ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI
ذوق کی غزل گوئی
ایک تجزیاتی مطالعہ
ابوالکلام قاسمی
شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کے شاعرانہ مرتبہ کی تین نمایاں بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرکے استاد تھے۔ دوسری یہ کہ انہیں ملک الشعراء ہونے کا شرف اور اعزاز حاصل تھا اور تیسری یہ کہ انہیں محمد حسین آزاد جیسا تلمیذ رشید نصیب ہوا تھا۔جس نے اپنی دانست میں انہیں اپنے زمانے کا نمائندہ ترین اور غیر معمولی فنکار ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔پہلی دوبنیادیں ایک دوسرے سے مربوط ہیںکہ بادشاہ کے استاذ کا ملک الشعراء کے خطاب سے سرفراز کیا جانا کوئی حیرت کی بات نہیںلیکن محمد حسین آزاد نے ذوقؔ اور ان کے معاصرین کی جو فنی درجہ بندی کی اس کو وقتی طور پر تنقیدی استناد کا درجہ نصیب ہوا۔اس استناد کو انیسویں صدی کے وسط اور اواخر کے تذکرہ نگاروں نے مزید مستحکم کیا ۔ظاہر ہے کہ اس استناد بندی میں تذکرہ نگاروں کے ساتھ ملک الشعراء ہونے اور استاذ شہہ کی حیثیت سے مرکزی اہمیت اختیار کرنے نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا،نتیجے کے طور پر ذوق ؔ کے شاعرانہ مرتبہ کے تعین کی بیش تر بنیادیں ادبی اور فنی کم اور سماجی زیادہ ہوگئیں۔ اسلئے اس سے پہلے کہ ذوقؔ کی فنی قدر و قیمت کا تجزیہ کیا جائے،مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذوقؔ کے بارے میں ان آراء پر ایک نگاہ ڈالی جائے جن کے نتیجے میں غالبؔ اور مومنؔ تک کو ذوقؔ کے مقابلے میں کم تر درجے کے شاعروں میں شمار کرنے کا گمان گزرتا ہے ۔ ’’گلشن بے خار‘‘کے مصنف نواب مصطفے خاں شیفتہ نے لکھا کہ
’’رنگینی خیالش جلوۂِ لالہ وگل بہ نظری افزاید و شمع فکرش پروانہ واردل می رباید ۔قوت مشقے کہ اور است دیگرے را دیدہ نہ شدو مع ہذا رطب ویابس کہ شیو ۂِ بسیار گویان است،در کلامش کم تر، و بر جمیع اصناف سخن قدرت تمام دارد۔بالجملہ از شعرائے مسلم و مؤقر ست‘‘۔
گلدستۂ نازنیناں کے مصنف مولوی کریم الدین کا خیال تھاکہ
’’اکثر اشعار اس شاعر بے نظیر کے دیکھنے میں آئے مگر کوئی شعر ایسانہ دیکھا جس کا مضمون تازہ و دلچسپ نہ ہو ۔۔۔۔اب اس زمانے میں خصوصاًدہلی میں کوئی ان کے مقابلے کا نہیں‘‘۔
سرسید احمدخاں نے ان کے کلام کے جامع و مانع ہونے کا اعتراف اس طرح کیا کہ
’’اس قدر جامعیت کہ فصاحت عبارت اور متانت تراکیب اور تازگی طرز اور جدت معنی اور غرابت تشبیہ اور حسن استعارہ اور خوش اسلوبی کنایہ اور لطف تلمیح اور پاکی الفاظ اور بست قافیہ و نشست ردیف و نظم و نسق کلام اور حسن آغاز و انجام ایک جائے میں جمع ہیں‘‘۔
سردست اگر ان آراء میں رائے دینے والوں کے انداز کا تجزیہ نہ بھی کیا جائے ،جب بھی یہ بات واضح ہے کہ ذوقؔ اپنے معاصر شعری منظرنامے میں کس حد تک مسلم الثبوت تھے اور سماجی طور پر متعین ہوتے ہوئے شاعرانہ استناد اور فنی اقدار کے ان پیمانوں سے انحراف کرنا کتنا مشکل تھا۔
اس ادبی فضا میں پروردہ محمد حسین آزاد کی شخصیت اور ان کی افتاد طبع میں ہیروپرستی اور رومان پسند ی کا رجحان ،اپنی پسند و ناپسند کو شدت کے ساتھ نمایاں کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے ۔اور اس طرح آزاد ،ذوقؔکی شاعرانہ شخصیت کو ایک افسانوی کردار کے طور پر تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سیاق و سباق سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے استاذ کے بارے میں محمد حسین آزاد کے بیانات بہت زیادہ غیر متوقع کیوں خیال نہیں کیے گئے ہوں گے ۔