہے جس کے اپنے پیمانے ہیں۔

          تقریبا پچھلی تین صدیوں سے شعری صنف سخن مرثیہ نے جو ارتقاء کے مدارج طے کئے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں ۔اس نے نہ صرف اردو شاعری کو عظمت و وقار بخشا ہے بلکہ تہذیبی اور عمرانی روایتوں اور تقاضوں کی آغوش میں زندگی کی دوسری حقیقتوں کو بھی نئے زاویوں سے دیکھا ہے اورفرد کی اخلاقی قدروں ،باہمی رشتوں اور فن کی نزاکتوں سے بھی بحث کی ہے۔

          اردو ادب میں صنف مرثیہ کے لئے اتنا تحقیقی کام نہیں ہوا جتنا اور اصناف سخن میں لوگوں نے کیا ہے۔اگر مرثیہ کے موضوع پر آپ کچھ لکھنا چاہیں تو حوالے کے لئے کتابیں نہیں ملتیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کتاب ’’اردومرثیہ‘‘ ہے جس کے مصنف ہیں سفارش حسین ۔دوسری کتاب جو معتبر اور بڑی کارآمد ہے وہ ہے ڈاکٹر مسیح الزماں کی ’’اردو مرثیئے کا ارتقاء‘‘، جس پر انھوں نے مرثیئے پر زمانوں کے پس منظر میں ہندوستان کی تاریخ سے بحث کی ہے۔یہ ضروری ہے کہ ہمارے ریسرچ اسکالرس اس طرف توجہ دیں تو یقینا کچھ اور پہلو وا ہونگے  اور کچھ نئے زاوئے سامنے آئیں گے ۔مرثیہ کا فن سمجھنے کے لئے ضروری  ہے کہ ہم اس کی تاریخ سمجھیں اور بتدریج ارتقاء کی طرف گامزن اس صنف سخن کی مختلف ہئیتوںکا جائزہ لیں۔ڈاکٹر مسیح الزماں نے اپنی کتاب ’’مرثیئے کا ارتقاء‘‘ میں مرثیئے کی ابتداء پر بڑی مدلل بحث کی ہے ۔وہ فرماتے ہیں:  ’’واقعہ کربلا کویادکرنے کی بہت سی شکلیں ہیں ۔ایران میں چوتھی صدی ہجری سے عزاداری کا عام رواج ہوگیا وہاں سلجوقیوں کے دور حکومت میں اگرچہ شیعوں کے خلاف بہت سی کاروائیاں کی گئیں لیکن امام حسین ؑ کی عزاداری پر اس وقت بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کیونکہ واقعہ کربلا تو سارے مسلمانوں کے لئے اہمیت اور عبرت کا ذریعہ ہے اور اس کو یاد کرنا عزاداری ہے اس لئے ایران میں عزاداری کا رواج عام ہوگیا اور لوگ اسے فریضئہ مذہب سمجھ کر ادا کرنے لگے‘‘۔

آگے چل کر فاضل مصنف مزید فرماتے ہیں:

 ’’بہمنی سلطنت کا قیام آٹھویں صدی ہجری کا واقعہ ہے جو ایرانی ہندوستان پہنچے تھے،وہ اپنے ساتھ تہذیبی روایتیں معتقدات ،رسم و رواج و خیالات بھی لائے تھے۔اسی زمانے میں بھارت میں عزاداری شروع ہوئی۔ عزاداری کی ان مجلسوں میں کئی شعراء کا کلام پڑھا جاتا تھا۔کس طرح کی تقریریںہوتی تھیں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا قیاس سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پرانے مقاتل پڑھنے والوں کے ساتھ لوگ اپنا زور طبیعت بھی دکھانے لگے ہوں تو عجب نہیں ،کیونکہ دکن آنے والوں میں علماء ،فضلاء اور شعراء کی بھی بہت بڑی تعداد تھی سب سے پہلا تحریری ثبوت آذریؔ کے یہاں ملتا ہے ۔ایران کا یہ مشہور شاعر احمد شاہ بہمنی کے دربار میں معزز و ممتاز تھا اور اسے بادشاہ نے نظم میں سلطنت بہمنی کی تاریخ تیار کرنے پر معمور کیا تھا۔آذری کی تاریخ ’’بہمن نامہ‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔آذریؔ کی مرثیہ گوئی کا ذکر ’’ہفت اقلیم، خزانہ عامرہ‘‘ اور دوسرے تذکروں میں ملتا ہے‘‘۔

  کثیرتعداد میں ایرانیوں کے دکن آنے اور ہندوستانی تہذیب کو متاثرکرنے کے علاوہ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں عزاداری آٹھویں صدی ہجری میں شروع ہوچکی تھی،اورمرثیہ جات، مجالس سے قبل پڑھے جاتے تھے۔ قطب شاہی دور میں بھی عزاداری کو فروغ حاصل ہوا۔خود محمد قلی قطب شاہ محرم کا چاند دیکھتے ہی لباس شاہی اتار کر جامئہ عزا زیب تن کر لیا کرتا تھا۔عام باورچی خانوں میں گوشت کا استعمال ترک کر دیتے۔خوش آواز ذاکر اور خوش خواں نغمہ پرداز ،دل سوز مرثیئے اور غم اندوہ اشعار درد و اثر سے پڑھتے تھے۔جب بادشاہ عاشور خانے میں داخل ہوتا تو سواری سے اتر کے برہنہ پا آتا اور اپنے ہاتھوں سے علموں پر پھول چڑھاتا اور اس وقت تک مرثیہ خوانی ہوتی رہتی۔ 

   ڈاکٹر مسیح الزماں ؔآگے قطب شاہی دور کے باب میں فرماتے ہیں’’، ان مراسم کی حیثیت ایک عوامی تقریب کی سی ہوگئی تھی،جس کی تیاریاں لوگ سال بھر کرتے تھے ، شاہی عاشور خانے کے علاوہ شاہی محل اور دوسرے امراء کے یہاں بھی عزاداری ہوتی تھی۔جن میں کچھ لوگ بیان شہادت کرتے ،کچھ مرثیئے پڑھتے ،کچھ لوگ اپنے کہے ہوئے مرثیئے پڑھتے یا دوسروں کے، اس طرح داد تحسین حاصل کرتے اور شاعرانہ انداز بیان کی مہارت کے اظہار سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے کچھ لوگ مرثیہ کہنے لگے۔

  یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو کا پہلا مرثیہ گو کسے قرار دیا جائے؟ ’’حدیفۃالسلاطین‘‘ میں نصیر الدین ہاشمی نے مثنوی ’’نوسرہار ‘‘ کے مصنف کو جن کا نام اشرف تھا ،پہلا مرثیہ گو قرار دیا ہے۔لیکن مثنوی کو مرثیہ کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ وجہی اور قطب شاہ (۱۰۲۰۔۹۷۳ھ) دونوں معاصرین ہیں اور انہی کے مرثیئے قدیم ترین موجودہ مرثیئے ہیں ۔محمد قلی قطب شاہ کے مرثیوں کا مجموعہ ’’کلیات سلطانی  محمد قلی قطب شاہ ‘‘ آج بھی موجود ہے،۔  نمونہ کلام :  

 کالا کبا کسوت مکا دیکھو اماماں روک تھے

                   ظلمات بھی کالا ہوا اس دکھتے بھاری وائے وائے

       (خانئہ کعبہ امام کے غم میں سیاہ پوش ہوگیا۔افسو س اس غم سے ظلمات بھی تاریک ہے)

  آسماں چھجے جالا ہوا سورج اگن والا ہوا 

                   چندر سوجل کالا پڑا ہے دکھ اپاری وائے وائے

   (آسماں کا چھجہ جل گیا سورج آگ کا گولہ بنا،چاند پر بھی جل کر اس غم سے کالا دھبہ آگیا)

      پنکھی سئے ہیں سب پراں رورو بھرائے سمدراں 

                 چھوڑے ہیں سب اپنے گھراں دیکھو تو زاری وائے وائے

   (پرندوں نے اپنے پر سمیٹ لئے اور سمندر روتے روتے لبالب ہیں،سب اپنے گھر چھوڑ کے فریاد زاری میں لگے ہیں )

