ZAFAR GORAKHPURI: NAI SHAIRI KI TAHRIK BY ZAMIR KAZMI

ظفر گورکھپوری :نئی شاعری کی تحریک کی بشارت 


ضمیر ؔکاظمی(ممبئی)


ترقی پسند تحریک کے اہم شاعر ظفر ؔ گورکھپوری کا شعری سفر ان کے مجموعۂ کلام ’’تیشہ ‘‘(  ۱۹۶۲؁ء )سے ’’ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘  (۲۰۰۹؁ء )تک نصف صدی پر محیط ہے ۔ اس دوران ان کے ۸؍ مجموعہ کلام شائع ہوئے ۔ جن کے خاطر خواہ پذیرائی ہوئی مگر ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’ گوکھر و کے پھول ‘‘ سنگ میل ثابت ہوا اور اس مجموعہ نے اردو ادب میں ان کا قدمتعین کر دیا ۔ اس دوران اپنے عہد کے عظیم نمائندہ شاعر فراقؔ گورکھپوری ، علی سردار ؔ جعفری ، احمد ندیم قاسمی ؔ ، حمایت علی شاعر ؔ ، ظ انصاری، ؔعزیز قیسی ؔسے لیکر موجودہ عہدکے ڈاکٹر قمر رئیس اور ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی نے بھی ان کی شاعر انہ عظمتوں کا اعتراف کیا ہے انھیں شعری اسلوب کا ایک اہم شاعر تسلیم کیا ہے ۔ کسی بھی شاعر کے لئے اس سے بڑا تمغہ امتیاز اور کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے امریکہ ، سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے مشاعروں میں شرکت بھی کی ملک کے مختلف اردو اکیڈیمیوں نے انھیںیکے بعد دیگر ے بہت سے اعزازات سے نوازا ۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کا ریاستی ایوارڈ ، اور فراق سمان جیسے اعزاز بھی انھیں ملے ۔ظفرؔ کی تخلیقات ریاست ِمہاراشٹر میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت وفن پر تحقیقی کام بھی ہواہے ۔ انھوں نے اپنے ۵۰ سالہ شعری سفر کے مانوس اسلوب کو یکلخت ایک ایسا موڑ دیا ہے جو پڑھنے والوں کے لئے بڑا سنسنی خیز تجربہ ہے ۔ حالانکہ اسلوب کی یہ تبدیلی اردو ادب میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ناصر کاظمی ؔ ، افتخار عارفؔاور جاں نثار اخترؔ بھی اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ۔ جنھوں نے عمر کے آخری حصے میں ایک نئے اسلوب کی بازیافت کی اور کامیاب بھی ہوئے ۔ ظفر ؔ کے اس نئے مجموعے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے تخلیقی ابعاد نے اپنے عمود سے انحراف کر کے دفعتاً ارتفاعی راہ اختیار کر لی ہے ۔ 


پچھلے دہے کہ شعری ادب کا جائزہ لینے پر معلوم ہو تا ہے کہ اردو نظم میں نئی شاعری نے اپنی اہمیت کھودی ہے ۔ آج سے چالیس سال پہلے کے نظم گو شعراء کے نام آج بھی اردو ادب کے افق پر اسی طرح جگمگا رہے ہیں۔اس کہکشاں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے نظم گوئی گویا شہر افراسیاب ہو گئی ہے کہ پیچھے مڑ کے دیکھااور پتھر کے ہو گئے ۔ انگلیوں پر گنے جانے والے کچھ شعراء البتہ اس تاریکی کے خلاف منظم جہاد کر رہے ہیں ۔ مگر اکثر نظموں کا شعری مجموعہ اسلوب ابہار م ایمانیت اور پیچیدگی سے اس قدر بوجھل ہے کہ ان نظموں کو سر سری طور سے پڑھنا بھی ایک بیزار کن عمل ہے ، اس دوران جواں فکر شاعر جمال اویسی ؔ کا ایک ضخیم نظموں کا مجموعہ ’’ نظم نظم ‘‘ شائع تو ہوا ہے مگر ان کے فکری تخلیقی ، ہیئتی اور اسلوبی تجر بات نے اسے بے معنی کر دیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ان نظموں کے متعلق لکھا ہے ’’ یہ نظمیں واقعات کو احساسات پر وارد ہونے والے ایک تجربہ کی نشاندہی کرتی ہیں شاید اسی لئے انھیں خیالات کے گنجینے سے زیادہ بے نام اور مبہم کیفیتوں کی روداد کے طور پر دیکھا جانا چاہئے‘‘ ۔


کچھ امیدیں عبدالاحدساز سے ان کی کامیاب نظموں ’’ نانی اماں ‘‘ ’’ عوج بن عنق‘‘’’ اور آخری دور کے انسان ‘‘کے بعد کی جارہی تھیں ۔مگر اس کے بعد وہ بھی جیسے ایک جگہ ٹھٹک سے گئے ہیں ۔ یہ انتہائی مایوس کن حالات ہیں۔ زبیر رضوی ؔ اور دیگراہم شخصیات نے کافی کوششیں کی کہ نئے شعرا نظم کی طرف متوجہ ہوں ۔ مگر یہ بھی صدابصحرا ثابت ہو ئیں ۔ نظم گوئی ایک ریاضت چاہتی ہے عمیق مطالعہ ، علمی تجربہ ، انہماک ، اور جذبوں کا سراغ پا نے کی شدید جستجو کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جب کہ غزل گوئی اتنی آسان ہے کہ معمولی سا اردو کا طالب علم بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد غزلیں کہہ لیتاہے اور اردو کے کچھ تجارتی رسالوں میں شائع کرواکہ خوش ہو جا تا ہے ۔ایسے جاں گداز حا لات میں ظفر ؔ کی غزلوں اور نظموں کے اس نئے مجموعہ نے کچھ روز ن واتو کئے ہیں ۔ جن سے ’’ ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘ کے جھونکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ 


ہم جب آتش ، سوداؔ ناسخؔ ، میر ؔ جیسے اساتدہ سے ہو تے ہوئے ۔ذوق ، غالب ،ؔ نظیر کو پڑھتے ہیں اور پھر حسرت ، جگر ، فانی ؔ، یگانہ ، آرزو اور وحشت کے شعری رویوں سے گزرتے ہوئے اختر شیرانی ؔ ، جوش ، حفیظ کا مطالعہ کر تے ہیں اور فیض ؔؔ، انشا، منیر نیازی ؔ، جمال الدین عالی ؔ ، افتخار عارف ؔ ، اور احمد فراز ؔ کی ہمہ جہت اسالیب سے بہر ہ مند ہو تے ہیںتو ہمیں لسانی ارتقائکے ساتھ عصری میلانات ، فکری تجسس، بدلتے ہوئے حالات کا شعری تجزئیہ ، جمالیاتی وجدان اور تجربات نئی فکر کے استعاراتی نظام جیسے نشیب وفرازکا احساس ہوتاہے ۔ ن م راشد، میراجی ؔ ، اختر الایمانؔ، تخلیق کائنات میں خوب صورت سیاروں کی طرح گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اسکے بعد بھی کچھ کہکشائیں ملتی ہیں ۔ جہاں مخدوم ، جذبی، سردار جعفری ، مجاز ، احمد ندیم قاسمی ،وامق ، جاں نثار اختر ، ساحر اور کیفی کی تخلیقی موشگافیاں آگے کے سفر پر اصرار کرتی نظر آتی ہیں۔ لیکن پھر اس کے بعد کا منظر نامہ ویران سا نظر آتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اردو شعریات پر اتنا بڑا بانجھ پن کا زمانہ ( Baren period) کبھی نہیں آیا تھا ۔ اس خطر ناک صورتحال کی تمام تر ذمہ داری ہمارے مستند نقاد ان فن کے سر ہے۔ جونئی شاعری کے شعرا کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں ۔ نئی شاعری نئے عصری نظام میں شعر یات کی نئی فرہنگ کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس کے لئے نئے ادر اک نئے فلسفے نئے میزان اور نئے شعور کی ضرورت ہے ۔ میں نے اس سے پہلے اپنے کچھ مضامین میں نئی شاعری کے لئے نئے نقادوں کا مطالبہ کیا تھا ۔ شمیم حنفی نے اس مسئلہ پر بڑی تفصیل سے اپنے مضمون ’’ اردو نظم  ۱۹۶۰؁ء کے بعد‘‘ میں بحث کی ہے ۔ جسے کھلے دل ودماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ نئی شاعری کا اہم ترین پہلویہی ہے کہ اس کا مجموعی مزاج جمالیات سمیت اس کی سیاسی ، تہذیبی ، معاشرتی لیاقت میں صورت پذیر ہو۔ اس معاملہ میں نئی غزل اور نئی نظم دو نوں یکساںہیں چنانچہ ایک نئی شعریات وضع کئے اور اس پر کار بند ہو ئے بغیر نہ تو غزل کے ساتھ انصاف ممکن ہے نہ نئی نظم کے ساتھ ۔ غزل کے ساتھ خیر ایک یہ مجبوری لگی ہوئی ہے کہ وہ صرف ایک حدتک تجربوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے ۔ غزل کی ہیئت اور غزل گو یوں کے احساسات پر غزل کی روایت کا بوجھ اتناحاوی ہے کہ اس سے پوری طرح چھٹکا رہ مشکل ہے ۔ ناصر کاظمی ؔ، ابن انشا، احمد مشتاق، ظفر اقبال، محمد علوی ، شہریار ، ساقی فاروقی ، زیب غوری کے ہاتھوںغزل میں داخلی اورخارجی ہیئت میں خاصی تبدیلیاں ہو ئیں ہیں ۔مگرگھوم پھر کے یہ صنف اپنے روایت کے دائرے میں ہی رہی ۔ اس لئے ایک حد تک ان سب کی غزل اپنے صنف کی روایتی شرطوں کو بھی پوراکرتی ہے ۔ غزل کی نئی شعریات وضع کر نے کی کوشش بیشک ہو ئی مگر یہ شعریات غزل کی پرانی شعریات پر خط تنسیخ نہیں کھینچتی زیادہ سے زیادہ یہ کہ بعض لسانی اور حسی عادتوں کی ترک کر نے پر زور دیتی ہے اور اس ضرورت کو یاد دلاتی ہے کہ نئی انسانی صورت حال اور تجربوں کی پس منظر میں انحصار کی سطحیں دریافت کی جائیں اور کچھ نئے راستے نکالے جائیں ‘‘۔ 


ظفر ؔ کی نظمیں ’’ نمو‘‘’’ بہت کمزورہو تم ‘‘ اور ’’ زمین کا دکھ ‘‘ شمیم حنفی کی اس بحث کا مقدمہ معلوم ہو تی ہیں ’’ میرے بے شمار لمحے ’’ اور ’’Dead‘‘ مو ضوعاتی تنوع کے تناطر میں مدنی جدلیات اور شہری عذاب واذیت سے بھر پور نظمیں ہیں ۔ جن پر جواب سے زیادہ سوال حاوی ہیں ۔ ظفرؔ کی نظموں میں استعاراتی ابعاداور لسانی شگفتگی ایک نئی صف کا پتہ دیتی ہیں ۔نئی شاعری کے منظر نامہ پر ظفر کی تقریباًتمام نظمیں تفاہیم مدراج کی طرف قاری کو دعوت فکر ہی نہیں دیتیں بلکہ انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ ظفر ؔ کے اسلوب کی اس ندرت میں ان کے لسانی شعور کی بالید گی کا بڑا حصہ ہے جو ان کی فکر میں رچ بس گئی ہے ۔ شعریات کی افہام وتفہیم کے سلسلے میں یہی لسانی شعور کلیدی رول ادا کر تا ہے ۔اس سلسلے میں بہت مختصر تبصرہ نئی شاعری کے تناطر میں محترم صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے مضمون ’’ انحراف کی شاعری ‘‘ میں کیا ہے ’’ جدیدشاعر بہت اونچے مر مر یں مناروں پر بیٹھا ہے اور وہ مینارے اور بھی اونچے ہو تے جا رہے ہیں ۔ شاعری جب تک اس زبان کے بولنے والو ں کی (نقادوں اور شاعروں کی نہیں ) تہذیب کی جزو نہ بن جائے وہ عظمت سے محروم رہے گی ۔ ‘‘ زبان وادب پر یہ اہم تبصرہ ظفر گو رکھپوری کے نئے اسلوب کا دیباچہ ہے جو اپنی عظمت کی تلاش میں نظریات کا اظہار کس شیریں سخنی سے کر تے ہیں ۔ 


بہت ہے کہنے کو پاس میرے 


(کچھ اس قدر کہ لگے یہ عمر عزیز بھی کم ) 


زمیں پہ ہیں پاؤں 


کھڑکیاں ذہن کی کھلی ہیں کہ ان سے تازہ ہو ائیں وہ چاہے مشرق ہو یا مغرب 


میں آدمی کے دکھ اور سکھ کی دبیزمٹی سے پھوٹتا ہوں۔ ‘‘


آج کے شکست وریخت کا عمل ، اقتدار کی اتھل پتھل ، صارفی عہد کی بے رحمی، ٹیکنا لوجی کی سپر یئر یٹی اور رفتہ رفتہ تمام تہذیبوں کی گمشد گی کسی سانحہ سے کم نہیں ہے ۔ ظفر ؔ پورے عہد کو ایک لیبارٹری قرار دیتے ہیں ۔ ان کی نظم ’’ جانچ گھر‘‘ خوابوں کے ٹوٹنے اور بکھر نے کے عمل کا محاسبہ ہے ۔ ’’ میرے چراغوں کو دفن کردو ‘‘ Generration Gapپر ایک خوبصورت نظم ہے ۔ مگر نظم کا اختتام نظم کی فکری روانی سے انحراف کرتا ہوا لگتا ہے ۔نظم تو دراصل وہیں ختم ہو گئی تھی جہاں انھوں نے کہا تھاکہ ’’ آج کہ دنیا ؍ یہ وہ نہیں ہے کہ جسمیں کھولی تھی تم نے آنکھیں ۔ 


ظفرؔ کی شاعری کے دیہی پس منطر کا عبد الا حد ساز نے اپنے ایک مضمون میں بڑا خوبصورت تجزئیہ کیا ہے لیکن ضرورت ہے کہ ظفرؔ کو دیہی شاعر ثابت کر نے کے بجائے شہری مسائل ، اس کی اہمیت ، عمر انیات کے رموز اور انسانیت کی ذلتوں پر جو سوال ظفر نے اٹھائے ہیں ان کا بھی تجزئیہ ہو ۔ طفر کی شاعری میں کچھ الفاظ ان کے پسندیدہ ہیں ان لفظیات میں چھپی ہو ئی علامتیں ان کے محر کات اور ان کے لسانی پس منظر کو اجتماعی مفاہیم میں سمجھتے کی ضرورت ہے جیسے مٹی ، پانی ، تالاب ، ندی ، سمندر ، زمین ، آئینہ ، برسات چاندتارے، آسمان ، اورسب سے بڑھ کر اس خوبصورت دنیا کی تباہی اور بربادی کو خوفناک کے جو بہت قریب ہے اپنی تمام تر خوفناکیوں کے باوجود ایک بڑاسچ ہے ۔ سچ نے پھیلتے پھیلتے عالمی ادب میں بھی اپنی جڑیںگہری کر لی ہیں ۔ یہ خوف ان کے ہم عصر شعراء  عبدالا حد ساز ، شمیم عباس ، شمیم طارق ، احمد وصی ،عبد اللہ کمال ، کے ہاں زیریں لہروں میںاور ظفر ؔ کی شعریات میں بڑی شدت سے ابھر آیا ہے ۔ 


ایک مٹھی جو ہے سبزہ اسے نم رکھو 


جانے کس وقت یہ سورج کا نوالا ہو جائے 


نہ جانے کون سے پل کچھ نہیں رہے باقی 


کھڑے ہوئے ہے یہاں قبر کے کنارے سب 


وجود ساراکسی خوف کی گرفت میں ہے ۔ 


ہوا بھی آئے تو ہر گز نہ درکشادہ کرو ں 


جان چھڑکتے ہیں کے اپنے جیتے جی 


دھرتی پر مٹھی بھرسبزا رہ جائے 


ارض وسما ہم تم سب اسکے نشانے پر 


ایک ذرے نے کیسی قیامت کردی ہے 


شاید انساں کو کوئی راستہ ملبے میں ملے 


  اچھا ہو گا کہ یہ دنیا تہہ وبالا ہو جائے 


ظفر کا تخلیقی سیل رواںزندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے ۔ انسانیت کی قدروں ، جنگوں اور فسادات سے نبردآزما ہو تا ہے نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے جگہ جگہ سیاسی شعور ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ان کا شعری اسلوب ایران کی تہذیبی اور لسانی بالا دستی سے ہٹ کر ہندوستانی معاشرے میں اپنی جگہ بنارہا ہے ۔ جو ایک خوش آئند امکان ہے ۔ 


نکل تو آؤں سوالوں کی بھیڑ سے لیکن 


سوال یہ ہے کہ کس کس سوال سے نکلوں 


ابھی تک نیند میں رہ رہ کے بچے چیختے ہیں


جو اس بستی پہ گزری آپ نے دیکھا نہیں کیا 


آگ کس ہاتھ میں ہے کون دیتا ہے ہوا


کس کا کیا کھیل یہاں بستیاںجانتی ہیں 


انسان کی سفاک تمناؤں کے ہاتھوں 


لاچار زمیں کی طرح کٹتا رہا پانی 


اسکول کے دن تھے ابھی کیا بیتی ہے ان پر 


بندوق لئے ہاتھ میں بچے نکل آئے 


وہ جو ہری بھری دنیا کے خواب بیچتا ہے 


لہو سے کتنی زمینوں کولال اس نے کیا 


یہ آخر کون پانی کو جڑوں سے کھینچ لیتا ہے 


نیا موسم ہے لیکن پیڑ پہ پتہ نہیں باقی 


ان سب کے باوجود ظفرؔ کے اندر کا شاعر امید کی انگلی تھامے خدا اور زمین کے مستقبل سے مایوس نہیں ہے ۔ 


صیاد کی حرکات سے رکھتا ہے خبردار 


چڑیوں کا مددگار درختوں میں کوئی ہے 


کچھ اور نہ تھا بس طلب دید تھی صادق 


دیوار میں کتنے ہی در یچے نکل آئے 


تارے چھپ جائیں کہیں آسماں کا لا ہو جائے 


بچہ سوتے میں ہنسے اور اجالا ہو جائے 


زمیںزحموں پہ تیرے مرہم بھی ہم رکھیں گے


ابھی گڑی سوئیوں کو تن سے نکالنا ہے 


میری نظرمیں ظفرؔ گورکھپوی کا مجموعہ’’ ہلکی ٹھنڈی اور تازہ ہوا‘‘نئی شاعری کی اس تحریک کی بشارت ہے جو ابھی شروع نہیں ہوئی ہے ۔ یہ زمین کے زخموں کا نوحہ بھی ہے اور صدائے گریہ کا سلیقہ بھی ، حیات وکائنات سے مکالمہ کرتے انسانی ضمیر کا روشن پہلو بھی ہے اور لسانی افہام تفہیم کی صراط مستقیم سے گزرتا ہوا نیا شعری اسلوب بھی ، ظفر کی شعری اساس کہیں زخموں سے چور عالمی معاشرے پر احتجاج بھی کرتی ہے ، کہیں سیاسی، مدنی اور تہذیبی المیات پر خون کے آنسوں روتی ہے ، کہیں نا انصافی اور جبر پر ماتم کناں ہو تی ہے ۔دکھوں کا یہ لاہوتی دریا بڑھتے بڑھتے وقت کی انجانی عظمتوں کے اس عظیم الشان سمندر سے جا ملتا ہے جوازل سے ابد کی طرف رواں ہے ۔ 


 ٭٭٭٭٭


Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب