LAJWANTI AFSANA ( Tajziya By Salam Bin Razzaque)
تجزیاتی نوٹ: سلام بن رزاق
بیدی نے منٹو اور کرشن چندر کے ساتھ بیسویں صدی کے چوتھے دہے کے آخر میں لکھنا شروع کیا مگر شروع شروع میں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جو کرشن چندر اور منٹو کو نصیب ہوئی۔اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ بیدی کے پاس نہ کرشن چندر جیسی رومانی نثر تھی نہ منٹو جیسی جرأت و بیباکی تاہم ان کے پاس وہ فنکارانہ بصیرت ضرور تھی جو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا نظارہ کرلیتی ہے۔ان کا مشاہدہ تیز اور تخیل بلند تھا۔اپنے دوسرے افسانوں کے مجموعہ ’’گرہیں ‘‘کے دیباچے میں خود بیدی فرماتے ہیں۔
’’جب کوئی واقعہ مشاہدے میںآتا ہے تو میں اسے من و عن بیان کردینے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں‘‘۔
بیدی اپنے عہد کی سب سے بڑی تحریک یعنی ترقی پسند تحریک کے ہم نوا ضرور تھے مگرکرشن چندر کی طرح انھوں نے اپنے فن کوتحریک کامینوفیسٹو اور افسانے کو نظریاتی تبلیغ کا ذریعہ نہیں بنایا اس لئے ان کا فن مقصدیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہا۔بیدی کا محبوب موضوع انسانی رشتے، بالخصوص عورت اور مرد کا رشتہ ہے۔عورت کو ان کے افسانوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ان کے افسانوں کی عورت ،رومان پسند افسانہ نگاروں کی نہ جنت ارضی کی حور ہے نہ ترقی پسندوں کی عورت کی طرح وہ اپنے آنچل سے پرچم بنانے کا گُر جانتی ہے۔یہ نچلے متوسط طبقے کی خالص ہندوستانی عورت ہے جو ان کے افسانوں میں کبھی مدن کی اندو بن کے آتی ہے تو کبھی سندرلال کی لاجونتی،کبھی رسید کی ہولی بن جاتی ہے تو کبھی رتن کی درشٹی۔دوسرے روپ میں وہ جبل کی سیتا اور اغوا ،کرکسو اور کوکھ جلی میں ایک ماں کا روپ دھارن کرلیتی ہے۔عورت کو انھوں نے نہ اتنا گرنے دیا کہ وہ طوائف ہوجائے نہ اسے عظمت کی ان بلندیوں پر بٹھا دیا جہاں وہ دیوی بن جاتی ہے۔ان کے افسانوں میں عورت ہزار روپ اختیار کرکے بھی عورت ہی رہتی ہے کیونکہ عورت ہی زندگی کی تخلیق کا سرچشمہ اورکائنات کی تصویر کا رنگ ہے۔
یہاں ’بازخوانی‘ کے طور پر ان کا مشہور افسانہ ’’لاجونتی‘‘پیش کیا جارہا ہے۔’’لاجونتی‘‘تقسیم اور فسادات کے پس منظرمیں لکھا ہوا بیدی کا وہ شاہکار افسانہ ہے جو اردو افسانے کے ہر انتخاب میں شامل رہا ہے۔اس کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس افسانے کے پلاٹ میں رامائن کی کتھا سے استفادہ کیا گیا ہے لہذٰا اس کا استعاراتی پہلو ہمیں اس کی معنوی فضا کی توسیع کرتا نظر آتا ہے۔
’’لاجونتی‘‘میں سیتا کے کردار کا ایک دوسرا روپ دکھائی دیتا ہے۔اس میں انھوں نے تقسیم کے پس منظر سے ’’لاجونتی‘‘کے کردار کو چنا ہےاور اسے ایسی عظمت بخشی کہ آج لاجونتی اردو فکشن کا ایک ناقابل فراموش کردار بن گیا ہے۔تقسیم نے لاکھوں گھر اجاڑدیے اور کروڑوں کو بےگھر کردیا۔اس آندھی میں سندرلال بھی ایک تنکے کی طرح اڑ کر پاکستان سے ہندوستان پہنچا۔اس آندھی میں اسکی بیوی لاجونتی اس سے بچھڑ جاتی ہے اگرچہ یہاں سندر لال کا کردار رام کے کردار سے میل نہیں کھاتا مگر لاجونتی کی معصومیت اور مظلومیت اسے سیتا سے قریب کردیتی ہے۔ تقسیم کے بعد مغویہ عورتوں کو بسانے کی تحریک شروع کی جاتی ہے ۔سندرلال اس کمیٹی کا سیکریٹری بن جاتا ہے ۔چونکہ اس کی بیوی ’لاجونتی‘بھی اغوا ہوچکی ہے اس لئے وہ ذاتی طور پر اس کرب سے آشنا ہے ۔افسانہ میں رامائن کی کتھا پس منظر میں کام کرتی ہے۔
’نارائن باوا‘رامائن کا وہ حصہ سنا رہے ہیں جہاں ایک دھوبی کی بات سن کر راجا رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا تھا۔نارائن باوا کہتے ہیں؛
’’یہ ہے رام راج!جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنے ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘‘۔سندرلال اس کتھا کو سن کر برگشتہ ہوجاتا ہے وہ کہتا ہےـ:
’’مغویہ عورتیں سیتا کی طرح نردوش، معصوم اور مظلوم ہیں انہیں دوبارہ بسانا انسانیت ہے‘‘َ۔
پاکستان اور ہندوستان کی مغویہ عورتوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور انہیں عورتوں کے ساتھ ’لاجونتی‘ بھی واپس آجاتی ہے۔سندرلال لاجونتی کو بسالیتا ہے۔
اگر کہانی صرف اتنی ہوتی تو یہ کہانی بھی فسادات اور تقسیم کے موضوع پر لکھی ہوئی سینکڑوں کہانیوں کے انبار میں گُم ہوجاتی۔مگر بیدی نے اپنے نوک قلم سے لاجونتی کے نازک احساسات کی گرہیں کھول کر انسانی نفسیات کا ایک شاہکار بنادیا ہے۔نچلے متوسط طبقے میں عورت کو ابتدا ہی سے پیر کی جوتی سمجھا جاتاتھا۔آج بھی تانیثیت اور آزادیٔ نسواں کی پرجوش تحریک کے باوجود عورت کی بنیادی حیثیت میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔سندرلال بھی اغوا ہونے سےپہلے لاجونتی کو پیر کی جوتی کی طرح استعمال کرتا تھا۔یعنی اس سے خدمت بھی لیتا تھا،جنسی ضرورت بھی پوری کرتا تھااور موقع بےموقع اسے پیٹتا بھی تھا۔لاجونتی مار کھانے کے بعد صرف اس کے ایک بار مسکرانے پر دوبارہ لپک کر اس کے پاس چلی جاتی اور گلے میںبانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اٹھتی.......’’پھر مارا تو تم سے نہیں بولوں گی‘‘۔
یہاں بیدی نے لاجونتی کے روپ میں عورت کی معصومیت کی ایسی سچی تصویر کھینچی ہےجو دل میں اتر جاتی ہے۔لاجونتی دوبارہ بس تو جاتی ہے مگر اصلاً اجڑ جاتی ہے۔اس لئے کہ اب سندرلال اس سے اس طرح پیش آتا ہے جیسے وہ کانچ کی بنی ہو۔وہ اسے دیوی کہنے لگا۔لاجونتی دیوی نہیں بننا چاہتی تھی۔وہ سندرلال کی وہی پرانی ’’لاجو‘‘ہونا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی تھی۔اسے ہمدردی کی نہیں پیار کی ضرورت تھی۔اس پیار کے بدلے وہ مارکھانے کو بھی تیار تھی۔یہاں ایک اور نکتہ ابھرتا ہے۔اسے سیتا کی طرح اگنی پریکشا سے تو گزرنا نہیں پڑا مگر وہ تقسیم کے خون اور آگ کے دریا سے گزر کر آئی تھی۔سندرلال نے اسے دیوی کے آسن پر بٹھا کر اس کے اندر کی لاجو کو زندہ دفن کردیا۔اس کے لئے یہ اگنی پریکشا سے زیادہ صبرآزما تھا۔بیدی لاجونتی میں رامائن کے دھوبی والے واقع کا سہارا لے کر معاشرے میں مرد کی بالادستی پر ایک گہری چوٹ کرتے نظر آتے ہیں۔دوسری طرف سندرلال جب لاجو کو دوبارہ بسالیتا ہےتو اس کا کردار ہماری نظروں میں ایک دم سے بلند ہوجاتا ہے۔یہ کہانی تقریباً ساٹھ پینسٹھ برس پہلے لکھی گئی تھی اس درمیان اردو مختصر افسانے نے کئی کروٹیں بدلیں تاہم ’’لاجونتی ‘‘اردو کے افسانوی ادب کا وہ شہ پارہ ہے جس کی معنویت آج بھی تازہ کار اور نوبہ نو ہے۔
......................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................