       مصطفے کے باغ کا پھولاں کوں بن پانے سکائے           

        مصطفے ہور مرتضے ہور فاطمہ کا دل دکھائے 

    نیل کپڑے پہنے ہیں پیغمبراں اسی غم سیتی                        

    دشمنی پکڑے یزیدیاں مالی ہور خانم سیتی

     جیوں نبیاں میں مصطفیٰ ہیں تیوں اماموں میں حسینؑ                

   کفر کے تئیں جان کر اسلام یو کہے حسینؑ

 اردو مرثیئے کی اس ابتدائی منزل پر واقعات کربلا میں کسی واقعے کے تفصیلی بیان کی توقع نہیں کرنا چاہیئے۔ ان حالات کے پیش نظر محمد قلی کے مرثیئے  اردو میں ایک نئے راستے کا آغاز ہیں۔

عادل شاہی دور میں عزاداری کو مزید فروغ حاصل ہوا ، اور اس کے ارتقاء کی راہیں کھلنے لگیں۔مجلس شروع ہونے سے قبل ماحول بنانے کے لئے لوگ سلام اور مرثیئے کے کچھ بند سوز میں پڑھنے لگے۔حالانکہ پرانے زمانے کے شعراء نے مرثیئے میں نکتہ دائیاں اور گل افشانئی گفتار کی دانستہ کوششیں کیں مگر ایک عرصے تک مرثیئے کی بے چہرگی اس کے مقبول عام ہونے کی راہ میں سد باب رہی۔ڈاکٹر مسیح الزماں کہتے ہیں:’’عادل شاہی دور کا سب سے بڑا مرثیہ گو مرزاؔ ہے جس نے ساری عمر مرثیہ گوئی کی۔ حمد، نعت منقبت اور مراثی شہیدان کربلا کے علاوہ اس نے کچھ نہیںکہا۔’’آگے چل کر مزید فرماتے ہیں ’’مرزا کا زمانہ محمد قلی قطب شاہ کے تقریبا پچاس سال اوپر کا ہے۔علی عادل شاہ ثانی (۱۰۶۸۔ ۱۰۳۷ھ) کے دور حکومت میں اس کے انتقال کا حال ملتا ہے‘‘۔

               نمونہ کلام  

               سورج ہر دیس ماتم سوں اگن شعلے ہتے دم سوں        

       اپس تکیہ بدل غم سوں کرن کا نئے بچھاتا ہے

               گئے شہ کے غم تیران جنے اس گگن میں صا ف ہو            

  نہیں پھر یو سب ستارے دسیں ہر شب اور شگافاں

               یوں ہوا جیوں خضر مجھ کو ہادی راہ نجات                   

   کاڑھ ظلمت سوں دکھایا چشمئہ آب حیات

               اس منور تن کوں یوں گھیری سیہ رو کی سپاہ                 

     جیوں پنم کے چاند کوں چوں گردسوں ابر سیاہ 

  مرزا نے مرثیہ کے معیار کو بہت بلند کیا ۔مرثیئے میں نئے نئے پہلو پیدا کئے ۔خاصے طویل مرثئے کہے۔مسلسل واقعات کا بیان ڈرامائی ساخت، تمہید ،گھریلو زندگی،نفسیات انسانی ،رخصت ،رجز،جنگ اور شہادت کی تفصیل بیان کی۔ اس کے بعد مغلیہ دور ہے۔لیکن عزاداری کے ارتقاء کا دوسرا دور اورنگ زیب کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔’’اردو کی ادبی تاریخ‘‘میں پروفیسر عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:، ’’اپنے حکمرانوں کے ختم ہوجانے کے بعد عوام کے ذہنوں پر جو پژمردگی چھائی تھی اس کے نمائندے دراصل یہ شاعر ہیں ۔تصو ف ناکام تمنائوں کے لئے ایک سہارا ہوسکتا ہے اور مذہبی موضوع ایک شاعر کے لئے روحانی تسلی کا باعث ہو سکتا ہے۔اس زمانے میں کچھ مرثیہ نگار بھی تھے جو شہدائے کربلا کے مصائب پر آنسو بہا کے دراصل اپنی بھڑاس نکالتے تھے‘‘۔ 

