دو فرلانگ لمبی سڑک ۔۔۔۔۔۔۔۔کرشن چندر
دو فرلانگ لمبی سڑک
تجزیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلام بن رزاق
سرسید کی اصلاحی تحریک کے بعداردو ادب میں ترقی پسند تحریک سب سے توانا اور فعال رہی ہے۔اس تحریک نے فرسودہ سماجی ،تہذیبی اور اخلاقی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اردو ادب کے زمین آسمان ہی بدل دئے۔اس میں کرشن چندر،اوپیندرناتھ اشک، خواجہ احمد عباس،راجندرسنگھ بیدی،حیات اللہ انصاری اور عصمت چغتائی جیسے فکشن نگاروں کے نام نمایاں تھے۔البتہ کرشن چندر اپنے رومانی اسلوب نگارش،اشتراکی اورانقلابی نظریے کے سبب ترقی پسندوں کے محبوب افسانہ نگار بن گئے۔
اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ پریم چند کے بعد اردو فکشن کو ثروت مند بنانے میں کرشن چندر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔کرشن چندر نے ۴۰ سے ۶۰ تک اردو افسانے کے قارئین کے دلوں پر حکومت کی ہے۔اس لئے انہیں قلم کا بےتاج بادشاہ کہا جاتا تھا۔پریم چند کے بعد سماجی حقیقت نگاری کا بےلاگ فنکارانہ استعمال کرشن چندر کے سوا کسی اور کے ہاں نہیں ملتا۔وہ اردو فکشن کے ایک جری سپاہی تھے جنھوں نے سماجی کمزوریوں،اقتصادی ناہمواریوں اور سیاسی جبرواستحصال کے خلاف قلمی جہاد کیا ہے۔انھوں نے مزدور ،فقیر ،چمار،بھنگی،کلرک جیسے سمان اور نچلے طبقے کے مفلوک الحال لوگوں کو حاشیے سے اٹھا کر اپنے فن کے مرکز میں لاکرکھڑا کردیا ان کے افسانوں کا کینواس پریم چند سے ہی نہیں بلکہ اردو کے تمام ادیبوں سے زیادہ وسیع ہے۔وہ ساری زندگی حق و انصاف کے لئے لڑتے رہے اور ایک نئے سماج کی تعمیر نو کو اپنے فن کی اساس بنایا۔وہ عوام کے ادیب تھے اور عوام کی کہانیاں عوام کے لئے لکھتے تھے۔خود ان کا کہنا تھا:
’’میرا فن عوام کی دین ہے‘‘۔
اس زمانے میں کرشن چندر کی معمولی سی معمولی تحریر بھی ادب کے میزان میں سونے چاندی کے بھائو تولی جاتی تھی۔نوجوان نسل تو ان کے افسانوں اور ناولوں کی طرف یوں لپکتی تھی جیسے پروانے شمع کی طرف اور بھونرے پھولوں کی طرف لپکتے ہیں۔
کرشن چندر شروع سے اشتراکیت کے حامی رہے ہیں۔
ممبئی میں گودی کے مزدوروں سے متاثر ہوکر انہوں نے ’’تین غنڈے‘ لکھا اور تقسیم کے بعد فسادات کے موضوع پر ’’پشاور ایکسپریس ‘‘،’’ہم وحشی ہیں‘‘ اور ’’امرتسر آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد‘‘جیسے افسانوں نے انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔’’کالو بھنگی‘‘اور ’’مہالکشمی کا پل‘‘جیسے افسانے بھی ا س زمانے کی یادگار ہیں۔
اس دوران کرشن چندر اور ان کے فن پر جو مضامین لکھے گئے ان میں سے بیشتر تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں جو مبالغہ آمیز تعریف و توصیف کی چاشنی میں لپٹے ہوئے ہیں۔شہرت اور مقبولیت کی چکاچوند میں ان کے اچھے افسانوں کی چمک ماند پڑ گئی اور کرشن چندر ترقی پسندی اور اشتراکیت کا اشتہار بن کر رہ گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ ترقی پسندوں کو کرشن چندر کی کمزوریوں کا علم نہیں تھا مگر اس زمانے میں ترقی پسندوں کو کرشن چندر جیسے لکھاری کی ضرورت تھی جو ادب کے نام پر ان کے نظریات اور خیالات کو عوام تک پہنچاسکے۔کرشن چندر نے یہ فریضہ نہایت خندہ پیشانی سے انجام دیا اور اپنے فن کو ترقی پسند نظریے کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کردیا۔