لاجونتی
راجندرسنگھ بیدی
ہّسھ لائیاں کملاںفی لا جونتی دے بوٹے۔۔۔
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں) ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پو نچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی۔۔۔ گلی گلی محلے محلے ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع میںبڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘ــ ــ ’’زمین پر بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا تھا لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوںکے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن ہاواکے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوئی تھی۔
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لئے مندر کے پاس محلے ’’ مّلا شکور‘‘میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ دوٹوں کی اکثریت سے سندرلال بابو کو اس کا سکریٹری چن لیاگیا ۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاںکا بوڑ ھا محرراور محلے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھاکہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کر سکے گا۔شاید اس لئے کہ سندر لال کی اپنی بیوی اغواہوچکی تھی اور اس کا نام بھی تھا لاجو۔۔ لاجونتی۔
چنانچہ پر بھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لابابو،اس کا ساتھی رسالواور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے۔۔۔’’ہتھ لائیاں کمھلانی لاجونتی دے بوتے۔۔۔۔‘‘ تو سندرلال کی آواز ایک دم بند ہو جاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سو چتا ۔۔۔جانے وہ کہاںگئی ہوگی،کس حال میں ہوگی،ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟۔۔۔اور پتھر یلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے ۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ اس کا غم اب دنیا کا غم ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لئے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کودیا ۔اس کے باجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا۔۔۔ انسان دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے۔
جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کمھلا جاتا ہے لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اٹھنے بیٹھنے ،کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجوایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح نازک سی دیہاتی لڑکی تھی ۔زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولاچکا تھا ۔طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اس کا اضطرارشبنم کی اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ بن کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر ادھر لڑھکتا رہتا ہے۔اس کا دبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی،ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندرلال پہلے تو گھبرایا لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ ،ہرقسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سے گزرتی ہے تووہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتاگیا اور اس نے حدوں کاخیال ہی نہ کیا جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خودبھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔چونکہ وہ دیر تک اداس نہ بیٹھ سکتی تھی اس لئے بڑی بڑی لڑائی کے بعدبھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کراس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اٹھتی۔۔۔۔’’ پھر مارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی ۔‘‘ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک دم ساری مارپیٹ پھول چکی ہے۔ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں۔۔۔۔۔’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا۔عورت جس کے قابو میں نہیں آتی۔۔۔‘‘اور یہ مارپیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خودلاجو گایا کرتی تھی ۔میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔
لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لولگالی اور اس کا نام تھا سندرلال ،جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گاؤں چلاآیا تھا اور جس نے دولہا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا ۔۔۔۔
’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار، بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔‘‘لاجونتی نے سندرلال کی اس بات کو سن لیا تھا مگر وہ یہ بھول ہی گئی کہ سندرلال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے !
اور پر بھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندرلال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا،ایک بار،صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسالوں اور لوگوں کو بتادوں۔۔ان بیچاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔فسادیوںکی ہو سناکیوں کا شکار ہو جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا،انھیں اپنایا نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ایک گلا سڑاسماج ہے اور اسے ختم کر دینا چاہئے۔۔۔وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اورانھیں ایسا مرتبہ دینے کی پر یرنا کرتا جو گھر میں کسی بھی عورت ،کسی بھی ماں،بیٹی،بہن یا بیوی کو دیا ہے۔پھر وہ کہتا۔۔۔انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلائی چاہئے جو ان کے ساتھ ہوئیں۔۔۔کیوں کہ ان کے دل زخمی ہیں۔وہ نازک ہیں،چھوئی موئی کی طرح۔ ۔ ۔ ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلاجائیں گی ۔۔۔۔۔
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے محلہ ملا شکور کی اس کمیٹی نے کئی پر بھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لئے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔نہ لوگوں کا شور ، نہ ٹریفک کی الجھن، رات بھر چو کیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سردے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سن کر صرف اتنا کہتے۔۔۔۔ او!وہی منڈلی ہے !اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپیگنڈہ سناکرتے۔وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں گوبھی کے پھولوںکی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منہ میں کچھ منمناتے چلے جاتےیا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بسائو‘‘کے فریادی اور اندوہ گیں پروپگنڈے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبدبیکار نہیں جاتا۔وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا،پر گنگناتا چلا جاتا ہے۔اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں جب کہ مس مردولا سارا بھائی ہندوپاک کے درمیان اغواشدہ عورتیں تبادلے میں لائیں تو محلہ ملا شکور کے کچھ آدمی انہیں پھر سے بسانے کے لئے تیار ہوگئے۔ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لئے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھرسر جھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دئے۔رسالو اور نیکی رام اور سندرلال بابو کبھی’’مہندرسنگھ زندہ باد‘‘اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘کے نعرے لگاتے.....اور وہ نعرے لگاتے رہے حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے.....
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں،جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نےانھیں پہچاننے سے انکارکردیا تھاْآخر وہ مرکیوں نہ گئیں؟اپنی عفت اور عصمت کوبچانے کے لئے انھوں نے زہر کیوں نہ کھا لیا؟ کنویں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟ وہ بزدل تھیں جو اسطرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں ۔سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دی سی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے۔پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی ...سہاگ ونتی ....سہاگ والی.....اور اپنے بھائی کو اس جم غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی......تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟میں نے تجھے گودی کھیلایا تمہارے.....اور بہاری چلادیناچاہتا۔پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنی جگہ پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بےبسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتے جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے ۔جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مِس سارا بھائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں ،ان میں لاجو نہ تھی۔سندرلال نے امید وپیہم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھااور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچندکردیا۔اب وہ صرف صبح کے سمئے ہی پربھات پھیری کے لئے نہ نکلتے تھے بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے مل جلی ایک تقریر کردیا کرتااور رسالو ایک پیکدان لئے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔لائوڈ اسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔پھر کہیں نیکی رام محرر چوکی کچھ کہنے کے لئے اٹھتے لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پرانوں کا حوالہ دیتے اتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندرلال بابو اٹھتا لیکن وہ دوفقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔اس کا گلا رک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کرپاتا۔آخر بیٹھ جاتا۔لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھا جاتی اور سندر لال بابو کی ان دوباتوں کا اثر جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں ،وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا لیکن لوگ وہیں رو دیتے،اپنے جذبات کو آسودہ کرلیتےاور پھر خالی الذہن گھر لوٹ جاتے۔
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔مندر کے باہر پیپل کے پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصۃ سنارہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کوگھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا ...میں راجا رام چندر نہیں جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسالے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا۔ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔’’کیا اس سے بھی بڑھ کے رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟ ‘‘نارائن باوا نے کہا۔’’یہ ہے رام راج !جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لئے ٹھہر چکےتھے۔سندرلال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اٹھا۔
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہئے بابا‘‘۔
’’چپ رہو جی.....تم کون ہوتے ہو؟.....خاموش!‘‘مجمع سے آوازیں آئیں اور سندرلال نے بیٹھ کر کہا۔
’’مجھے بولنے سے کوئی روک نہیں سکتا‘‘۔پھر ملی جلی آوازیں آئیں ۔
’’خاموش!ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘اور ایک کونے سے یہ بھی آواز آئی۔’’مارد یں گے‘‘۔
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا ۔’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندرلال!‘‘سندر لال نے کہا۔
’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا۔رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے لیکن سندرلال کی نہیں؟‘‘
انھیں لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بولے۔’’سنو....سنو....سنو‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندرلال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندرلال بولے ۔ شری رام نیتا تھے ہمارے ۔پر یہ کیا بات ہے بابا کی،انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کرپائے؟‘‘
نارائن بابانے اپنی داڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا...’’اس لئے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔سندرلال!تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے‘‘۔
’’ہاں بابا!‘‘سندرلال بابو نے کہا۔اس سنسار میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔پر میں سچا رام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔اپنے آپ سے بےانصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے جتنا کسی دوسرے سے بےانصافی کرنا....آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے....اس لئے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟کیا وہ بھی ہماری بہت سی مائوں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟اس میں سیتا کے ستیہ اور استیہ کی بات ہے یاراکشش راون کے وحشی پن کی جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
......آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے.....سیتا.... لاجونتی.....اور سندرلال بابو نے رونا شروع کردیا۔رسالو اور نیک رام نے تمام وہ سرخ جھنڈے اٹھا لئے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کرچپکا دئیے تھے اور پھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے گاتے ہوئے چل دیئے۔جلوس میں سے ایک نے کہا’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ایک طرف سے آواز آئی’’شری رام چندر......‘‘
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں...’’خاموش!خاموش!‘‘اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہوگئے جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد حکم سنگھ محرر چوکی کلاں جارہے تھے،اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے.....اور ان کے درمیان کہیں سندرلال جارہا تھا۔اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھےآج اس کے دل کو بری طرح ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایکدوسرے کے ساتھ مل کر گارہے تھے۔
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے.....‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ابھی صبح بھی نہیں ہوپائی تھی اور محلہ شکو رکے مکان ۴۱۴کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندرلال کا ’’گرائیں‘‘لال چند جیسے اپنے اثرورسوخ استعمال کرکے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپو لے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنے گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا۔
’’بدھائی ہو سندرلال‘‘
’’سندرلال نے میٹھا گذ چلم میں رکھتے ہوئے کہا۔’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابھی کو دیکھا ہے‘‘۔
سندرلال کے ہاتھ سے چلم گرگئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا۔’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑ دیا۔
’’واگہ کی سرحد پر‘‘۔
سندرلال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا’’کوئی اور ہوگی‘‘۔
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا ’’نہیں بھیا وہ لاجو ہی تھی لاجو..‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘‘سندرلال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حقے پر سے اٹھا لی اور بولا......’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے،دوسرا گال پر‘‘۔
’’ہاں ہاں ہاں‘‘اور سندرلال نے خود ہی کہہ دیا’’تیسرا ماتھے پر‘‘۔ وہ نہیں چاہتا تھا اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندوے یاد آگئے جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوالئے تھے جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتےہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرماجاتی تھی....اور گم ہوجاتی تھی،اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہوگئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لٹ جانے سے وہ مفلس ہوگئی ہو.....سندرلال کا سارا جسم ایک انجانے خوف، ایک انجانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پھنکنے لگا۔اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا۔
’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا۔’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہورہاتھا نا‘‘۔
’’پھر کیاہوا.......؟‘‘سندرلال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا....’’سچ مچ آگئی ہے لجونتی بھابھی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں۔لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ہمارے والنٹیر اعتراض کررہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں ان میں ادھیڑ بوڑھی اور بیکار عورتیںزیادہ ہیں۔اس تنازع پر لوگ جمع ہوگئے اور ادھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابھی کو دکھاتے ہوئے کہا.....’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو .....دیکھو......جتنی عورتیں تم نے دی ہیں ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی؟‘‘اور ہاں لاجو بھابھی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندوے چھپارہی تھی‘‘۔
پھر جھگڑا بڑھ گیا۔دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘واپس لے لینے کی ٹھان لی۔میں نے شور مچایا.....’’لاجو ......لاجو بھابھی.....مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مارمار کے بھگا دیا۔اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا،جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔رسالو اور نیکی رام چپ چاپ بیٹھے رہے اور سندرلال کہیں دوردیکھنے لگا۔شاید سوچنے لگا۔لاجو آئی بھی پر نہ آئی.....اور سندرلال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا جیسے وہ بیکانیر کاصحرا پھاند کرآیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھائوں میں زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔منہ سے اتنا بھی نہیں نکلتا....’’پانی دے دو‘‘۔اسے یوں محسوس ہوا،بٹوارے سے پہلے اور بٹوارے کے بعد کا تشدد ابھی تک کارفرما ہے صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔کسی سے پوچھو ،سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہا کرتا تھااور اس کی بھابھی نیتو.......تو وہ جھٹ سے کہتا’’مرگئے‘‘اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بےخبر بالکل عاری آگے چلا جاتا۔اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر انسانی مال،انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کاتبادلہ کرنے لگے۔مویشی خریدنے والے کسی بھینس یاگائے کا جبڑا ہٹاکر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔تشدد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھائو تائو کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘کرلیتے گویا رومال کے نیچے کی انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہوجاتا تھا۔اب ’’گپتی‘‘کا رومال ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہورہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔یہ سارا لین دین یہ سارا کاروبار پرانے زمانے کی داستان معلوم ہورہا تھا جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید وفروخت کا قصۃ بیان کیا جاتا ہے۔ازبیک ان گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا ان کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو انگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑ جاتا ہے اور اس کے ارد گرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سرخیاں ایکدوسرے کی جگہ لینے کے لئے دوڑتی ہیں .... ازبیک آگے گزرجاتا ہے اور ناقابل قبول عورت ایک اعتراف شکست،ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازاربند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سسکیاں لیتی ہے ..........
سندرلال امرتسر(سرحد)جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندرلال گھبراگیا۔اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اورپھر روئے لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا ۔اس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے یوں چوکی کلاں کی طرف چل دیا کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔وہی سندرلال کو جانتی تھی،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیر مرد کےساتھ زندگی کے دن بتا کر آئی تھی نہ جانے کیا کرے گا؟سندرلال نے لاجو کی طرف دیکھا۔وہ خالص اسلامی طرز کالال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئی تھی....عادتاً محض عادتاً...... دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اوربالآخر اپنے صیاد کے دام سے بھاگ نکلنے کی آسانی تھی اور وہ سندرلال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق.....دائیں بکل اور بائیں بکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی ہے تھی۔اب وہ سندر لال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی ۔ایک امید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ۔
سندرلال کو دھچکا سا لگا۔اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھا اور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی،نہیں وہ موٹی ہوگئی تھی.....سندرلال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا وہ سب غلط تھا۔وہ سمجھتا تھا غم میں گھل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہوچکی ہوگی اور آواز اس کے منہ سے نکالے نہ تھکتی ہوگی ۔اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے،اسے بڑا صدمہ ہوا،لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس نے چپ رہنے کی قسم کھارکھی تھی۔اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوشی تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دبائو کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا۔لیکن ایک چیز وہ یہ سمجھ نہ سکا کہ لاجونتی کاسنولایا چہرہ زردی لئے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا۔وہ غم کی کثرت سے موٹی ہوگئی تھی اور صحت مند نظرآتی تھی لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے ........
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوالیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا ۔اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے کسی نے کہا۔ ’’ہم نہیں لیتے مسلمران(مسلمان) کی جوٹھی عورت‘‘۔
اور یہ آواز رسالو،نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گم ہوکر رہ گئی۔ان سب آوازوں سے الگ کالکا پرشاد کی پھٹتی اور چلاتی آواز آر ہی تھی۔وہ کھانس بھی لیتااور بولتا بھی جاتا۔وہ اس نئی حقیقت،نئی شدھی کاشدت سے قائل ہوچکاتھا۔یوں معلوم ہوتا تھاآج اس نے کوئی نیا وید،کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصے دار بنانا چاہتا ہے.....ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھرے ہوئے لاجو اور سندرلال اپنے ڈیرے کو جارہے تھےاور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کررکھے ہیں اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیت دئے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پربھی سندرلال بابو نے اسی شدومد سے ’دل میں بسائو‘پروگرام کو جاری رکھا۔اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھا دیا تھا۔ اور وہ لوگ جنھیں سندرلال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی،قائل ہونا شروع ہوئے۔اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔مکان نمبر ۴۱۴کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملا شکور کی بہت سی عورتیں سندرلال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔لیکن سندرلال کو کسی کی اعتنایابےاعتنا ئی کی پروانہ تھی۔اس کے دل کی رانی آچکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔سندرلال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل میں استاپت کرلیا تھا اور خود دروازے پربیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔لاجو پہلےخوف سے سہمی رہتی تھی سندرلال کے غیر متوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھلنے لگی۔
سندر لال لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا ،وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک انجانی خوشی سے پاگل ہوجاتی تھی۔وہ کہنا چاہتی تھی کہ سندرلال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سبب گناہ دھل جائیں۔لیکن سندرلال لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کھل جانے میں بھی ایک طرح سے سمٹی رہتی۔البتہ جب سندرلال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔جب سندرلال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘،’’یونہیں‘‘،’’اونہوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندرلال پھر اونگھ جاتا........البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندرلال نے لاجونتی کے’سیاہ دنوں ‘کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا۔
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا۔۔جمّاں‘‘پھر وہ اپنی نگاہیں سندرلال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا ۔لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کرلیں اور سندر لال نے پوچھا۔
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’مارتا تو نہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندرلال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا ۔’’نہیں..‘‘ اور پھر بولی’’وہ مارتا نہیں تھا،پر مجھے اس سے زیادہ ڈرآتا تھا ۔تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی......اب تو نہ ماروگے؟‘‘
سندرلال کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا۔۔’’نہیں دیوی!اب نہیں .......نہیں ماروں گا....‘‘
’’دیوی!‘‘لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی لیکن سندر لال نے کہا ’’جانے دو بیتی باتیں!اس میں تمہارا کیا قصور ہے۔اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیںدیتا،وہ تمہاری ہانی نہیں کرتا اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کے من کی بات من ہی میں رہی۔وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’دیوی‘کا بدن ہوچکا تھا،لاجونتی کا نہ تھا۔وہ خوش تھی بہت خوش لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی جیسے انتہائی خوشی کے لمحوںمیں کوئی آہٹ پاکر ایکاایکی اس کی طرف متوجہ ہوجائے...........
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لئے نہیں کہ سندرلال بابو نے پھر وہی بدسلوکی شروع کردی تھی بلکہ اس لئے کہ وہ لاجو سے بہے ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی ........وہ سندر لال کی وہی پرانی لاجو ہوناچاہتی تھی جو گاجر سےلڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔سندرلال نے اسے یہ محسوس کرادیا جیسے وہ..........لاجونتی کوئی کانچ کی چیز ہے جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے پر لاجو نہیں ہوسکتی۔وہ بس گئی،پر اجڑ گئی .........سندرلال کے پاس اس کے آنسو دیکھنے کے لئے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لئے کان............پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملا شکورکا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے مل کر اسی آواز میں گاتا رہا ؎
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے......‘‘
Comments
Post a Comment