  اس عہد کے مرثیہ گویوں میں ذوقیؔ، بحریؔ، اشرفؔ، ندیمؔ  اور تبسمؔ احمد کافی ممتاز ہیںلیکن ہاشم علی اورد رگاہ علی خان دوراںؔ الگ الگ پہلوئوں سے اردو مرثیئے کے ارتقاء میں سنگ میل کے حیثیت رکھتے ہیں۔ایڈنبرا یونیورسٹی کتب خانہ میں ہاشم علی برہانپوری کے مرثیوں کا پتہ ملتا ہے اور خود شاعر کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔جیلانی کامران نے اردو مرثیئے میں اسی طرح ذکر کیا ہے ’’ ہاشم علی کا زمانہ ولیؔ اور حاتم ؔ سے پہلے کا زمانہ ہے ۔یہ مرثیہ نگار عہد جہانگیری (۱۰۳۰ھ) مرثیہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے بہت مقبول تھا۔  نمونہ کلام:

     شہر بانو یوں پکاریں ہائے داور کیا کروں      

      بے کسی میں کاں محمد کاں ہیں حیدر کیا کروں

   فاطمہ خیر النساء میں آج حاضر کیا کروں       

      تشنہ لب مارا پڑا ہے رن میں سرور کیا کروں

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        آج پر خون کفن ترا اصغر           

     آج سوکھا دہن ترا اصغر

           لال بے کل ترا بدن اصغر        

        حیف یوں بال پن ترا اصغر

   کس کو اب پالنا جھلائونگی            

    لوری دے کے کسے سلائونگی

              لوری دے کے چھاتی ستے لگائونگی  

           حیف یوں بالپن ترا اصغر

ان کا ایک مجموعہ کلام ’’دیوان حسینی‘‘ ہے جس میں زیادہ تر مرثیئے غزل کی شکل میں ہیں ۔سلاموں کی تعداد بھی کافی ہے۔بہرحال مجموعی حیثیت سے ہاشم بھی اپنی خصوصیات اور مقدار کلام کی وجہ سے مرثیہ گوئی کی تاریخ میں اہم درجہ رکھتے ہیں۔دہلی میں مرثیہ گوئی نے ۱۵۵۵؁ء کے بعد کافی اہمیت اختیار کرلی۔’’رود کوثر‘‘ میں شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں’’ایران کے بڑے بڑے شاعر عرفیؔ، نظیریؔ، مشہور عبدالصمد ، میر علی فرحؔ اور قابل مدبر علی مرداںؔ، آصف خاں وغیرہ ہمایوں کے جانشینوں کے عہد میں ہندوستان آئے اور علوم و فنون کی اشاعت میں اور اسلامی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بہت مفید ثابت ہوئے‘‘۔

   اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرثیئے کے ہندوستانی اسلوب کو ایرانی عزاداری نے متاثر کرنا شروع کردیا تھا۔اس عہد میں مجالس شہدائے کربلا سے پہلے ماحول بنانے کے لئے کچھ اضافی لٹریچر کی بھی ضرورت محسوس کی جانے لگی ،مراثی کے علاوہ کربل کتھا، شہادت نامہ ،روضۃ الشہداء کے تراجم اسی زمانے کی دین ہیں۔’’کربل کتھا‘‘ فضل علی فضل نے ۱۷۳۲؁ء  روضۃ الشہدا ء کوسامنے رکھ کر آسان اردو میں لکھی،جن میں بارہ مجلسیں ہیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب عوام میں علی الاعلان تعزیہ داری اور عزاداری ہونے لگی تھی۔اس زمانے کی مرثیہ خوانی میں سخن و آہنگ کا رواج تھا ۔مرزا ابراہیم مرثیہ گو تھے اور لحن میں اس طرح مرثیہ خوانی کرتے تھے کہ لوگ روتے روتے بے ہوش ہوجاتے ۔میر عبداللہ مرثیہ خوانوں میں سب سے نمایاں تھے،سال بھر لوگ ان سے مرثیہ سیکھنے آیا کرتے تھے۔

  ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابق،’’اس وقت کے مرثیہ گویوں میں درگاہ قلی خاں نے پھر لطیف علی خان، ندیمؔ، مسکینؔ، حزیںؔ اور غمگینؔ کا ذکر کیا ہے،جو یا تو مرثیئے کہتے تھے یا بیشترا سی صنف میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ان تمام مرثیہ گویوں میں انھوں نے سب سے زیادہ تعریف مسکینؔ، حزیںؔ اور غمگینؔ کی کی ہے۔۔۔

   مسکینؔ، حزیںؔ اور غمگینؔ تینوں بھائی تھے اور بہت اچھے مرثیہ گو تھے۔ان کے کلام میں نئے انداز اور نادر مضامین نظر آتے ہیں۔ افسوس کے ان تینوں کے کلام میں صرف مسکین ؔ کا کلام تاریخ میں محفوظ ہے۔ گارسین دی تاسی نے مسکینؔ کے مرثیوں کا فرانسیسی ترجمہ ایک ضخیم جلد کی صورت میں ۱۸۴۵؁ء  میں شائع کیا تھا۔

             روتے ہوئے اصغر کو لیا گود میں سرور           

  مرتا ہوا اس قوم کو دکھلایا لے جاکر

            پانی تو کہاں ملتا تھا غیر از دم خنجر              

   اک تیر جو مارا بچے پیاسے کے گلے پر

          گردن سوںچلی دونوں طرف خون کی نالی       

            یہ عاشورہ نہیں کہتا کہ مجھ کو دیکھ زر دیکھو 

            دیا عشرے کا غم پی جائو عشرت کا اثر دیکھو

      یہ کہتا ہے کہ جس دم میری ابرو اک نظر دیکھو     

   رخ لب تشنگاں دیکھو دیا چشمان تر دیکھو

   محبؔ، سوداؔ، میر تقی میرؔ، میرحسنؔؔ، شیر علی افسوسؔ، حیدر بخشؔ حیدری، قیام الدین قائمؔ، قلندر بخش جراتؔ، اس عہد کے مرثیہ گویوں میں قابل ذکر ہیں۔یہ سب دہلوی انداز شاعری کے پروردہ تھے۔ افسوس کہ ان شعراء نے مرثیہ گوئی کو کسی پہلو سے آگے نہیں بڑھایا اور نہ ہی صنف سخن کو کوئی وسعت دی۔ ہر چند کے اس عہد کے تمام مرثیئے ،تنوع، موضوع اور ہیت کے لحاظ سے قدیم مرثیوں سے کہیں زیادہ آگے تھے اس عہد کے بڑے شعراء مرثیہ کو اس مقام تک لے آئے تھے جہاں کوئی انقلابی ہئیتی نظام مرثیوں کو بلندیوں تک لے جاتا۔

اٹھارویں صدی عیسوی میں عزاداری سارے ہندوستان میں پھیل چکی تھی ۔محرم کی تقریبات میں اجتماعی عمل ضعیف الاعتقادی ،طبقاتی فرق کی دیواروں کے ہٹ جانے کی تسکین کے جو سامان موجود ہیں ان کی وجہ سے انھیں عوام و خواص میں مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ عزاداری کے فروغ میں سلاطین ،نوابین، امراء اور جاگیردار وں نے کھل کر حصہ لیا اور سرپرستی کی۔ مرثیہ کا عروج اس زمانے میں ہوا ۔لکھنئو کی عزاداری کے زمانے میں حیدریؔ، سکندرؔ، گداؔ، احسانؔ، افسردہؔ ایسے مرثیہ گو تھے جنھوں نے مرثیہ کے فن کو عظمتیں بخشیں اور شاعرانہ نزاکتیں پیدا کیں۔ تمہید، رخصت،شہادت کے ساتھ مشاہدے کی باریکیاں ،محاکات نگاری وغیرہ ان کے وہ کارنامے ہیں جن کی بدولت مرثیہ شاعری کی قدر اول کی صنف سخن کہلائی۔ ’’تذکرہ ہند‘‘ میں شبلیؔ فرماتے ہیں ’’میر نواب صاحب نامی اک بزرگ نے جو میر خلیقؔ کے بیک واسطہ شاگرد تھے ۱۲۹۷ھ میں حیدرآباد دکن سے ایک مجموعہ چھاپا تھا ۔جس میں میر خلیقؔ، مونسؔ، اور انیسؔ کے چند مرثیئے جمع کئے تھے۔ اس میں میر خلیقؔ کے متعدد مرثیئے ہیں لیکن اکثر وہ ہیں جو اب میر انیسؔ کے نام سے مشہور ہیں ۔اور بعض ایسے ہیں کہ زبان اور طرز ادا سے قیاس ہوتا ہے کہ میر انیسؔ ہی کے نتائج فکر ہیں‘‘۔

