انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب
انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب
نورالحسنین۱۔۱۲۔۳۱،پرگتی کالونی گھاٹی،اورنگ آباد۔ ۴۳۱۰۰۱،مہاراشٹر
انور خان شہر ِ ممبئی میں یکم مارچ ۱۹۴۲ ء میںطالع یار خان کے گھر ناگپاڑہ میں پیدا ہوئے ۔ اُن کی والدہ کا نام آمنہ بیگم تھا ۔ وہ بچپن میں باسکٹ بال کے ایک اچھے کھلاڑی تھے اور شاید بچپن میں اُنھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اگلی زندگی میں اُن کی شہرت ایک کھلاڑی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک کامیاب افسانہ نگار کے طور پر ہوگی ۔
انورخان کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۶۵ ء یا ۱۹۶۶ ء میں ہوا ، اور اُن کی پہلی کہانی بقول انیس امروہی ’ شاٹ ‘ تھی لیکن اُن کا پہلا افسانہ ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ ہے جو ۱۹۷۰ ء میں ماہنامہ کتاب لکھنو میں شائع ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اپنے ہمعصروں میں وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جن کا پہلا مجموعہ ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ مکتبہ جامعہ دہلی نے شائع کیا تھا اور اس سے بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ دوسرے ہی سال اُس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔ وہ اپنے ہم عمروں میں پہلے افسانہ نگار ہیں جن کا گوشہ کلام حیدری جیسے مستند افسانہ نگار نے اپنے رسالے ’ آہنگ ‘ میں ترتیب دیا تھا ۔ یعنی انور خان وہ افسانہ نگار ہیں جن پر شہرت کے دروازے بہت جلد کُھل گئے تھے ۔
انور خان نے جب افسانہ نگاری شروع کی تو وہ وقت جدیدیت کا تھا ۔ اس کے باوجود اُن کے پہلے افسانوی مجموعے میں جدیدیت کی وہ بھر پور چھاپ نظر نہیں آتی جو اُن کے دوسرے افسانوی مجموعے ’ فنکاری ‘ میں دکھائی دیتی ہے ۔ اُن کے پہلے مجموعے میں جملہ ( ۱۷ ) افسانے شامل ہیں ۔ اور ان میں بیشتر افسانوں میں بڑے شہر کی زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے ، ان افسانوں میں تنہائی کا کرب بھی ہے ، لاتعلقی کا مزاج بھی ہے ، اور مطلب براریوں کے حصول کی خاطر انسان کی جدوجہد کی داستان بھی ہے ۔ انور خان نے اپنے آغاز ہی سے یہ بات ثابت کردی تھی کہ وہ ایک متنوع افسانہ نگار ہیں ۔ اُن کے اظہار اور اسلوب میں ایک ایسی بے ساختگی ہے جو قاری کو باندھے رکھتی ہے ۔اُنھوں نے تکنیک کے تجربے بھی کیے ۔ ان کے کرداروں میں ہر عمر کا فرد شامل ہے ۔اُن کے یہ کردار زندگی سے جُڑے ہوئے ہیں اور اُن کی فطرت میں وہ تمام اچھائیاں ،خوبیاں ، کمزوریاں ، شامل ہیں جنھیں ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں ۔
انور خان کے افسانوں میں علامتیں بھی ہیں ،وہ تمثیل کے ہُنر سے بھی واقف ہیں ، زندگی کی چہل پہل بھی ہے ، استعارے بھی ہیں ،جزئیات نگاری کا جوہر بھی ہے اور واقعات کو پیش کرنے کا ڈھنگ بھی ہے ۔
اسلوبیاتی سطح پر اُن کے افسانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلا حصّہ وہ ہے جس میں اُن کے طویل یا نسبتاً کچھ طویل افسانے شامل ہیں ۔ وہ سادہ بیانیہ اسلوب سے عبارت ہیں لیکن ان کے مختصر افسانے فلمی منظر نامے کی تکنیک سے آراستہ ہیں ، یا وہ اسلوب جس میں فنکار شعور کی آنکھ سے کیمرے کا کام لیتا ہے یا پھر اُن کے بعض افسانے محض کیفیت یا ایک تاثر کا احساس دلاتے ہیں ۔ انور خان تکنیک سے زیادہ اس بات کے قائل تھے کہ افسانے کی ترسیل قاری تک کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔
انور خان کا افسانہ ’ کووں سے ڈھکا آسمان ‘ ایک نہایت تہہ دار افسانہ ہے ۔ اس میں آگ کو اُنھوں نے زندگی کی علامت اور کہانی جمع کرنے کے شوق کو خوش حالی سے تعبیر کیا ہے ۔ میونسپلٹی انتظامیہ کی علامت ہے جو اپنی نا قص کارکر دگی کے باعث خود ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ سخت سردی ، وہ حالات ہیں جس سے فرد نبرد آزماء ہے اورکوّے دراصل مسائل ہیں جن میں ڈھکا ہوا ا نسان اپنے وجود کو تلاش کر رہا ہے ۔ آج زندگی جینے کا مطلب آگ سے کھیلنا ہی ہے اور آگ بنا ایندھن کے زندہ نہیں رہ سکتی ، مسائل میں گھرا ہوا انسان جب ان کی خاطر انتظامیہ کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے کیا ملتا ہے ؟ بے معنی آوازوں کا شور ۔ یہ افسانہ انتظامیہ کے خلاف ایک احتجاج ہے ۔ کہانی جمع کرنے والا شخص جب اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اُس کے پاس اب کوئی کہانی نہیں ہے تو یہ اشارہ ہے اُس بے حسی کا کہ اب اُن کے پاس کسی نئے انقلاب کی ہمت بھی نہیں ۔ انور خان کا یہ افسانہ تخلیقی بیانیہ کی بہترین مثال ہے ۔ اس افسانے کی روانی ، علامتیں ، اسلوب قاری کو متحیر کر دیتا ہے ۔ انور خان ایک بیدار ذہن افسانہ نگار تھے ، اُن کا افسانہ ’ بوڑھا فریم سے نکل گیا ‘ انسان کے بے ضمیری کی کہانی ہے ۔ یہ اُن کا ایک شاہکار افسانہ ہے ۔ جس پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن کے ہم عصر افسانہ نگار سلام بن رزاق نے لکھا تھا :
’’ جب بوڑھا فریم سے نکل گیا ‘‘ اُن کی ایک اور عمدہ کہانی ہے ۔ اس میں بوڑھا انسانی آدرش ، اخلاقی روایت یا پھر انسان کے ضمیر کی علامت بن کر اُبھرتا ہے جو سماج کے فریم سے غائب ہو گیا ہے ۔ اب انسان اُسے ہر جگہ تلاش کرتا پھر رہا ہے ۔ ‘‘ ( مضمون ۔ انور خان کے افسانے ۔ سلام بن رزاق ۔ سہ ماہی ذہن ِ جدید ۔ جلد (۶ ) شمارہ (۱۷ ) ص۔۸۹ )
لیکن کیا ضمیر اُن کے پاس بھی ہوتا ہے جو مفاد پرست ہوتے ہیں اور اگر اُنھیں اس ضمیر کی بیداری کا علم ہوجائے تو اُن کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ؟ وہ کسی خواب ِ پریشاں کی طرح بے چین ہوجاتے ہیں ۔ ممتاز ناقد وارث علوی نے بھی اس افسانے کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’ انور خان کے تمثیلی افسانوں میں ’ جب بوڑھا فریم سے نکل گیا ‘ اور ’ کووں سے ڈھکا آسمان ‘ نہایت کامیاب افسانے ہیں ۔ بوڑھا خدا کی بھی علامت ہوسکتا ہے ، اخلاقی روایت کی بھی ، ضمیر کی بھی ، بہر حال اس کے ابہام میں اس کی آرکی ٹائپل حُسن اور معنویت ہے ۔‘‘ ( مضمون ۔تین نئے افسانہ نگار ۔ وارث علوی ۔ ماہنامہ جواز ،مالیگاوں ۔ جلد (۶ ) شمارا (۱۷ ) ص۔ ۸۹ )
انور خان کی انسانی نفسیات پر گرفت بہت مضبوط تھی ۔ افسانہ ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ میں وہ ہماری ملاقات ایک ایسے بوڑھے شخص سے کرواتے ہیں جسے اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے اور بوڑھاپا کمزور صحت کی علامت ہے ۔اس لیے وہ اپنی بہتر صحت کی تصدیق بار بار دوسروں سے کرواکر اطمینان کی سانس لیتا ہے ۔ افسانے کا پلاٹ اس طرح ہے کہ ایک نوجوان مسعود ملازمت کے سلسلے میں شہر آتا ہے اور شرماجی کا کرایہ دار بن جاتا ہے ۔ وہ جب بھی گھر میں ہوتا ہے شرما جی آجاتے ہیں اور ہر روز ایک ہی طرح کے سوالات کرتے ہیں ،پھر وہ اُسے ہرمعاملے میں ٹوکنے لگ جاتے ہیں ۔ مسعود اُن سے بیزار ہوجاتا ہے ۔یہاں تک کے وہ اُن کی باتوں پر دھیان تک نہیں دیتا ۔شرماجی کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ ایک دن وہ ایک نیا کرائے دار اُسی کمرے میں لے آتے ہیں جو اُن کا ہم عمر ہے ۔ اب وہ دونوں خوب باتیں کرتے ہیں اور مسعود کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔یہیں وہ احساس ِ تنہائی سے متعارف ہوتا ہے ۔
انور خان نے اس افسانے میں انسان کے شعور اور لاشعور کے ذریعہ اُس کے احساس تنہائی کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تو افسانہ ’ شاندار موت کے لیے ‘ کےذریعے اُنھوں نے اعلیٰ سوسائٹی کے کھوکھلے معیارات اور اُن کی مصنوعی زندگی کے نمائشی کردار کو بیان کیا ہے ۔ اس افسانے میں اُنھوں نے صوتی آہنگ کی تکنیک کو استعمال کیا ہے اور جملوں کے مسلسل ٹکرائو سے افسانے میں ایک نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
انور خان کا شمار اُن افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کا مطالعہ اور مشاہدہ بے حد وسیع تھا ۔ اسی وجہ سے اُن کے افسانوں کا کینوس نہایت وسیع ہے ۔ حد یہ کہ اُن کے پاس تصوّف کے موضوع پر بھی افسانے مل جاتے ہیں لیکن اس کے لیے اُنھوں نے باضابطہ خانقاہوں کی منظر کشی نہیں کی ، البتہ تصوف کے اس جُز سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جس میں کہا گیا کہ دُنیاوی آرام و آسائش بے معنی چیزیں ہیں ۔ اصل چیز روح کی پاکیزگی ہے ۔ تصوف میں ذات پات کی اہمیت نہیں ہے ۔ مُرید ہونے کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے ،ہاں دل کی صفائی اور عشقّ حقیقی کی تڑپ ضروری ہے ۔ اُن کا افسانہ ’ بھیڑ یں ‘ کا مرکزی کردار ایک پادری ہے ۔ جسے دنیا دار افراد میں ’ روح ‘ کی تلاش ہے ۔ یہاں روح زندگی کی اعلیٰ قدروں کی علامت ہے ۔ تصوف ہی کے موضوع پر اُن کا ایک اور افسانہ ہے ’ عرفان ‘ اس افسانے کے لیے بھی انور خان نے صوفی ازم کے اس جملے کو محور بنایا کہ ، ’’ ہر ذرے میں میرا جلوا ہے ۔ ‘‘ یہاں ذات پات کے سارے ہی پردے اُٹھ جاتے ہیں اور وہ دل نظر آتا ہے جو نور ِ اللہ سے لبریز ہے ۔ یہ افسانہ بھی کسی خانقاہ کے تقدس سے نہیں اُبھرتا بلکہ کاف ِ استنبول ( ہوٹل ) اور ایک یہودی کے وسیلے سے عرفان کی منزلیں طئے کرتا ہے ۔ تصوّف کے علوم کا ایک سرا یہ بھی ہے کہ عشق ِ مجازی سے عشق ِ حقیقی کی طرف پرواز ۔ ہماری اُردو شاعری متصوفیانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ انور خان نے اپنے افسانے ’’ چھاپ تلک ‘‘ میں عشق ِ مجازی کے پردوں سے عشق ِ حقیقی کا سامان پیدا کرنے کی ایک اچھی کوشش کی ہے ۔ یہ پہلا افسانہ ہے جس میں انور خان نے مرشد ، درگاہ ، اور سماع کے ماحول سے فائدہ اُٹھایا ہے اور بیچ بیچ میں مرشد کے الفاظ ، تصوف کی تعلیمات کا اشارہ کرتے ہیں ۔ اپنے ہمعصروں میں انور خان واحد افسانہ نگار ہیں جنھوں نے تصوف کے موضوع پر لگاتار افسانے لکھے۔ ان افسانوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف اُن کا پسندیدہ موضوع تھا بلکہ بقول مقدر حمید اُن کا جھکائو تصوف کی طرف تھا اور وہ اپنی حیات میں کسی پیر ِ کامل کی تلاش میں بھی تھے ۔ یہاں ہم اُن کے ایک اور متصوف افسانے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ’’ بُلاوہ ‘‘ ہے اس افسانے کے زریعے اُنھوں نے فنا، بقاء اور ماورائی حقیقتوں کا جائزہ لیا ہے ۔ آج ہر طرح کے علوم کو حاصل کرنے کی سہولتیں موجود ہیں ۔ مشاہدہ، مطالعہ اور عقیدت عرفان کی منزلوں تک پہنچاسکتی ہے ۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک روز ایک عجیب مشاہدہ کرتا ہے ،
’’اُس کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا چھا گیا جیسے سورج بدلی میں گھر گیا ہو ۔ اُس نے دیکھا وہ ایک بہت بڑے سوراخ کے دہانے پر کھڑا ہے اور تمام چیزیں اُس سوراخ میںکھینچتی چلی جارہی ہیں ۔ہرے بھرے درخت ، فضا میں اُڑتے پرندے ، مکانات ، بجلی کے قمقمے ، موٹریں ، گاڑیاں ، ڈاک کا ڈبہ ، خوش پوش راہگیر ، سڑک پر کھیلتے بچے ، سبک اندام حسینائیں، بازار ، رکشائیں ، سب ہی اپنی ملی جلی آوازوں سمیت جذب ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا ۔ سوراخ سے مسلسل ایک ڈرائونی سی کھوں کھوں کی آواز آرہی تھی ۔ ‘‘
اس افسانے میں انور خان نے جس سوراخ کا ذکر کیا ہے وہ قیامت کا نظارہ ہے اور یہیں قاری دُنیا کی بے ثباتی کا قائل ہوجاتا ہے کیونکہ یہیں اس راز سے بھی پردہ اُٹھتا ہے کہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے ۔ انور خان کا یہ ایک کامیاب افسانہ ہے ۔
اسی میدان میں اُن کا ایک اور افسانہ ’ کمپیوٹر ‘ ہے ۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جدید علوم خصوصاً علم ِ سائنس کی کیسی بصیرتیں رکھتے تھے ۔ یہ افسانہ اُن کے علم کا آئینہ بھی ہے اور اُن کے مطالعے کا ایک اچھوتا کارنامہ بھی ہے اس افسانے کے ذریعے اُنھوں نے جہاں انسان اور مشین کے ربط سے پیدا ہونے والی کارکردگی کو اُجاگر کیا ہے وہیں مشین کی وساطت سے وجود ، عدم وجود ،خالق ِ کائنات اور تصوف کی اُڑانیں بھی بھری ہیں ۔ اس افسانے کو یقینی طور پر اُن کے ہی نہیں اُردو ادب کے بہترین افسانوں میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اس افسانے کے وسیلے سے انور خان تصوف کے میدان میں ایک نئی منطق کا اضافہ کرتے ہیں اور وہ ہے دھیان ( مراقبہ ) اس سفر میں اُستاد کی پشت پناہی بھی ہے اور مشین کے ذریعے خالق ِ مطلق کے عرفان تک رسائی بھی ہے ۔ افسانے کا یہ پیراگراف ملاحظہ فرمائیں اور مراقبہ کے سفرکے احوال سے لطف اُٹھائیں ۔
’’ وہ دھیان کے آسن میں بیٹھ گیا اور اُسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ دھیان میں چلا گیا ۔ اُس نے دیکھا اُس کے گرو دروازے پر کھڑے اُسے بلا رہے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور ایک بے جان معمول کی طرح گرو کے ساتھ چل پڑا ۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر تک چلتے رہے کم از کم رمیش کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ صدیوں سے چل رہا ہو ، یہاں تک کہ اُس نے دیکھا کہ وہ بالکل دھرتی کے سرے پر آگئے ہیں ۔ اُسے خوف محسوس ہوا مگر وینکٹ چلم ( گرو ) نے اُسے تسلّی آمیز نگاہوں سے دیکھا کہ گھبرائو مت ، میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ دوسرے ہی لمحے وہ خلاء میں تھے ۔ حسب معمول وہ سفید روشنیوں میں سے گزرے ، پھر زرد، گہری، نیلی، سبز اور ہلکی آسمانی روشنیوں سے گزرتے ، سرخ روشنیوں میں آگئے ۔ آسمانی اور سرخ روشنیوں سے گزرنے کا رمیش کا یہ پہلا اتفاق تھا ۔ ان روشنیوں سے گزرتے ہوئے رمیش کو ایک ہیجان سا محسوس ہوا جو جلد ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ ایک بے رنگ وادی سے گزررہے تھے ۔ اس وادی میں قدم رکھتے ہی اُنھیں محسوس ہوا کہ اُن پر پھول برس رہےہیں ۔ سکون اور خوشبو کی لپٹو ں نے اُنھیں اپنے ہالے میں لے لیا ہے اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ اُس نے اپنے گرو کی طرف دیکھا ۔گرو نے مسکراتے ہوئے اُسے اُفق پر دیکھنے کا اشارہ کیا ۔ گرو کے حکم کی تعمیل میں رمیش نے اُفق کی طرف دیکھا ۔ گہری سیاہی مائل روشنی نے اچانک ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ رمیش نے اس روشنی کو اپنے اندر اُترتامحسوس کیا اور اُس نے دیکھا کہ وہ اور اُس کا گرو اب مجسم روشن ہوچکے ہیں ۔ اب وہ سرتاپا آنند تھے ۔ بڑی دیر تک وہ یونہی کھڑے رہے یہاں تک کے گرو وینکٹ چلم نے اشارے سے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے اور اگلے ہی لمحے اُس نے خود کو روشنیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پایا ۔ رمیش نے آنکھیں کھولیں ۔ ہر چیز ویسی ہی تھی اور ابھی رات ہی تو تھی ۔ جیسے اُس نے ایک جھپکی لی ہو ۔ ‘‘
انور خان کا یہ افسانہ تصوف ، وجود ، خالق اور کائنات کے اسرار سے جس طرح پردے اُٹھاتا ہے وہ اُن کے عمیق مطالعے ، اور مشاہدے کا غماز ہے ۔ اس افسانے میں اُن کا وہ بیانیہ بھی سامنے أتا ہے جو اُن کے دیگر افسانوں کی طرح بے رس نہیں ہے ۔ اس افسانے کے مکالمے ، انداز بیان ،واقعے کا تسلسل و تجسس سبھی کچھ لاجواب ہے اور انور خان کی ہنر مندی کی داد وصول کرتا ہے ۔
انور خان کے پاس موضوعات کی کمی نہیں ہے ۔ افسانہ ’ دانش میاں ‘ زندگی کی یکسانیت سے فرار ہونے کا تمثیلی بیان ہے ۔ بغور زندگی کا اگر ہم جائزہ لیں تو نہ پیدائش ہمارے اختیار میں ہے اور ناہی موت اور نا ہی زندگی میں پیش آنے والے واقعات ہماری اپنی دسترس میں ہیں ۔ سب کچھ کسی بہائو کی طرح گزر جاتا ہے ۔ عام انسان تو جی جاتا ہے لیکن ایک حساس انسان موت کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ حسب معمول ہورہا ہے اور اس میں کسی نئے پن کا تجربہ یا لطف نہیں ہے ۔ انور خان کا ایک اور نہایت اچھوتا افسانہ ہے ’ لمس ‘ یہ ایک کمرے کی کہانی ہے ۔ انور خان نے اس افسانے میں بہت ہی خوبصورت خیال بلکہ نہایت ہی نئے موضوع کو گرفت کیا ہے کہ بے جان اشیا بھی گھر میں انسانی لمس کی کس قدر محتاج ہوتی ہیں اور محض انسان کی چھوّن سے اُن بے جان چیزوں میں کیسے جان پڑ جاتی ہے ۔
انور خان کا کمال ہی یہ تھا کہ وہ قریب کے موضوع کو بھی اپنی پیش کشی سے اچھوتا بنا دیتے تھے ۔ ’ احتجاج ‘ کا مزاج صدیوں سے رائج ہے اور یہ اردو افسانے کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں ہے لیکن جب اسی موضوع پر وہ قلم اُٹھاتے ہیںتو اِسے ایک نئی صورت عطا کرتے ہیں، ہم بات کر رہے ہیں اُن کے افسانے ’’ فنکاری ‘‘ کی ۔
یہ افسانہ جہاں تعلیم یافتہ افراد کے احتجاج کو درشاتا ہے وہیں اقتدار، اور انتظامیہ کس طرح اپنی چالاکیوں سے احتجاجی قوت کو اپنی سرپرستی کے جھوٹے مکھوٹے سے اُس کی روح نکال دیتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ افسانہ واضح کرتا ہے کہ جب معاشی تنگدست ترقی کرکے خوشحالی کی دھلیز پر قدم رکھتے ہیں تو وہ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں اور خود بھی انتظامیہ کا ایک حصّہ بن جاتے ہیں ۔ ممتاز افسانہ نگار ساجد رشید نےاس افسانے کو اُن ترقی پسند ادیبوں کی تمثیل قرار دیا جنھوں نے عام آدمی کی ترقی کا اعلان کرکے اپنے محلوں کو چھوڑا اور پھر بعد میں خود بھی انتظامیہ کا حصّہ بن کر اعزازات اور انعامات حاصل کیے اور دوبارہ محل بسالیے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ فنکاری ‘‘ ایسے باغی کرداروں کی کہانی ہے جو اشرافیہ اور استحصال پسند طبقے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے لیکن موجودہ زرپرست معاشرے میں اُن باغیوں کے احتجاج کو اسٹبلیشمنٹ گلمرائزڈ کر کے اُن کے احتجاج کے ڈنک کو توڑ کر نمائش گاہ کی زینت بنا دیتا ہے ۔ اس طرح سے گزشتہ کل کے باغی آج کے استحصال پسند بورژوہ نظام کے کُل پُرزے بن جاتے ہیں ۔اس کہانی کو پڑھتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں اُن ترقی پسند ادیبوں کا خیال آتا ہے جنھوں نے بورژوہ ادب اور سماج کے خلاف موثر بغاوت کی تھی لیکن حکومت نے اُنھیں اعزاز اور انعامات سے نواز کر اُن کے دانت اور ناخن توڑ لیے ۔آج یہی ادیب بغاوت پر لکچر تو دیتے ہیں لیکن باغیوں کی حمایت کرتے کبھی نظر نہیں آتے ۔ اُن کی شامیں وزراء اور اُمراء کے دیوان خانے میں جاگیرداروں کی کسی لونڈی کی طرح شعر سناتے اور شراب کا جام لنڈھاتے گزرتی ہے ۔ ‘‘
( فنکاری پر تبصرہ۔ ساجد رشید ۔ ماہنامہ جواز مالیگاوں ۔ جلد (۹ ) شمارہ (۲۲ ) ص۔ ۶۵۹ )
اس افسانے کو ہم انور خان کے بہترین افسانوں میں شمار کرتے ہیں ۔
انور خان کے بیشتر افسانے ممبئی کے ماحول ،ممبئی کی مصروف زندگی ، ممبئی میں بسنے والے افراد کے روئیوں، اُن کے مزاج اور بھیڑ میں شامل ہوتے ہوئے بھی تنہائی کا احساس ، کہیں شناخت کا مسئلہ ، کہیں عدم تحفظ کا احساس ، کہیں روٹین زندگی کے شب و روز وغیرہ ہیں ۔ان موضوعات پر اُن کے افسانوں میں ، شام رنگ ، لمحوں کی موت ، شاٹ ، گیلیر ی میںبیٹھی عورت ، ماتم گسار وغیرہ شامل ہیں ۔
انور حان کے وہ افسانے جو موضوعاتی سطح پر ، تکنیک اور اسلوب کے لحاظ سے اُن کے ہمعصرافسانہ نگاروں سے مختلف ہیں ، اُن میں افسانہ ’’ کتاب دار کا خواب ، ہوا ، برف باری ، میونسپل پارک ، نرسری ، اپنائیت ، گونج وغیرہ ہیں ۔
افسانہ ’’ کتاب دار کا خواب ‘‘ عمدہ تکنیک کا ایک شاہکار افسانہ ہے ۔ آثار ِ قدیمہ کی وساطت سے یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس میں قاری اپنے آپ کو بھی کتاب دار کے ساتھ ہی ساکت محسوس کرنے لگتا ہے ۔اس افسانے میں اُنھوں نے فلم میں استعمال ہونے والی تکنیک ، منظر کو فریز( ساکن ) کر دینے والی تکنیک کو برتا ہے ۔ اس تکنیک میں پورا منظر کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر جاتا ہے اور اپنا بھر پور تاثر قاری پر چھوڑتا ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ کتاب دار نے کیا خواب دیکھا ہے ؟ وہ دیکھتا ہے کہ سارا شہر جیسے یکایک تھم گیا ہے ۔ پھول کھلتے کھلتے رُک گئے ہیں ، پرندے ہوا میں اُڑتے اُڑتے ساکت ہوگئے ہیں ، کوئی نوزائیدہ بچہ روتے روتے ایک دم خاموش ہوگیا ہے ، چرچ کی گھنٹیاں بجتے بجتے ایک دم رُک گئی ہیں ، دُلہن سیڑھیوں پر کھڑی رہ گئی ہے ، شاعر اپنی نظم کو دیکھتے ہوئے ساکت ہوگیا ہے ۔ غرض زندگی کا تمام عمل یکایک تھم گیا ہے ۔ اس افسانے کی تکنیک کو دیکھتے ہوئے دکن کے مشہور ادیب غلام یزدانی کا وہ طویل مضمون یاد آجاتا ہے جو ایلورہ کی سنگ تراشی سے متعلق ہے ۔ جس میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ اِن غاروں میں زندگی اپنی تمام تر چہل پہل کے ساتھ موجود تھی کہ کسی جادوگر نے ایسا منتر مارا کہ وہ سب پتھروں میں ڈھل گئے اور زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساکت ہوگئی ۔
اس افسانے پر ناقدین ِ ادب نے بہت کم توجہ دی ہے ، اُس کی وجہ یہی ہے کہ اس افسانے میں افسانہ نگاری کے اجزائے ترکیبی کا خیال نہیں رکھاگیا لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب بھی افسانے کی بہتر تکنیک پر گفتگو ہوگی ، اسے اُس بحث میں یقینی طور پر شامل کیا جائے گا ۔
ممتاز ناقد باقر مہدی اس افسانے کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ مجھے اُن کی ( انور خان ) سب سے زیادہ جو کہانی پسند ہے وہ ’’ اپنائیت ‘‘ ہے ۔ اس میں ایک طرح کی تحئیر آمیز تشنگی ہے ۔ انور خان نے جس ماحول کے اپنائیت کی تحلیل ِ نفسی کرتے ہیں ، وہ ایک بڑے شہر کی فضاء ہے ۔ یہاں امیج ( image )ہی سب کچھ ہے ۔ آدمی کچھ نہیں اور اسی طرح انور خان کامیابی کو جو کہ زندگی کا مطمع نظر بن گیا ہے اُس پر وار کرتے ہیں ، مگر جس طرح ’فنکاری ‘ میں اُنھوں نے فن فروشوں کو بے نقاب کیا تھایہاں بھی اُنھوںنے ظاہری طریقئہ کار کو مورد الزام ٹھہرایا ہے ۔ دوستی کتنی ممکن ہے کتنی نہیں ؟ آدمی کتناتلون مزاج ہے کتنا نہیں ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی ویسا ہی بن جائے جیسا سوچتا ہے ۔ یہاں انور خان فلسفیانہ طرح سے سوچتے ہیں اور فکر و خیال اور عمل ، اشیاء ، الفاظ اور اُن کے درمیان جو ایک خلاء ہے ، ایک خلیج ہے ۔ اُس پر نظر ڈالتے ہیں ۔ وہ چیزوں کو بہت آہستہ آہستہ کھولتے ہیں ۔ اس افسانے کا آخری جملہ ایک نشتر کی طرح میرے ذہن میں پیوست ہوگیا ۔ جملہ کیا ہے ؟ ’’ شکریہ ‘‘ اُس نے کہا ، ’’ اب ہم اُس سے اپنائیت محسوس کرتے ہیں ۔ ‘‘ ( انور خان کا گن ۔ باقر مہدی ۔ سہ ماہی قصّے۔ دہلی ۔ کتابی سلسلہ (۵ ) ص۔ ۲۰ تا ۲۱ )
نیا افسانہ کیسا ہونا چاہئیے ؟ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں اُبھرنے والے افسانہ نگار خود بھی اس کے مزاج کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔ وہ یہ بھی اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ پیٹ میں سے گھوڑا نکالنے کا زمانہ اب لد چکا ہے ۔ افسانے کی ترسیل ہی میں اُس کی بقاء ہے چنانچہ نئے افسانے کا رنگ آہستہ آہستہ اُن پر کُھلتا جا رہا تھا اور پھر اُن میں انور خان جیسا دور اندیش افسانہ نگار بھی تھا ۔ اُنھوں نے فوراً اپنا اسلوب بدلا ، اور وہ شخص جو اختصار سے کام لیتا تھا طویل افسانے لکھنے لگا ، ا ب وہ فردکے بجائے اجتماعیت پر زور دے رہے تھے ۔ اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ حقیقت پسندی کی سوغات لے کر آیا اور ایک بار پھر اُنھوں نے سب کو چونکا دیا ۔اُن کے اس آخری پڑائو کے یادگار افسانوں میں ’’ یاد بسیرے، چند لمحے نشاط کے ، بول بچن، حسرت ِ حاصل ،دلبر او دلبر اور افسانہ ’’ عمارت ‘‘ شامل ہیں ۔
انور خان کا افسانہ ’’ بول بچن ‘‘ پڑھتے ہوئے سعادت حسن منٹو کی یاد آجاتی ہے ۔ اس کی کرافٹ میں اُنھوں نے جو ممبئیا زبان کا استعمال کیا ہے اُس کی مثال منٹو کے علاوہ کہیں اور پڑھنے کو نہیں ملتی :
’’ اللہ قسم ! جھوٹ نہیں بولوں گا ، مرتی رات ہے ، چاند سامنے ہے ، چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھی ہوئی ہے ، بڑے بڑے پیر اولیا کا کہا ہے کہ عورت جات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ اُس کے بول بچن کے آگے اچھے اچھے آدمی مات کھاجاتے ہیں ۔ ۔ دوسروں کی بات کیا ، میں اپنی بولتا ہوں ، مگر سالا میں بولوں گا تو تو بولے گا کہ ممو جھوٹ بولتا ہے ۔ مگر ماں قسم ، جندگی میں اپُن نے ایک سے ایک لڑکی گھمایا ، تو کھالی لڑکی دکھا دے میرے کو ، اللہ قسم پٹا کے نہیں دکھادوں تو نام بدل دینا ۔ مگر یار سچی بات تو یہ ہے کہ آج تک اپن کو بھی یہ عورت جات سمجھ میں نہیں آئی ۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو کی طرح انور خان نے بھی اپنے اس افسانے میں ممبئیا زبان کے بہت سارے الفاظ قاری کو دیے ہیں مثلاً ، جھاڑی کرنا ، واٹولا ، وغیرہ ۔ یہ افسانہ موضوعی سطح پر ایک عام سا افسانہ ہے لیکن کرافٹ کی خوبیوں نے اسے نہایت دلچسپ بنا دیا ہے ۔
افسانہ ’’ بول بچن ‘‘ اور افسانہ ’’ حسرت ِ حاصل ‘‘ اپنے اندر بہت ساری مماثلتیںرکھتے ہیں ۔ ان دونوں افسانوں کے مرکزی کرداراپنی اپنی داستان ِ محبت بیان کر رہے ہیں ۔ ایک کا کردار پاکٹ مار ہے تو دوسرے افسانے کا کردار جوتا چور ہے ۔ دونوں نہایت خودار ہیں ۔ کسی کا احسان اُنھیں پسند نہیں ۔پہلا انپڑھ ہے لیکن جوتا چورگریجویٹ ہے ۔ دونوں کردار اونچے پورے صحت مند ہیں ۔ ان افسانوں کے واقعات، زبان و بیان ، تسلسل اس قدر عمدہ ہے کہ قاری انھیں ایک ہی بیٹھک میں پڑھ لتیا ہے ۔
انور خان کے افسانوں میں ایک ایسے سکون اور اطمینان کا احساس ملتا ہے جو کسی اور قلم کار کے پاس شاید ہی ہو ۔ اُنھوں نے بے شمار موضوعات پر افسانے لکھے ہیں لیکن ان کا پسندیدہ موضوع تھا فرد کی تنہائی کا کرب ، کبھی یہی کرب اُنھیں بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس دلاتا ہے ، کبھی گھر کی چار دیواری میں اور کبھی ہزاروں کے بیچ بھی ، اسی احساس نے اُن سے کبھی ’’ صدائوں سے بنا آدمی ‘‘ کبھی ’’ سیاہ اور سفید ‘‘ کبھی ’’ شکستگی ‘‘ لکھوایا ہے ۔ اُنھوں نے بار بار یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ کھوکھلے معیار ، روایت سے بیزار گی ، جنریشن گیپ کے باوجود انسان ان ہی قدروں میں پناہ لیتا ہے ۔ جنھیں اُس نے شعوری طور پر مغرب کی تقلید میں رد کر چکا ہے ۔
اسلوبیاتی سطح پر انور خان کے افسانے دو حصّوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلا حصّہ جس میں اُن کے طویل یا نسبتاً کچھ طویل افسانے شامل ہیں لیکن ان کے مختصر افسانے فلمی منظر نگاری کی تکنیک سے آراستہ ہیں ، یا وہ اسلوب جس میں فنکار شعور کی آنکھ سے کیمرے کا کام لیتا ہے یا پھر اُن کے بعض افسانے محض کیفیت یا ایک تاثر کا احساس دلاتے ہیں ۔
٭٭٭
Comments
Post a Comment