وہ آب حیات میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں ۔انہیں قادر الکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی کہ ہر قسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں ۔ان کے مضمون کی باریکی کو ان کے الفاظ کی لطافت جلوہ دیتی ہے۔ ان کا مضمون جس طرح دل کو بھلا معلوم ہو تا ہے ، اسی طرح پڑھنے میں زبان کو مزہ آتا ہے ۔ ان کے لفظوں کی ترکیب میں خدا دادچستی ہے جو کلا م میں زور پیدا کرتی ہے ۔ وہ زور فقط ان کے دل کا جوش ہی نہیں ظاہرکر تا ہے بلکہ سننے والے کے دل میں ایک خروش بھی پیدا کرتا ہے اور یہی قدرتی رنگ ہے جو ان کے کلام پر سودا کی تقلید کا پر تو ڈالتا ہے ۔ ( آبِ حیات )
اس بیان میں ذوق کی مضمون آفرینی ، خیال بندی ، الفاظ سکے انتخا ب اور ’’ ازدل زیزد بردل خیر ‘‘ کے مصداق اچر انگریزی کوواضح طور پر سراہا گیا ہے ، اور ان کو سودا کا مقلد بتا کر ایک طرف سوداؔ کی شعری روایت کا استحکام کیا گیا ہے، تو دوسری طرف سودا کی شاعرانہ خوبیاں بھی اس انداز میں نمایا ں کی گئی ہیں گویا یہ اُن کی شاعری کاحسنِ ذاتی نہ ہوکر محض اس لیے قابل توجہ ہیں کہ اُن خوبیوں کو ذوقؔ نے قابل تقلید جا نا تھا۔ جہاں تک سوداؔ سے ذوقؔ کی اثر پذیری کا سوال ہے ، تو اس ضمن میں آزادکے خیال کی تائید اور اُس سے اختلاف میں متعدد نقادوں نے اظہار خیال کیا ہے، جس کاذکر قدرے بعد میں کیا جائے گا ۔ سب سے پہلے معرض بحث میں جو بات آنی چاہئے وہ یہ ہے کہ آزاد کے اس نوع کے متعدد بیانات میں ذوقؔ کا شاعر انہ مرتبہ متعین کر نے کی جو کوشش کی گئی ہے محض انفرادی رائے کی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اُس وقت کی پوری ادبی فضا، ذوقؔ کے اس شاعرانہ مرتبے کی توثیق کر تی ہے، اور آزاد کی رائے زنی اپنے زمانے کے لیے ناقابل تردید معلوم ہوتی ہے۔ آب حیات کے بارے میں شاید اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ تحقیقی طور پر پر محمد حسین آزاد کے بہت سے بیانات اور نتائج کو مسترد کیے جانے کے باوجود عرصۂ درازتک اُردو شاعری اور اُردو شاعروں کے بارے میں اُن کی بیشتررایوں کو استناد کا درجہ حاصل رہا ہے ۔ حدیہ ہے کہ بعد کے زمانے میں بھی آزاد کے معروضات تک کو ہماری تنقید نے اپنے رویے سے مسلمات کے طور پر قبول کیے رکھا ۔ لیکن ایک صدی بھی نہیں گزری کی ذوقؔ کی شاعری نا مقبولیت کے نہا ں خانوں میں گم ہو کر ادبی فراموش گاری کا حصہ بن گئی۔ اس بات کو عابدعلی عابد نے بھی تنویر احمد علوی کی کتاب’’ذوق، سوانح اور انتقاد‘‘ کا مقدمہ لکھتے ہو ئے اپنی سب سے بڑی مشکل بتایااور سوال قایم کیاکہ ذوقؔ کا کلام بتدریج نامقبول کیوں ہوتا رہا عابد علی عابد نے اس سوال کا جواب بر صغیر کی تاریخ میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے یہ بات بی حد تک درست ہے کہ وسیع معنوں میں تاریخ کے جبرنے ہی غالب ؔ اور مومنؔ تک کو انیسویں صدی کے اواخر میں ذوقؔ سے کم تردرجے کے شاعروں میں شمار کرایا تھا، اور اُس کی انتہایہ تھی کہ آب ِ حیات کے پہلے ایڈیشن میں مومن خان مومنؔ کو تو ذوق ؔ اور غالب ؔ کے معاصروں میں قابلِ ذکر بھی تصور نہیں کیا گیا اور یہ بھی تاریخ کا جبر ہی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز نے آزاد کی قائم کردہ ترجیحات میں تبدیلیاں پیدا کر دیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ محمد حسین آزاد کے سحر کا ر اسلوب کا طلسم ایسا ٹوٹنا شروع ہوا کہ آزاد کا سب سے بڑا ممدوح وقت اور ادبی شعری ذوق کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ روز بروز نامقبول ہو تا چلا گیا ۔ اسے ہم آزاد کی غلو پسند طبیعت کی بازیافت کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ اسی زمانے میں نظم طباطبائی نے غالب کی تشریح وتعبیر کے ذریعے ایک بالکل نیا تناظر فراہم کر دیا ۔ اس سے پہلے یاد گارِ غالب نے غالب فہمی کی گتھیاں بڑی حد تک سلجھا دی تھیں ۔ آبِ حیات کے دوسرے اڈیشن میں مومنؔ کا ذکر شامل کر دیا گیا تھا، تاریخی اور سماجی مرتبے کے مقابلے میں فی نفسہ شعری متن کی بنیاد پرانیسویں صدی کے شاعروں کی بازیافت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہوسکتا ہے اس صدی کے ادائل میں کچھ عرصے تک ذوقؔ کا سحر قایم رہا ہو مگر اس بدلے ہوے تنقیدی شعور نے ذوقؔ کی عظمت کو ہی آئینہ نہیں دکھایا بلکہ ذوقؔ اُن جیسے فنی رویوں کی نمائندگی کر نے والے شاعروں شاہ نصیرؔ اور ناسخؔ کو بھی تلاش مضمون اور معاملہ بندی تک محدد کر کے چھوڑدیا ۔ اگر ذوقؔ شاعر وں سواد ، نصیرؔاور ناسخؔ کے تسلسل کا حصہ ہو کر صرف ایک مخصوص رجحان قایم کر رہی ہو تی اور اس رجحان کے متوازی میرؔ کی روایت کی توسیع کر نے والے غالبؔ یاکسی حد تک مومنؔ اول الذ کر شعری رجحان سے زیادہ طاقتور ، دور ،رس اور فنی بنیادوں پر قائم روایت کو آگے نہ بڑھارہے ہو تے تو عین ممکن تھا ذوقؔ اسکول کی قدر وقیمت اُردو شعر امیں ہی نہیں بلکہ اُردو شاعری کی پوری تاریخ میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ اس رویے کی تبدیلی سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ذوقؔ کی شاعری قابل ذکر بھی نہ ٹھہری ، البتہ اتنا ضرور ہواکہ ذوقؔ روز بروزنظر انداز ہوتے چلے گئے ۔ اس موقع پر یہ بات بھی خارج ازبحث نہ سمجھی جائے گی کہ ذوق کے ساتھ ساتھ خصوصاً نا سخن کے تئیں اور عمومی طور پر سوادااور شاہ نصیر کے ساتھ بھی کم وبیش یہی رویہ اختیار کیا جانے گلا۔ ہمارے ناقدین کی اکثریت نے مقبولیت اور نامقبولیت کو شاعری کی تاریخ کے فکری ارتقاکے طورپر قبول کیا ہے ۔ عابدعلی عابد نے اس مسئلے سے بحث کرتے ہوئے ذوقؔ کی خوبیوں کو گنانے پر ہی اکتفا کیا جومجمومی طور پر روز مرہ ، محاورہ ، رعایت اور زباندانی کے نام سے آزاد، شیفتہؔیاسر سید احمد خان نے گنائی تھیں۔ اُن کے برخلاف شمس الرحمن فاروقی نے پوری صورت کو ایک چیلنچ کے طور پر قبول کرتے ہوئے ذوقؔ کو اُن کا جائزحق دلانے کی کوشش کی ۔ انہوںنے کسی شاعر سے اس حد تک بدظن ہو جانے کو مناسب قرار دیا اور کہاکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس شاعر سے لطف اندوز ہو نے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھیں ، اگر ایسا ہوا تو ہم اپنے پورے کلاسیکی سرمایے کے ساتھ بھی انصاف نہ کرسکیں گے ۔ ذوق ؔ کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
کسی شاعر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس شاعر کا عظیم ہوناضروری نہیں ۔ ذوقؔ بہت اچھے شاعر ہیں اور صرف اس لیے اچھے نہیں ہیں کہ انہیں استادی کا ہنر آتا ہے۔ ان کا کلام لطف انگریز ہے کیونکہ وہ لسانی اظہار میں ہنر مند ہیں ۔ میں تو شاعر کو لطف کی خاطر پڑھتا ہوں اور اگر مجھے ذوق کے بہت سارے کلام سے لطف حاصل ہو تا ہے تو میں ذوقؔکی قدر کر نا ہوں۔
اس تنقیدی رائے میں ایک ایسا توازن ہے جو معاصرشعری ذوق اور تنقیدی شعور کی چکاچوند میں کلاسکی شاعروں کی اہمت اور اپنے گزشتہ سر مایے میں لطف وانبساط کے عناصر کی تلاش وجستجو پر اصرار کرتا ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ذوقؔ کی شاعرانہ کا وشوں کو دور سے دیکھنے کے بجائے اُن کے متن کے دائرہ ِ کارمیں آکر قریب سے دیکھا جائے ۔
ذوقؔ کو ایک قصیدہ نگار کی حیثیت سے جو اہمیت حاصل ہے، ، اس پر عموماًسوالیہ نشان نہیں قایم کیاگیا۔ ابھی تک ذوقؔایک عالم تھے، زبان وبیان کے اسرار اور رموز سے واقف تھے ، الفاظ کو معمولی سے معمولی معنوی فرق کے ساتھ استعمال کر نے کا ہنر جانتے تھے اور نئے نئے مضامین کو ڈھونڈ نکالنے میں امتیاز رکھتے تھے۔ یہ تمام صفات اُن کی غزلوں میں کسی نہ کسی صورت میں ملتی ہیں ۔ لیکن اُن صفات نے صنفی طور پر قصید ے سے زیادہ ہم آہنگ ہو نے کے باعث قصیدہ میں زیادہ کار آمد صورت میں اظہار پا یا، اوراُن عناصر کی شمولیت نے ذوق ؔ کے قصیدے کو جس نوع کی بلند آہنگی سے ہمکنار کیا وہ بھی قصیدے کا ایک بنیادی عنصر بن گیا۔ لیکن غزل میں ذوقؔ کی بلندآہنگی خطابیہ اسلوب سے قریب ہو گئی ، اور جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ غزل کو خطابیہ اسلوب سے کہیں زیادہ خود کلامی اور تحت البیانی راس آتی ہے، اس لیے ذوقؔ کی غزل اپنے لہجے، اسلوب اور فنی رویے کے اعتبار سے زیادہ قابل توجہ قرار نہ پائی ۔ ذوقؔ جب اپنے قصیدے میں اس طرح کے اشعار کہتے ہیں کہ:
ساون میں دیا پھر مہہِ شوال دکھائی
برسات میں عید آئی قد ح کش کی بن آئی
سردی حنا پہنچے ہے عاشق کے جگر تک
معشوق کا گر ہاتھ میں ہے دست حنائی
یا یہ کہ
ہو گیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنون
بیدِ مجنوں کا بھی صحرا میں نہیں باقی پتا
ہو تا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو
برگ میں ہر نخل کے سرخی ہے جوں برگِ حنا
تو ان شعروں کے دور ازکار مضامین قصیدے کی تشبیب کو نکھار دیتے ہیں ، جب کہ صرف مضمون کے لیے غزل میں شعر موزوں کر نا اس حد تک مستحسن نہیں تصور کیا جاتا ۔ لیکن مضمون آفرینی کا چونکہ شاعری میں اپنا الگ خاص مقام ہے اس لیے اُن کی غزل کے ایسے اشعار کو بھی ہم صرف معاملہ بندی کا نام دے کر نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
دفن جس جا پر ہے کشتہ سرد مہری کا تری
بیش تر ہو تا ہے پیدا واں شجر کا فور کا
موت ہی سے کچھ علاج دور فرقت ہو تو ہو
غسل میت ہی ہماراغسل صحت ہو تو ہو
رکائو خوب نہیں طبع کی روانی میں
کہ بو فساد کی آتی ہے بندپانی میں
ہے ان کی چشم کی گردش پہ گردشِ عالم
جدھر ہو اُن کی نظر سب اُدھر کو دیکھتے ہیں
بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
ہم اپنے ہا تھوں کا مژگان سے کام لیتے ہیں
ان تمام شعروں میں مضمون آفرینی کاعمل واضح اور نمایا ں ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی موخرالذ کر دوشعروں میں مضمون کے ساتھ اس کے بیان میں چشم کی گردش ، گردش عالم، نظر اور دیکھتے ہیں ، جیسے نکات کے استعمال نے شعر کو پیکر تراشی کی سطح پر پہنچادیا ہے، اسی طرح بعد کے شعر میں بھی آنکھوں سے بلائیں لینے میں محاورہ کا استعمال اور محاورے کی تحریف کے ساتھ ایک پر لطف امیج ابھارنے کی کوشش ، محتاج وضاحت نہیں ، تاہم ذوقؔ کی مضمون کی آفرینی ، معاملہ بندی اور محاورہ بندی بسااوقات تنافر معنوی کی سر حدوں کو چھو نے لگتی ہے تو جاؤ کالا منھ کرو لفظی ، کبھی تنافر صوتی اور کبھی تعقید معنوی کے شکار ہو تے ہیں اور ایسے شعروں کی تعداد وافر ہے، مگر یہاں صرف ایسے شعروں پر اکتفا کر نا مناسب ہو گا جن کی مدد سے ذوقؔکی غزل کی قدرے مثبت قدروں کی نمائندگی ہو سکتی ہے۔ ذوقؔ کے معاصرین اور موخرین نے ذوقؔ کی زباندانی ، مناسبات لفظی ، روز مرہ اور محاورے کے خوبصورت استعمال اور لفظی ومعنوی رعایتوں کا ذکر کثرت سے کیاہے۔ یہ تمام چیزیں رسومیاتی طور پر ہنر مندی کے ذیل میں آتی ہیں ۔ فنی ہنر مندی کے مطالبے کچھ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ تاہم شاعری کے بنیادی وسیلہ اظہار یعنی زبان اور لفظ کی سطح پر شعر میں بعض نئے گو شے پیدا کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ۔
گل اس نگہہ کے زخم رسید وں میں مل گیا
یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا
مذکور تیری بزم میںکس کا نہیں آتا
پر ذ کر ہمارا نہیں آتا ، نہیں آتا
اشک کے قطرے جو مژگان پراکٹھے ہو گئے
دانۂ انگور کے بھی دانت کھٹے ہو گئے
بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا
نو شتہ سے ہوا اک حرف بھی ہر گز نہ پیش وکم
جو پیشانی میں تھا لکھا ہوا وہ پیش سب آیا
جس جگہ بیٹھے ہیں بادید ِۂ نم اٹھے ہیں
آج کس شخص کا منھ دیکھ کے ہم اٹھے ہیں
قصد جب تیری زیارت کا کبھو کر تے ہیں
چشم پر آب سے آئینے وضو کرتے ہیں
روز مرہ اور محاورے کے استعمال کے علاوہ متعد د صوتی مناسبت اور تقریباً ہر شعر میں غزل کو زبان دانی کے اظہار کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔ متذ کرہ آخری شعر میں چشم ، آب ، زیارت ، وضو اور آئینہ کے جیسے لفظوں کو جس طرح تلازمات اور انسلاکات کے دھاگے میں پر ویا گیا ہے اس کی داد نہ دینا بد مذاقی نہیں تو اور کیا ہے ۔ متذ کرہ بالا مثالوں میں جن اشعار سے مثالیں دی گئی ہیں اُن میں بیش تر شعر مطلع کے ہیں ۔ ذوقؔ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اُن کے کسی بھی مطلع میں دونوں مصرعوں کا باہمی ربط اس حد تک علت ومعلوم اور سبب کی سطح پر ناگزیر ہو تا ہے کہ شعر کے دولخت ہو نے کی بات تو دور کی ہے ، کوئی لفظ یا کوئی تر کیب بھر تی کے لیے منتخب کیے جانے کا تاثرتک نہیں دیتی ۔ اکثر ایسا ہو تا ہے کہ وہ اپنے مطلع میں تمثیلی طریقِ کار کا استعمال کر کے دعویٰ اور دلیل کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔ شاید یہی سبب ہے کہ صفیر بلگرامی نے ذوقؔ کے ایک مطلع کی تحسین میں اپنا قلم صرف کر دیا ہے ۔ ذوقؔ کا مطلع ہے :
توجان ہے ہماری ا ور جان ہے تو سب کچھ
ایمان کی کہیں گے ایمان ہے تو سب کچھ
اس کے بارے میں صفیر کا خیا ل ہے کہ :
جناب ذوق نے ( یہ ) مطلع تو ایسا لکھا کہ جس کا جواب نہ ، اُن سے ہو سکتا تھا، نہ کسی اور سے ہو ااور نہ آئندہ ہو گا ، وہ ممتنع الجواب ہے ۔ یہ سب کچھ کا علاقہ سوا’جان‘ و’ ایمان‘ کے کسی کے ساتھ نہیں ، اور اُس کو انہوں نے ختم کیا ، اب کسی سے کیا ہوسکے گا ۔ ( تذ کرہ جلوۂِ خضر ، ۲۳۱)
ذوقؔ نے سوداا ور ناسخ کی زمینوں میں متعدد غزلیں کہی ہیں ، محمد حسین آزاد نے آب حیات اور دیوانِ ذوقؔ میں ایک سے زیادہ بار ذوقؔ پر سودا ؔ کے اثرکا ذکر کیا ہے ، لیکن یہ ذکر اسی طرح بلاد لیل ہے جس طرح ذوقؔ کے میر ، مرزا ؔ، درد،ؔ مصحفیؔ ، انشا اور جرأتؔ ، سب سے متاثر ہو نے کا ذکر تے ہیں۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے سود اسے اثر پذیری کی بات کو تسلیم کیا ہے لیکن وہ ساتھ ہی ناسخؔ اور نصیرؔ کے اثر کے بھی منکر نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ :
’’سوداؔکے فکر وفن کے اثر ات ذوقؔ کے شعور شعر پر اتنے محدود نہیں ۔ اس میں وہ اثرات بھی شامل ہیں جو انہوں نے ناسخ ؔ اور نصیر ؔ کے توسط سے قبول کیے ‘‘۔ (ذوقؔ ، سوانح وانتقاد ۱۸۵)
لیکن ڈاکٹر علوی بھی اپنے دعوے کے لیے کوئی دلیل پیش نہیں کرتے ۔ انہوں نے اتنا البتہ کیا ہے کہ سوداؔ اور ناسخ ؔ کے بعض مطلع ناسخ کے ہم زمین مطلعوں کے آمنے سامنے لکھ کر موازنہ کی راہ ہموار کر دی ہے، خود کوئی ، موازنہ نہیں کیا۔ ہم زمین غزلوں سے اس بات کا اندازہ تو ضرور ہو تا ہے کہ شاعر نے شاید سانچے کے طور پر کسی خاص زمین کو آہنگ کی رہنمائی کے لیے نمو نہ بنایا ہے ، مگر چراغ سے چراغ جلانے کا یہ سلسلہ اتنا طویل اور اتنا پیچیدہ ہے کہ صرف زمین کی یکسانیت فنی قدروقیمت کی تفہیم میں زیادہ معاون نہیں ہو پاتی ۔ مثال کے طور پر ناسخؔ کے اس مطلع کو دیکھئے :
صبحِ فراق میں ہوئی قدر شب وصال
آیا ہے پیری میںعالم شباب کا
اس مطلع پر جب ذوق ؔ نے یہ مطلع کہا کہ :
جنت ہے زندگی میں زمانہ شباب کا
پیری ہے پہلے مرگ سے ہو نا غداب کا
تو محسوس ہو تا ہے کہ ناسخؔ کے مطلع میں ساستعارے کا جو جزوی استعمال ملتا ہے وہ ذوق ؔ کو میسر نہ ہو پانا ، اور ذوقؔ کا مطلع میں استعارے کا جو جزوی استعمال ملتا ہے وہ ذوقؔ کو میسرنہ ہو پا یا اور ذوق کا مطلع سپاٹ، مغلق اور زبان وبیان کے اعتبار سے بھی معمولی ہو کر رہ گیا ۔ ایسا جگہ جگہ ہو اہے مگر ہر جگہ نہیں ۔ ناسخؔکا مطلع ہے کہ ؎
رہے ہر دم نہ کیوں کر دل نشانہ ناوکِ غم کا
کہ ہے میرا تولد ہفتم ماہ محرم کا
اس زمین میں ذوقؔ کہتے ہیں کہ :
جہاں میں عرصۂ عشرت سواوہ چند ہے غم کا
کہ گر ہے عید کا اک دن عشرہ ہے محرم کا
اس مطلع میں’ وہ چند‘ اور ’عشرہ ‘ کی مناسبت اور عرصہ عشرت اور عید کی رعائت کے پذیری کا تعلق موثر اور متاثر شاعر کے بعض شعروں کے بہتر یا کم تر فنی مر تبے سے کم ، زبان کی طرف دو نوں کے رویے ، شعری طریق کار کے استعمال ، اور فنی تدبیر وں کی یکسانیت سے زیادہ ہو تاہے ۔ اس لئے ذوقؔ کی غزل کے حوالے سے اُن کے شعری مزاج اور زبان کی طرف اپنائے جا نے والے رویے کارشتہ ناگزیر طور پر ناسخ سے مربوط معلوم ہو تا ہے ۔ اس بات کو شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مختصر تجربے سے بجا طور پر ثابت کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ :
بڑی زیادتی محمد حسین آزاد نے یہ کی کہ انہوں نے آب حیات میں ذوقؔ پر اُن تمام لو گوں کے اثر کا ذکر کیا جن کے کلام سے ذوقؔ کو کوئی خاص علاقہ نہیں اور اُس شاعر کو چھوڑ دیا جس نے اُن کے لے شیر مادر کا کام یا… اس بات میں کوئی کلام نہیںکہ ذوقؔ کی غزل کی کلید ناسخؔ کی غزل میں ہے ۔ مجموی حیثیت سے ناسخ ؔ کا مرتبہ ذوقؔ سے کچھ بلند ٹھہرا ہے ۔ لیکن ذوقؔ کے یہاں ایک آزاد تنوع اور پر بہار تجر باتی فضا ملتی ہے جو انہیں ناسخ سے بھی ممتاز کرتی ہے۔
متقدر ین اور معاصرین سے اثر قبول کر نے اور براہ راست یا بالواسطہ کسب فیض کر نے کی بات نکل آئی ہے تو ذرا ہم یہ دیکھتے چلیں کہ ذوقؔ ا ور معاصر جو ذوقؔ کی پذیرائی اور مطالغہ آمیز تعریف وتوصیف کا سب سے زیادہ شکار ہوا، وہ دوسرے شاعروں کے مضامین کو کن جہات اور کن امکانات سے آشنا کر دیتا ہے، کہ اس پر اکثر کسی اثر پذیری کا گمان تک نہیں گزرتا ۔ ذوقؔ کا یہ شعر ہے کہ:
ہم وہ مجنوں ہیں کہ گرد ام آہوں کی طرح
بھاگے ہے دورہی سے دیکھ کے صحرا ہم کو
غالب کہتے ہیں :
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
اسی طرح ذوقؔ کا ایک شعر ہے کہ :
سو ٹکڑے میں ایڑی کے بہ رنگ گل صدبرگ
کیا دشت نوردی میں کترتا ہے جنون گل
اور اس سے ملتے جلتے پیکروں کی مدد سے غالب ؔ جب اپنی بات کہتے ہیں تو اس طرح کہتے ہیں کہ :
دیکھو تو دل فریبئیِ انداز نفشِ پا
موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
ذوقؔ نے اول الذ کر شعر میں اسی طرح صحرا کے بھاگنے کا ذکر کیا ہے جس طرح غالب ؔ نے اپنے شعرمیں بیاباں کے بھاگنے کا، لیکن ذوق نے صحرا کے بھاگنے کو’’ کردام آہوں ‘‘ کی طرح کہہ کر ایک طرح کا گرد پوش التباس بنا دیا ہے جب کہ غالب ؔ کے شعرمیں استعارے نے امیجری سے ہم آہنگ ہو کر بیان کے دائرۂ کاز میںمزید وسعت پیدا کر دی ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر میں ذوقؔ نے اپنی عام سطح سے بلند ہو کر امیجری بنانے کی شکل میں دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں اور اس پرمسترادیہ کہ اس پورے عمل کو جنون کا گل کتر نابتا یا گیاہے جو اپنے آپ میں اعلی درجے کی پیکر تراشی کے مصداق ہے ۔ ذوق ؔکے برخلاف غالب ؔ کے شعر میں محبوب کے خرام ناز کو گل کتر تے ہوئے چلنے کا مترادف بتا یا گیاہے۔ پیکر تراشی کا عمل ذوقؔ کی طرح غالبؔ کے شعر میں بھی نمایا ہے مگر ذوقؔ کے شعر میں شاعر کا اپنے آپ کو ایک خاص معروضے فاصلے سے دیکھ کر غیر جانب درانہ رویہ اختیار کر نا غالبؔ کے شعر سے کہیں زیادہ لائق تحسین ہے۔ اس سطح کے معدودے چند شعر یقینا ذوقؔکے دیوان میں ملتے ہیں ۔ عموماً اُن کے نقادوں نے ایسے اشعاروں کو بھی ذوقؔ کے اعلی درجے کے شعروں میں شمار کر لیا ہے جو زبان زدبن چکے ہیں ۔مثلاً:
اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ سے ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و حضر سے
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہے وہ جو تکلف نہیں کر تا
تم نے دشمن ہے جو اپنا ہمیںجانا اچھا
یا ر ناداں سے تو ہے دشمن دانااچھا
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
گلہارے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
اے ذوقؔ اتنا دختر زر کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہو ئی
یہ اِس طرح کے ان گنت شعریا اُن کے بعض مصرعے کہاوت یا ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پندو نصائح کو نظم کر دینا یا روایتی کہاوتوں کو موزوں کردینا، مقبولیت کی راہ تو ضرور ہموار کرتا ہے ، مگر کیا اس طرح کی مقبولیت شاعری کی فنی قدروقیمت کا حصہ بھی شمار کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہو گااور اس طرح کے اشعار کی مقبولیت کی بنیادفنی قدرکے بجائے سماجی قدر کے خانے میں رکھی جائے گی ۔ ایسے اشعار میں شاعر کا ناصحانہ رول فنی طورپر شعر کی سطح کو بلند ہو نے نہیںدیتا،اسی باعث ایسے اشعار میں معنی اور مصداق کا تعین معنوی امکانات کی مکمل نفی کر تا ہے ۔ اُن کی مثال سعدی کے اُن اقوال ذرین کی سی ہے جن میں زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کر نے کی کو شش کی گئی ہو تی ہے ۔ ایسے تجربات اگرجچے تلے لفظوں کے ساتھ نثر میں بھی بیان کیے جا تے تو بھی اُن کی مقبولیت میں کوئی فرق نہ پڑتا ۔ ذوقؔ کا بنیادی مزاج ایک ناصح کا مزاح ہے، اور یہی مزاح ذوقؔ کی شاعری کے بڑے حصے کو فنی طور پر ایک خاص سطح سے زیادہ بلند نہیں ہو نے دیتا ۔ ویسے ذوقؔ کے مشہور اشعار میں بعض ایسے بھی ملتے ہیں جن میں تجر بے کی آنچ موجود ہے مگر چونکہ ان میں ناصح کی حیثیت سے شاعر غیر موجود ساہے ، اس لئے اُن کی فنی سطح قدرے بلند ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند شعر ملا خطہ کیے جا سکتے ہیں :
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سوالِ بوسہ کو ٹالا جواب چین ابروسے
برات عاشقاں برشاخ آہو اس کو کہتے ہیں
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے
اگر یہ جا نتے تو ڑیں گے ہم کو چن چن کے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کر
اَن اشعار کالب ولہجہ غیر مصنوعی اور بے ساختہ ہے ، اس لئے اُن شعروں کی مقبولیت میں سادگی اور زبان کے فطری استعمال کا کر دار بہت واضح ہے ۔ ذوق کے ایسے شعر جن میں ناصح کی حیثیت سے شاعر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ، ان کے مقابلے میں یہ اشعار زندگی کی زیادہ گہری اور آز مودہ حقائق کا اظہار کر تے ہیں ۔ تقریباً ہر جگہ شعری تجر بہ کے ساتھ تخّیل کی کار فر مائی نمایاں ہے اور ان شعروں سے خیال بندی اور تخیل کے فرق کو بھی بہ آسانی محسوس کیاجاسکتا ہے۔ ذوقؔ کے سلسلے میں یہ بات اس باعث اہم ہو جاتی ہے کہ ان کی غزل میں خیال بندی کا رجحان اتنا قوی ہے کہ اس رجحان کی بالا دستی کے باعث فنی ہنر مندی یا تخیل اور امیجری پر مبنی شعروں تک عام طور پر تنقید کی نگاہ ہی نہیں پہنچتی ۔
اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ ذوقؔ کی سب سے بڑی قوت اُن کی زبان ، محاوروںپر ان کی دستر س اور بندش کی چستی ہے، لیکن اس قوت کا استعمال رسمی مضامین ، خیال بندی اور لسانی ہنر مندی تک با لعمول محدود ہو کر رہ جاتا ہے، اُن کی غزل میں اسی تخلیقی جدت کی کمی ملتی ہے جو تجربے کی قلب ماہیت کر دیتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ اکثر تجربہ اپنے سماجی یا واقعاتی حوالے کی حد تک بیان ہو کر رہ جاتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ وہ اپنے اچھے لمحوں میں اپنی تخلیقی شخصیت کے جو ہر بھی دکھاتے ہیں اور کبھی کبھی استعارہ سازی اور متحرک حسی پیکروں کی تخلیق کر نے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ اس معروضے کی دلیل کے طور پر اُن کے بعض اشعار کو خصوصیت سے دیکھا جا سکتا ہے:
آج پہنچی سر گرداب فنا کشتی عمر
ہر نفس باد مخالف کا ہے جھونکا ہم کو
تو اگر آپ کو دیکھے تو مری آنکھ سے دیکھ
اپنا آئینہ مرا دیدۂ پُر آب بنا
یہ چاہتا ہے شوق کے قاصدبجائے مہر
کانٹاسا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا
ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا
کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا
پہلے شعر میں جس طرح گرداب کے ساتھ کشتی ، عمر کے ساتھ فنا، نفس کے ساتھ باد مخالف اور جھونکا جیسے الفاط کا استعمال کیا گیا ہے وہ لفظی تلازمات کے اہتمام کا بھی احساس دلاتا ہے اور پورا شعر اپنے آپ میں ایک ایسا مکمل استعارہ بن جا تا ہے جس کے ساتھ متحرک پیکر بھی شامل ہو گیا ہے ۔ اس طرح دوسرے شعر میں اپنے دیدۂِ پر آب کو محبوب کا آئینہ بنانے کا بیان بھی ایک مکمل استعاراتی پیکر بناتا ہے ۔ باقی شعروں میں آنکھ کو لفافہ پر لگنے والی مہر کی شکل میں دیکھنا، تارنفس کو کانٹے کی کھٹک سے تعبیر کر نا اور قلقل مینا کے صوتی نشیب وفراز کو ہنسنے اور رونے کے متضاد عمل کے مصداق قرار دینا، جیسے متحرک حواس پر مبنی پیکر ذوق کی غزل کو ایک بالکل مختلف تناظر میں پیش کرتے ہیں ۔ اپنے ایک شعر میں ناخن غم کی خراش کو ہلال عید کی طرح لبر یز صد نشاط کر ذوق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے استاد انہ قادر الکلامی کے ساتھ متذ کرہ اشعار کی طرح زبان کو اس کے تمام امکانات کے ساتھ آمرانہ حیثیت دی ہوتی تو ان کی غزل زیادہ دور رس اور دیر پا ہو تی ۔
تاہم اس حقیقت کے اعتراف کی ضرورت ہے کہ ہماری تنقیدنے گذشتہ نصف صدی میں جس طرح دبیز لہجے کے تہہ دار اور علامتی واستعاراتی اسلوب کے نمائندے ناانصافی اور بے تو جہی کا شکار ہو گئے ہیں ۔ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ اُردو شعریات کی بازیافت کی کوشش کے ساتھ ذوقؔ جیسے ہنر مند اور خوشگوار شاعروں کی بازیافت کے امکانات اب مزید روشن ہو تے نظر آتے ہیں ۔
٭ ٭٭٭٭مارچ ۲۰۱۳ ......ماہنامہ تریاق.....ممبئی
Comments
Post a Comment