 اٹھارویں صدی گویا مرثیئے کی نشاۃالثانیہ تھی۔اس صدی کے اہم شعراء خلیقؔ، فصیحؔ اور ضمیرؔ نے مرثیہ کو فن کی حیثیت سے بام عروج پر پہنچایا اور اعلیٰ درجے کی رزمیہ نظم کو وہ شان و شکوہ عطا کیا کہ وہ عالمی ادب میں  EPIC  کے شاہکاروں میں شمار ہونے لگی۔

           عباس نے غش سے جونہی آنکھوں کو کیا وا             

 سر پر شہ مظلوم کو روتے ہوئے دیکھا

            فرمانے لگے  روئو نہ  اے سرور  والا               

 جو آپ نے دیکھا تھی یہی میری تمنا

                   حق سر پہ سکینہ کے رکھو تم کو سلامت

 پر مجھ کو ہوئی سخت بھتیجی سے ندامت

             اب اتنی وصیت ہے مری آپ سے سرور       

 لے جاتے ہو ہر لاش کو جو خیمے کے اندر

              لاشہ میرا لے جائیومت یاں سے اٹھا کر

          پانی کا سکینہ کے گلہ باقی ہے مجھ پر

           اس داغ سے بے چین میں جنت میں رہونگا

           تا  حشر  سکینہ  سے  خجالت  میں  رہونگا       (خلیقؔ)

شہ نے عباس کو ناگاہ  پکار ا  اس  آں    

        اور کہا  تم ہو  بہر طور  علم کے شایاں

           ے عباس ہوئے شاہ کے پہلے قرباں     

     پھر علم لے کے کہا ہے مری عزت کا نشاں

                   کبھی فرزند محمد ﷺ کے قدم چومتے تھے

کبھی آنکھوں سے  لگا کر وہ علم چومتے تھے

              تم ہو مختار مرے ساتھ چلو یا نہ چلو         

 دین چاہو تو چلو  چاہو جو دنیا  نہ چلو

              مجھ کو واللہ کسی کی نہیں پروا نہ چلو             

پاس ایماں کاا گر ہووے تو مردانہ چلو

                   میںٹھہر تا نہیں  جنت کی  ہوا  آتی ہے     

           بارک اللہ کی گردوں سے صدا آتی ہے                    (فصیحؔ)

               بائیں طرف کو باغ حسن پر تھی یہ بہار  

       جس کے شہانے چوڑے پہ روح حسن نثار

اور گردو پیش جس کے رفیقان گل عذار

          وہ دشت  کربلا  ہوا  گویا کہ لالہ زار

           واں اختلاف رنگ شہادت کمال تھا

        بابا کا  رنگ سبز تھا  بیٹے کا  لال تھا                (ضمیرؔ)

         یہ کہہ کے دھنسا فوج میں وہ تیغ پکڑ کر       

   چاہا کہ دکھا دیجئے تلوار کے جوہر

           مانند قضا یہ گیا جس شخص کے سر پر   

          سیدھا ہی جہنم کو سدھارا وہ بداختر

           ششدر ملک الموت تھے حیران قضا تھی

      تعریف ملک کرتے تھے اور شیر خدابھی            (چھنو لال دلگیرؔ)

           اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت مرثیہ کا وہ ڈھانچہ ہے جو اس دور میں مقرر ہوا۔ لکھنئو کا ادبی ذوق اور عزاداری کے عقیدے نے مرثیہ کو وسعت دی اور اس میں ایسے عناصر داخل کئے جنھوں نے اس صنف سخن کو اردو شاعری کے لئے نئی منزلیں عطا کیں۔ اب مرثیئے کے اجزائے ترکیبی یہ تھے ۔(۱) چہرہ (۲) ماجرا(۳) سراپا (۴) رخصت (۵) آمد (۶) رجز (۷) جنگ (۸) شہادت (۹) بین۔

            غرض یہی وہ دور تھا جب مرثیئے کے ہیتی نظام اور اندرونی ساخت کی تشکیل ہوئی اور مرثیہ شعریات کے دوسرے اصناف سے ہم رتبہ ہوا۔ لیکن انیسؔ کے بعد مرثیئے کے یہ اجزائے ترکیبی پیمانے نہیں بن سکے۔ انیسویں صدی مکمل طور سے انیسؔ و دبیرؔ کی حکمرانی کا دور تھا۔ انیسؔ کے یہاں ذخیرہ الفاظ کی فراوانی ،تشبیہات ،استعارات رزم آرائی، مناظر، حالات، کیفیات، کردارنگاری،مکالمہ نویسی، محاوروں کی خوبیاں ،بندشوں کی چستی، معنی آفرینی،بلندی، تخیل، رعائت لفظی، صنعتوں کی بازیگری، کلام کے ایسے محاسن موجود تھے۔ میر ضمیرؔ، عشقؔ، تعشقؔ، اور بھی قابل اور قادر الکلام شاعر تھے مگر انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیئے تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ جذباتی تجربہ وفن کے اندرونی رابطہ کی وجہ سے صف اول کے مرثیہ گوکہلاتے ہیں۔ مرزا دبیرؔ کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے سے بہتر ہے کہ دبیرؔ کے مستند مجموعہ مراثی’’سبع مثانی‘‘ کے پیش لفظ میں نظیر الحسن فوقؔ کا یہ اعتراف پڑھ لیں۔ 

              ’’ اگر مرزا صاحب یہ محسوس کرتے کہ آج لکھنئو میں میر انیسؔ کے طرز کے شیدا بکثرت ہیں اور انھیں کا رنگ زیادہ پسند کیا جاتا ہے تو ان کے واسطے کچھ دشوار نہ تھا کہ وہ اپنے طرز سے ہٹ کر میرؔ صاحب کا طرز اختیار کرلیتے کیونکہ وہ اسی لکھنئو کے رہنے والے تھے۔ وہیں آنکھیں کھولیں ،وہیں زبان کھولی، لکھنئو کی اسی ٹکسالی زبان اور محاورے کے جاننے والے اور بولنے والے تھے اگر انھوں نے ایک مشکل اور ادق طرز میں کمال حاصل کر کے ایجاد مضامین کے دریا بہا دیئے تھے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایک نسبتا سہل طرز میں اپنی شہرت کا ڈنکا نہ بجا دیتے‘‘۔

بہرحال دانشوران سخن اور نقاد ان فن نے ایک طویل محاسبہ کے بعد مرثیئے کی فرمانروائی کا تاج انیسؔ کے سر پر رکھ دیا ۔جس کے وہ زیادہ مستحق تھے ،ملاحظہ ہو نمونہ کلام۔۔۔۔

           سرکا  کے  قدم  جلد  یہ  عباس  پکارے  

                 پھیرو  میرے  لاشے کو میں قربان تمھارے

        چھاتی میں ہے دم موت کے آثار ہیں سارے   

              قبلے کی طرف چاہیئے منہ اے میرے پیارے

بے دست ہیں اس وقت میں احساں کرو ہم پر

    رکھ دو میرا سر قبلہ عالم کے قدم پر

  کیا میرے لیئے روتے ہو بابا کو اٹھائو 

                          لللہ زمین سے شہ والا کو اٹھائو 

   میں اٹھ نہیں سکتا تمھیں مولا کو اٹھائو  

                     قدموں کی طرف سے میرے آقا کو اٹھائو

    واجب  پسر  مصحف  ناطق  کا  ادب  ہے

           قرآں کی طرف پائو ں قیامت ہے غضب ہے

            غش میں یہ سخن سن کے پکارے شہ ذیشاں                       

یہ کس کی صدا ہے میں اس آواز کے قرباں

          اکبر نے کہا کب سے تڑپتے ہیں چچا جاں

   مل لیجیئے کہ عباس کوئی دم کے ہیں مہماں

              پھر ہو نہ سکا ضبط امام ازلی سے

              لپٹے شہ دیں لاشہء عباس علی سے                  (انیسؔ)

            جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ انیسؔ کے بعد مرثیئے کی فنی ترکیب اور تشکیل آنے والے مرثیہ نگاروں کے لئے پیمانہ نہیں بنی۔ لیکن انھوں نے بہر حال مرثیئے کے عناصر ترکیبی کو تین حصوں میں سمیٹ لیا۔