کوئی بھی تحریک جاویدانی نہیں ہوتی۔۶۰ کے بعد ترقی پسند تحریک کی چمک دمک ماند پڑنے لگی تھی۔ادھر جدیدیت اپنے پر پُرزے نکال رہی تھی۔ اردو افسانوں میں علامتوں ،استعاروں اور ابہام کی گرم بازاری شروع ہوگئی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کرشن چندر کو نظر انداز کیا جانے لگا۔اس زمانے میں کسی بھی جدید نقاد نے کرشن چندر کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور انہیں اس طرح فراموش کردیا گیا جیسے وہ اردو افسانے کا ایک بھولا بسرا باب ہو۔
اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کے سامنے المیہ یہ تھا کہ ترقی پسند نقاد انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہے تھے اور جدیدیت کے حامی ان سے چشم پوشی کررہے تھے ۔ اس طرح تنقید کے دو متضاد رویوں نے کرشن چندر کو بہت نقصان پہنچایا۔
وارث علوی جو ترقی پسند وں اور جدیدیے دونوں سے نالاں تھے ۔ انہوں نے کرشن چندر کی موت کے بعد ان پر ایک طویل مضمون لکھا۔توقع تھی کہ وہ منٹو اور بیدی کی طرح کرشن چندر پر بھی کوئی ایسی کتاب یا مضمون لکھیں گے جس سے ان کے افسانوں کی صحیح قدرپیمائی کی جاسکے ۔انھوں نے ایک طویل مضمون تولکھا مگر اپنے تنقید ی مزاج کے مطابق شروع میں تعریف و توصیف کی جھڑی لگادی ۔صنائع بدایع کا استعمال کیا۔ایک سے بڑھ کر ایک فقرہ تراشا۔پھر دھیرے دھیرے اپنے اصلی رنگ میں آگئے اور ایک ایک افسانے کو ایسا ادھیڑا کہ قصاب کیا بکرے کو ادھیڑتا ہوگا۔اس پر ستم یہ کہ ان کے بہتر ین افسانوں سے صرف نظر کیا یا پھر انہیں دوچار فقروں پر ٹرخا دیا۔
کرشن چندر کا فن آج بھی منتظر ہے ایک ایسے نقاد کا جو ان کے بہترین افسانوں کا ایک دقیع انتخاب کرکے ترقی پسندوں کے جذباتی تاثرات اور جدیدیوں کے بےجا تعصبات سے بلند ہوکر ان کے فن کا ایسا بھرپور جائزہ پیش کرے جس سے اس کے فن اور آرٹ کے نئے ابعاد روشن ہوں اور ہماری ملاقات ایک ایسے کرشن چندر سے ہو جو اب تک ہمارے نگاہ کم بین سے اوجھل تھا۔
اب آئیے! ’’گاہے گاہے باز خواں ‘‘کے تحت ان کی ایک مشہور کہانی ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کہانی کرشن چندر کی نمائندہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔اردو کے ہر نقاد نے اس کہانی کو ان کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا ہے مگر کسی نے بھی اس پر تفصیل سے گفتگو نہیں کی البتہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس کہانی کے تعلق سے چند وضاحتی جملے ضرور لکھے ہیں۔وہ رقمطراز ہیں:
’’یہ کہانی اردو کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ پانے کے قابل ہے۔کہانی میں سڑک خود ایک کردار ہے۔اس میں تمثیلی پیرایہ بھی آگیا ہے جس کی مدد سے سماج کے استحصالی پہلوئوں کی استعاراتی ترجمانی کی گئی ہے۔
اوپر بیان کیاجاچکا ہے کہ اردو کے تمام نقادوں نے بیک زبان کرشن چندر کو’’رومانی بیانیہ‘‘کا بادشاہ تسلیم کیا ہے مگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کرشن چندر نے نہ صرف بیانیہ کے کشت زار میں اپنے فن کا ہل چلایا ہے بلکہ تجریدیت اور ابہام کی بھول بھلیوں میں بھی اپنے کف پا کے نقش چھوڑے ہیں۔
’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘ایک ایسا ہی افسانہ ہے جو پہلی قرأت میں چھوٹے چھوٹے واقعات کا محض ملغوبہ معلوم ہوتا ہے مگر ذرا نظریں گاڑ کر پڑھیں تو معنی و مفہوم کے کئی در وا ہوتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ افسانوں کی ہیئت اور تکنیک میں تجربوں کی شروعات جدیدیت کے زمانے میں ہوتی مگر اس سے پہلے کرشن چندر نے اپنے کئی افسانوں میں تکنیک کے تجربے کئے ہیں۔’’غالیچہ‘‘، ’’کالو بھنگی‘‘، ’’پانی کا درخت‘‘،’’مہالکشمی کا پل‘‘اور’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘اسی نوعیت کی کہانیاں ہیں۔’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کو لاژیامونتاژکی تکنیک میں لکھا ہوا افسانہ ہے۔اگرچہ اس تکنیک میں احمد علی بھی ’’ہمارے گل‘‘ کے نام سے ایک افسانہ لکھ چکے ہیںتاہم ’’ہمارے گل‘‘میں واقعات کی اس قدر بہتات ہے کہ ہر واقعہ پانی کے بلبلے کی طرح ذہن کی سطح پر ابھرتا ہے اور لمحے بھر میں معدوم ہوجاتا ہے۔کرداروں کا ایسا ہجوم ہے کہ ہر کردار ذہن پر کوئی گہرا نقش ثبت کئے بغیر گزر جاتا ہے۔اس کے علاوہ افسانے کی طوالت بھی اس کی اثر پذیری میں مانع ہے جبکہ ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیںیا جو منظرکشی کی گئی ہے وہ اس قدر جامع ہے کہ ذہن پر نقش ہوجاتی ہے۔
’’سڑک ایک جامد ،منحوس ،سخت اور بےحس معاشرے کی صور ت حال کا استعارہ بن کر ابھرتی ہے۔ہم نے داستانوں میں جام جہاں نما کے بارے میں پڑھا ہے جس میں دنیا کے حالات کو ٹی وی اسکرین کی طرح دیکھا جاسکتا تھا۔افسانہ نگار نے ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘کو ایک اعتبار سے جام جہاں نما کی تمثیل بنادیا ہے جس میں پورے ملک کے مجموعی حالات کی ایک واضح جھلک پیش کی گئی ہے۔ افسانے میں کوئی پلاٹ نہیں اس لئے کہانی آغاز اور انجام سےبےنیاز ہے۔ البتہ وقت کے ساتھ کیلی ڈوسکوپ(Kaleidoscope)کی طرح منظر بدلتے رہتے ہیں۔افسانے میں چھوٹے بڑے کم و بیش بارہ واقعات یا مناظر پیش کئے گئے ہیں ۔ہر واقعہ عبرت آموز اور ہر منظر چشم کشا ہے۔افسانے میں جو کردار چلتے پھرتے یا حرکت کرتے نظر آتے ہیں وہ سب کسی abstractفلم كی پرچھائیاں معلوم ہوتی ہیں۔
بھیک مانگتےمعذوربھکاری،فٹن میں بیٹھا ہوس پرست بوڑھا سیٹھ،فٹن کے پہیوں تلے کچل جانے والا کتّا، بدعنوان پولس والا، ظالم انگریز، غربت، افلاس اور بیماری کی مار سے پریشان مزدور،اُپلوں کا ٹوکرا سر پر اٹھائے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ دوڑتی بوڑھی عورت کسی بڑے آدمی کے استقبال کے لئے دھوپ میں کھڑے بھوکے پیاسے معصوم اسکول کے طلبہ،مرا ہوا بھکاری،یہ اور ایسے مختلف مناظر ہیں جو قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں لیکن سخت اور بےحس سڑک پر ان دلدوز مناظر کا کوئی اثر نہیں ہوتا جو معاشرے کی بےحسی کا اشاریہ ہے۔ایسا لگتا ہے برسوں بلکہ صدیوں سے حالات جوں کے توں ہیں اور ان کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔
افسانے کا آخری جملہ حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ ’’سڑک خاموش اور سنسان،بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں‘‘۔
اونچی ٹہنیوں پر بیٹھے گدھوں کا ذکر افسانے میں کئی بار آیا ہے۔گدھ جو نحوست ،تباہی اور موت کی علامت ہیں۔اونچی ٹہنیوں پر بیٹھے گدھ ان سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کا استعارہ بھی ہوسکتا ہے جو اونچے مناصب پر بیٹھے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
یہ افسانہ غالباً ساٹھ ستر برس پہلے لکھا گیا تھا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعات اور پیش کردہ مناظر آج بھی شب و روز ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں۔
کرشن چندر ترقی پسند نظریہ کے حامی تھے ۔انہوں نے اپنے افسانوں میں ہمیشہ بغاوت اور انقلاب کی باتیں کی ہیں مگر اس افسانے میں کرشن چندر نے واشگاف انداز میں اپنے انقلابی نظریے کا اظہار نہیں کیا بلکہ معاشرے کی سنگین صورتحال کو اشاروں ،کنایوں میں کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ افسانے کے اختتام پر قاری کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ابھی جس دوفرلانگ لمبی سڑک سے گزر کر آیا ہے اس کے نیچے تو بارود بچھی ہوئی تھی اور وہ ایک نامعلوم قسم کے اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
یہ افسانہ موضوع کے اعتبار سے ترقی پسند ہے مگر تکنیک کے لحاظ سے جدید طرز اظہار کا نمونہ ہے لہٰذا اسے کرشن چندر کا جدید ترقی پسند افسانہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
................................................................................................................................................................................................................................
دوفرلانگ لمبی سڑک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرشن چندر
کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دوفرلانگ لمبی سڑک ہوگی،ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے،کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر، سڑک کے دورویہ شیشم کے سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں۔ان میں نہ حُسن ہے نہ چھائوں،سخت کھردرے تنے اور ٹہنیوں پر گدھوں کے جھنڈ، سڑک صاف سیدھی اور سخت ہے۔ متواتر نو سال سے میں اس پر چل رہا ہوں،نہ اس میں کبھی کوئی گڑھا دیکھا ہے نہ شگاف،سخت سخت پتھروں کو کوٹ کوٹ کر یہ سڑک تیار کی گئی ہے اور اب اس پر کول تار بھی بچھی ہے جس کی عجیب سی بو گرمیوں میں طبیعت کو پریشان کردیتی ہے۔
سڑکیں تو میں نے بہت دیکھی بھالی ہیں لمبی لمبی، چوڑی چوڑی سڑکیں برادے سے ڈھنپی ہوئی سڑکیں ،سڑکیں جن پر سرخ بجری بچھی ہوئی تھی، سڑکیں جن کے گرد سرو و شمشاد کے درخت کھڑے تھے،سڑکیں.....مگر نام گنانے سے كیا فائده اسی طرح تو ان گنت سڑكیں دیكھی ہوں گی لیکن جتنی اچھی طرح میں اس سڑک کو جانتا ہوں کسی اپنے گہرے دوست کو بھی اتنی اچھی طرح نہیں جانتا۔متواتر نوسال سے اسے جانتا ہوں اور ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہریوں سے قریب ہی ہے اٹھ کر دفتر جاتا ہوں جو لا کالج کے پاس واقع ہے۔بس یہی دوفرلانگ کی سڑک،ہر صبح اور ہر شام کچہریوں سے لے کر لاکالج کے آخری دروازے تک، کبھی سائیکل پر کبھی پیدل۔
اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا،اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں آتی۔اس کی صورت میں روکھا پن بدستور موجود ہے۔جیسے کہہ رہی ہو مجھے کسی کی کیا پرواہ ہے اور یہ ہے بھی سچ اسے کسی کی پرواکیوں ہو؟سینکڑوں ہزاروں انسان،گھوڑے گاڑیاں ،موٹریں اس پر سے ہر روز گزر جاتی ہیں اور پیچھے کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔اس کی ہلکی نیلی اور سانولی سطح اسی طرح سخت اور سنگلاخ ہے جیسے پہلے روز تھی۔جب ایک یوریشین ٹھیکیدار نے اسے بنایا تھا۔
یہ کیا سوچتی ہے؟ یاشاید یہ سوچتی ہی نہیں،میرے سامنے ہی ان نو سالوں میں اس نے کیا کیا واقعات،حادثے دیکھے۔ہر روز ہر لمحہ کیا نئے تماشے نہیں دیکھتی،لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا،نہ روتے ہی اس کی پتھریلی چھاتی میں کبھی ایک درز بھی پیدا نہیں ہوئی۔
’’ہائے بابو!اندھے محتاج غریب فقیر پر ترس کر جائو ارے باباارے بابوخدا کے لئے ایک پیسہ دیتے جائو ارے بابا،ارے کوئی بھگوان کا پیارا نہیں، صاحب جی میرے ننھے ننھے بچے بلک رہے ہیںارے کوئی تو ترس کھائو ان یتمیوں پر‘‘۔
بیسیوں گداگر اسی سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں ۔کوئی اندھا ہے تو کوئی لنجا،کسی کی ٹانگ پر ایک خطرناک زخم ہے تو کوئی غریب عورت دو تین چھوٹے چھوٹےبچےگودمیںلئےحسرت بھری نگاہوں سے راہ گیروں کی طرف دیکھتی جاتی ہے۔کوئی پیسہ دے دیتا ہے۔ کوئی تیوری چڑھائے گزر جاتا ہے کوئی گالیاں دے رہا ہے،حرام زادے مسٹنڈے،کام نہیں کرتے،بھیک مانگتے ہیں۔
کام،بےکاری، بھیک۔
دو لڑکے سائیکل پر سوار ہنستے ہوئے جارہے ہیں ایک بوڑھا امیر آدمی اپنی شاندار فٹن میں بیٹھا سڑک پربیٹھی بھکارن کی طرف دیکھ رہا ہے،اور اپنی انگلیوں سے موچھوں کو تائو دے رہا ہے۔ایک سست مضمحل کتا فٹن کے پہیوں تلے آگیا ہے۔اس کی پسلی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔لہو بہہ رہا ہے،اس کی آنکھوں کی افسردگی ، بےچارگی اس کی ہلکی ہلکی دردناک ٹیائوں ٹیائوں کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔بوڑھا آدمی اب گدیلوں پر جھکا ہوا اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے جو ایک خوش نما سیاہ رنگ کی ساڑی زیب تن کئے اپنے نوکر کے ساتھ مسکراتی ہوئی باتیں کرتی جارہی ہے۔اس کی سیاہ ساڑی کا نقرئی حاشیہ بوڑھے کی حریص آنکھوں میں چاند کی کرن کی طرح چمک رہا ہے۔
پھر کبھی سڑک سنسان ہوتی ہے۔صرف ایک جگہ شیشم کے درخت کی چھدری چھائوں میں ایک ٹانگے والا گھوڑے کو سستا رہا ہے۔گدھ دھوپ میں ٹہنیوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں ۔پولس کا سپاہی آتا ہے ۔ایک زور کی سیٹی،او تانگے والے یہاں کھڑا کیا کررہا ہے۔کیا نام ہے تیرا ،کردوں چالان؟ہجور،ہجور کا بچہ!چل تھانے ، ہجور؟ یہ تھوڑا ہے اچھا جاتجھے معاف کیا۔
تانگے والا تانگے کو سرپٹ دوڑائے جارہا ہے ۔راستے میں ایک گورا آرہا ہے۔سر پر تیڑھی ٹوپی ہاتھ میں بید کی چھڑی،رخساروں پر پسینہ،لبوں پر کسی ڈانس کا سُر۔
’’کھڑا کردو کنٹونمنٹ۔‘‘
’’آٹھ آنے صاحب‘‘۔
’’ویل۔چھ آنے‘‘۔
’’نہیں صاحب‘‘۔
’’کیا بکتا ہے،ٹم.........‘‘۔
تانگے والے كو مارتے مارتے بید كی چھڑی ٹوٹ جاتی ہے پھر تانگے والے کا چمڑے کا ہنٹر کام آتا ہے۔لوگ اکٹھے ہورہے ہیں،پولس کا سپاہی بھی پہنچ گیا ہے۔حرام زادے، صاب بہادرسے معافی مانگو،تانگے والا اپنی میلی پگڑے کے گوشے سے آنسو پونچھ رہا ہے لوگ منتشر ہوجاتے ہیں۔
اب سڑک پھر سنسان ہے۔
شام کے دھندلکے میں بجلی کے قمقمے روشن ہوگئے ۔میں نے دیکھا کہ کچہریوں کے قریب چند مزدور،بال بکھرے،میلے لباس پہنے باتیں کررہے ہیں۔
’’بھیا بھرتی ہوگیا؟‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’تنخواہ تو اچھی ملتی ہوگی‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
’’بڑھئو کے لئے کمالائے گا۔پہلی بیوی تو ایک ہی پھٹی ساڑی میں رہتی تھی‘‘۔
’’سنا ہے جنگ سروع ہونے والی ہے‘‘۔
’’کب سروع ہوگی؟‘‘
’’کب؟اس کا تو پتہ نہیں،مگر ہم گریب ہی تو مارے جائیں گے‘‘۔
’’کون جانے گریب مارے جائیں گے کہ امیر‘‘۔
’’ننھا کیسا ہے؟‘‘۔
’’بخار نہیں ٹلتا،کیا کریں،ادھر جیب میں پیسے نہیں ہیں ادھر حکیم سے دوا‘‘۔
’’بھرتی ہوجائو‘‘۔
’’سونچ رہے ہیں‘‘۔
’’رام رام‘‘۔
’’رام رام‘‘۔
پھٹی ہوئی دھوتیاں ننگے پائوں، تھکے ہوئے قدم،یہ کیسے لوگ ہیں۔یہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں نہ حریت۔یہ کیسی عجیب باتیں ہیں، پیٹ، بھوک، بیماری، پیسے قمقموں کی زرد، زرد روشنی سڑک پر پڑ رہی ہے۔
دوعورتیں،ایک بوڑھی ایک جوان،اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے ، خچروں کی طرح ہانپتی ہوئی گزر رہیں جوان عورت کی چال تیز ہے۔
’’بیٹی ذرا ٹھہر ،میں تھک گئی.....میرے الله‘‘۔
’’اماں،ابھی گھر جاكر روٹی پكانی هے، تو تو باولی هوئی هے‘‘۔
’’اچھا بیٹی،اچھا بیٹی‘‘۔
بوڑھی عورت جوان عورت کے پیچھے بھاگتی ہوئی جارہی ہے۔بوجھ کے مارے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،اس کے پائوں ڈگمگا رہے ہیں۔
وہ صدیوں سے اسی سڑک پر چل رہی ہے ،اپلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے،کوئی اس کا بوجھ ہلکا نہیں کرتا،کوئی اسے ایک لمحہ سستانے نہیں دیتا،وہ بھاگی ہوئی جارہی ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔اس کے پائوں ڈگمگارہے ہیں اس کی جھریوں میں غم ہے ، بھوک، فکر، غلامی اور صدیوں کی غلامی!
تین چار نوخیز لڑکیاں،بھڑکیلی ساڑیاں پہنے،بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے جارہی ہیں۔
’’بہن،آج شملہ پہاڑی کی سیر کریں‘‘۔
’’بہن آج لارنس گارڈن چلیں‘‘۔
’’بہن آج انارکلی‘‘۔
’’ریگل؟‘‘
’’شٹ اپ یو فول‘‘۔
آج سڑک پر سرخ ملوان بچھا ہے۔آرپار جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں ،جابجا پولس کے سپاہی کھڑے ہیں کسی بڑے آدمی کی آمد ہے۔جبھی تو اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے لڑکے نیلی پگڑیاں باندھے سڑک پر دورویہ قطاروں میں کھڑے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیا ں ہیں۔ان کے لبوں پر پپٹریاں جم گئی ہیںان کے چہرے دھوپ کی حدت سے تمتما اٹھے ہیں۔اسی طرح کھڑے کھڑے وہ ڈیڑھ گھنٹہ سے بڑے آدمی کا انتظار کررہے ہیں۔جب وہ پہلے پہلے یہاں سڑک پر کھڑے ہوئے تھے تو ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔اب سب چپ ہیں۔چند لڑکے ایک درخت کی چھائوں میں بیٹھ گئے تھے۔اب استاد انھیں کان سے پکڑ کر اٹھا رہے ہیں۔شفیع کی پگڑی کھل گئی تھی ،استاد اسے گھور کر کہہ رہا ہے۔او شفی!پگڑی ٹھیک کر،پیارے لال کی شلوار اس کے پائوں میں اٹک گئی ہے اور ازار بند جوتیوں تک لٹک رہا ہے۔
’’تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے پیارے لال‘‘۔
’’ماسٹر جی پانی‘‘۔
پانی کہاں سے لائوں ،یہ بھی تم نے اپنا گھر سمجھ رکھا ہے۔دو تین منٹ اور انتظار کرو،بس ابھی چھٹی ہوا چاہتی ہے۔
دومنٹ،تین منٹ،آدھ گھنٹہ‘‘۔
ماسٹر جی پانی۔
ماسٹر جی پانی۔
ماسٹر جی بڑی پیاس لگی ہے۔
لیکن استاد اب اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے وہ ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں۔لڑکو ہوشیا رہوجائو۔دیکھو جھنڈا اس طرح ہلانا،ابے تیری جھنڈی کہاں ہے؟قطار سے باہر ہوجا،بدمعاش کہیں کا......سواری آرهی هے۔
موٹر سائیكلوں كی پھٹ پھٹ ،بینڈ کا شور، پتلی اور چھوٹی جھنڈیاں بےدلی سے ہلتی ہوئی،سوکھے ہوئے گلوں سے پژمردہ نعرے۔
بڑا آدمی سڑک سے گزر گیا،لڑکوں کی جان میں جان آگئی ہے اب وہ اچھل اچھل کر جھنڈیاں توڑ رہے ہیں،شور مچارہے ہیں۔
خوانچے والوں کی صدائیں،ریوڑیاں،گرم گرم چنے، حلوہ پوری،نان، کباب۔
ایک خوانچے والا ایک طرے والے بابو سے جھگڑ رہا ہے۔مگر آپ نے میرا خوانچہ الٹ دیا۔میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔میرا تین روپے کا نقصان ہوگیا میں غریب آدمی ہوں، میرا نقصان پوراکردیجئے تو میں جانے دوں گا۔
صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھنگی سڑک پر جھاڑو دے رہا ہے۔اس کے منہ اور ناک پر کپڑا بندھا ہے۔جیسے بیلوں کے منھ پر جب وہ کولہو چلاتے ہیں وہ گرد و غبار میں اٹا ہوا ہے اور جھاڑو دئے جارہا ہے۔
میونسپلٹی کا پانی والا چھکڑا آہستہ آہستہ سڑک پر چھڑکائو کررہا ہے۔ چھکڑے کے آگے جتے ہوئے دوبیلوں کی گردنوں پر زخم پیدا ہوگئے ہیں۔چھکرے والا سردی میں ٹھٹھرتا ہوا کوئی گیت گانے کی کوشش کررہا ہے۔بیلوں کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ابھی سڑک کا کتنا حصہ باقی ہے۔
سڑک کے کنارے ایک بوڑھا گداگر مراپڑا ہے۔اس کے میلے دانت ہونٹوں کے اندر دھنس گئے ہیں ۔اس کی کھلی ہوئی بےنور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں۔
خدا کے لئے مجھ غریب پر ترس کرجائو رے بابا۔
کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا ۔سڑک خاموش اور سنسان ہے۔یہ سب کچھ
دیکھتی ہے،سنتی ہے،مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔انسان کے دل کی طرح بےرحم، بےحس اور وحشی ہے۔
انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر اسے ڈائنامیٹ لگا کر اڑا دیا جائے تو پھر کیا ہو۔ایک طرف بلند دھماکے کے ساتھ اس کے ٹکڑے فضا میں پرواز کرتے نظر آئیں گے۔اس وقت مجھے کتنی مسرت حاصل ہوگی،اس کا اندازہ نہیں کرسکتا۔کبھی کبھی اس کی سطح پر چلتے چلتے میں پاگل سا ہوجاتا ہوں ۔چاہتا ہوں کہ اسی دم کپڑے پھاڑ کر ننگا سڑک پر ناچنے لگوں اور چلا چلا کر کہوں ’’میں انسان نہیں ہوں، میں پاگل ہوں ،مجھے انسانوں سے نفرت ہے،مجھے پاگل خانے کی غلامی بخش دو۔میں ان سڑکوں کی آزادی نہیں چاہتا۔
سڑک خاموش ہے اور سنسان ۔بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں یہ دو فرلانگ لمبی سڑک!
Comments
Post a Comment