                   ۱۔ماجرا         ۲۔شہادت        ۳۔ بین

               انیسؔ نے مرثیئے کے خدوخال کو وہ رنگ و روپ دیا اور فنی صلاحیتوں کو اس اوج ثریا تک پہنچایا کہ اس کے بعد کوئی گنجائئش ہی نہیں رہی۔ مگر زمانوں کے پس منظر میں اسلوب کی تبدیلی ناگزیر ہے اور تجربات تو قانون الہی کی طرح اٹل ہیں۔ انیسؔ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور انیسؔ کے پرچم کو افق کی نئی وسعتوں میں پھیلانے والے شعراء نے کمال فن کی نئی جہتیں ڈھونڈھ نکالیں۔ اپنی کتاب ’’اردو مرثیہ ، انیسؔ کے بعد‘‘ میں ڈاکٹر طاہر حسین کاظمی نے پیش گفتار میں اس کی صراحت اس طرح کی ہے۔ ’’ انیسؔ کے بعد کی مرثیہ نگاری اپنے موضوع کی وسعت کے اعتبار سے کسی خاص فرقے یا قوم کی شاعری نہیں رہ گئی تھی بلکہ عالم انسانیت کی شاعری بن گئی تھی۔ لہذا قریب قریب ہر فرقے اور ہر مذہب کے سنجیدہ طبقے نے مرثیہ سے اثرات قبول کرکے اسکی نگارش میں حصہ لینے کی کوشش کی۔ ان شعراء نے فکر، احساس تجربات اور مشاہدات کو فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ مرثیہ اخلاقایات کے ساتھ ساتھ ادبی حیثیت سے عام زندگی  کے قریب اور آفاقی اقدار کی ترجمانی کا ایک اہم ذریعہ بن گیا۔ یعنی زبان و بیان میں تناسب ،مضمون آرائی، تخیل آفرینی، مبالغہ آمیزی اور خارجی لوازمات کی شمولیت کی بناء پر اردو ادب میں مرثیئے کو مزید اہمیت حاصل ہوگئی‘‘۔

بقیہ صفحہ۴۹؍پر

عزائی ادب میں۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ۴۱؍سے آگے

مرثیہ کو نئی زندگی عطا کرنے والوں میں جوشؔملیح آبادی، جمیل ؔ مظہری، نسیمؔ امروہی، آل رضا، نجمؔ آفندی تھے۔ اور انھیں روایات کی پاسداری کرنے والے دوسری نسل کے شعراء میں فراتؔ زید پوری، قمرؔ جلالپوری، خبیرؔ لکھنوی، پیام ؔاعظمی، وحید اختر، مہدی ؔ نظمی، احسن ؔرضوی دانا پوری، شمیمؔ کرہانی، سہیلؔ آفندی، اور نظیرؔ باقری بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام شعرا کی فکری جہت اور فنی مہارت کے سلسلے میں ان کا کلام پیش کرکے اس پر تبصرہ کرنا ایک الگ موضوع ہے۔یہ مختصر سا مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا جو مرثیئے کے فن پرایک سرسری تجزیہ ہے اس سلسلے میں تشنہ لبان علم ادب کے لئے موجودہ عہد کی دو بے حد معتبر اور اہم کتابیں جام کوثر سے کم نہیں ہیں ، وہ یہ ہیں: 

       ۱۔ اردو مرثیہ (ابتداء سے انیس ؔ تک)           ڈاکٹر مسیح الزماں 

       ۲۔ اردو مرثیہ (میر انیسؔ کے بعد )    ڈاکٹر طاہر حسین کاظمی

        دونوں فاضل مصنفین نے مختلف عہد کے زمانوں کے پس منظر میں ادبی سرگرمیوں اور معاشراتی حالات کے تناظر میں مرثیہ نگاروں کی شخصیات اور ان کے کلام سے بحث کی ہے۔لسانی تغیرات ،تنقید ،خارجی اور داخلی ہییت کی جزئیات پر تبصرہ کیا ہے۔طالبان علم جو مرثیئے کی تاریخ اور ان کے ارتقاء کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ یہ کتابیں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ 

حواشی:  ۱۔  اردو مرثیہ (ابتداء سے انیس ؔ تک)     ڈاکٹر مسیح الزماں       ۲۔ تذکرہ ہندی   علامہ شبلی ؔ

۳۔ انیس ؔ کے مرثیہ      ڈاکٹر صالحہ عابد حسین

۴۔اردومرثیہ(انیس کےبعد)     ڈاکٹر طاہر حسین کاظمی

۵۔حدیفۃ السلاطین نظیرالدین ہاشمی

۶۔ رود کوثر                  شیخ محمد اکرام  

Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب