عورتوں کے احترام میں ’’ وومنس ڈے ‘‘(یومِ عالم خواتین) منانے والے سبھی مرد و خواتین سے
میری پر زور اپیل ہےکہ، کم از کم آج کے دن تو ایسا نہ کرو۔۔۔ صرف ایک دن۔۔۔پلیز
شوچی سمیتا بھٹاچاریہ
حنیف قمر (اسوسی ایٹ ممبر آل انڈیا فلم اسکرپٹ رائٹر ممبئی )
موبائیل:9594919597
قارئین ہم آپ کو آج ۲۰۱۴ میں کلکتہ سے ممبئی ہندی فلموں و سیرئلس میں متعارف ہونےوالی ایک ایسی خوبصورت فلمی اداکارہ سے ملوا رہے ہیں، جو نہ صرف اپنی مادری زبان بنگالی، بلکہ انگریزی، مراٹھی، ہندی اور اردو میں بھی اچھی طرح گفتگو کر لیتی ہے۔تو آیئے اس اداکارہ سے ملاقات کے دوران ہونے والی سیر حاصل گفتگو سے آپ بھی محظوظ ہولیجئے۔اس خوبصورت اداکارہ کا نام ہے شوچی سمیتا بھٹاچاریہ‘‘
حنیف قمر : میں نےآپ کو پہلی بار ہندوستانی پرچار سبھا میں منعقدہ اردو غزل پروگرام میں غزلوں پر کتھک ڈانس کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پروگرام کے اختتام پر آپ نے ہماری شخصی ملاقات کے بعد اردو فاونڈیشن کے تحت شائع ہونے والے انٹرنیشنل اردو رسالہ ماہنامہ’’تریاق‘‘ممبئی کو کسی مناسب وقت پر انٹرویو دینے کا وعدہ کیا تھا، جو آج پورا ہورہا ہے جس کے لئے میں ادارے کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں ، ہمارے قارئین ( ریڈرز) کیلئے آپکا فلمی تعارف بالکل نیا اور دلچسپ ہوگا ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میں چاہونگا کہ آپ اپنا مکمل تعارف نامہ( انٹروڈکشن) پیش کریں۔
شوچی سمیتا بھٹاچاریہ: سب سے پہلے میں آپ دونوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا، دل سے آپ سب کو اور اس میگزین کے سبھی پڑھنے والوں کو میرا پیار بھرا نمسکار۔۔۔۔۔۔‘‘
دوستو۔۔! سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ میری ولادت جنوری میں ہوئی ہےاور اپنے والدین کی خوش قسمت بیٹی ہوں، جس کا ستارہ’’مکر‘‘ ہے۔ یہ میں اس لئے بتارہی ہوں کہ میں (راشی) پر یقین رکھتی ہوں جو بھی نیا کام مجھے شروع کرنا ہوتا ہے میں راشی دیکھ کر شروع کرنا پسند کرتی ہوں۔ ستاروں کی چال کے مطابق ہی دیکھ کر کرتی ہوں، یہ مجھے بچپن سے سکھایا گیا ہے۔آج تک میں دیکھتی اور آزماتی چلی آرہی ہوں کہ میری زندگی میں اچھا برا جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ستاروں کی چال سے پتہ چل جاتا ہے اس لئے میں آج بھی راشی پر بہت زیادہ یقین رکھتی ہوں۔
تو پھرآپ جیوتش ودیا ( علم نجوم) بھی جانتی ہونگی۔؟ میرے اس سوال پر وہ مسکرائیں اور کہا ’’ بس تھوڑا۔۔تھوڑا۔۔۔۔‘‘
میں نا صرف بنگالی فلم و سیریئلس کی اداکارہ ہوں بلکہ کلاسیکل ڈانسر ہوں، میں شاعرہ بھی ہوں ۔ بنگالی زبان میں، میں نے گیت، کویتائیں بھی لکھی ہیں ۔ میری کئی کویتائیں اور گیت ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ سے (براڈکاسٹ) نشر ہوتے رہے ہیں۔میں گائیکہ بھی ہوںاور یہ سب کچھ مجھے بچپن سے گھرمیںہی سکھایا جاتا تھامجھے جو کچھ سکھایا، بتا یا جاتا ۔۔ میں وہی، ہو بہو نقل کر تی تھی۔ اس طرح اداکاری بھی خود بخود بچپن سے شروع کی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں ناں ۔۔’’بچے کا پہلا اسکول ماں کی گود ہوتی ہے ،ماں ہی دراصل اس کی حقیقی ٹیچر بھی ہوتی ہے‘‘۔ یہ بات بالکل سچ ہے ۔آج بھی میری ماں ہر قدم پر میری ہمت بندھاتی ہے اور حوصلہ بڑھاتی ہے،اچھے برے لوگوں،عادتوں،کاموں ، میں فرق سمجھاتی اور سکھاتی رہتی ہے ، سچ پوچھو تو میری ماں ہی میرے لئے سب کچھ ہے ۔
حنیف قمر : پہلا پرفارمنس آپ نے کس عمر میں پیش کیا؟
شوچی سمیتا: یہ ایک مشہور و مقبول عام بنگالی کویتا ’’ دوئی والا‘‘ جس کو ایک مشہور کریکٹر ’’ چنڈالیکا‘‘ نے گایاتھا جسکے بول ہیں ۔۔
دوئی چائی گو، دوئی چائی ، دوئی چائی گو
شمو آلیہ مرگائی،مولوناتا ہرنائی،نائی ،نائی گو
دوئی چائی گو، دوئی چائی گو۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اسکو گانے والی’’ چنڈالیکا‘‘ کے کیریکٹر میں مجھے گاتے ہوئے پرفارم کرنا تھایہ میرا پہلا پبلک اسٹیج پرفارمنس تھا جس کوبیحد پسند کیا گیا تھا۔ مماں کہتی ہے کہ اس وقت شاید میری عمر کچھ تین، ساڑھے تین سال کی رہی ہوگی، میری مماں یہ بھی کہتی ہے کہ اس پہلے پبلک پرفارمنس سے دیکھنے والے سبھی حیرت سے دیکھتے رہ گئے کہ بنا کسی غلطی اور ہچکچاہٹ کہ میں نے شروع تا آخر بہت اچھا پرفارم کیا تھا جو سب کو بیحد پسندآیا۔ میں سمجھتی ہوں شاید ہی کوئی چائلڈ آرٹسٹ ہوگا جس نے میری طرح کم عمری میں پرفارم کیا ہو۔ بہر حال! میری مماں میرے پرفارمنس سے بہت خوش تھی اطمینان تھا انہیں میرے ٹیلنٹ پر پورا بھروسہ تھا۔
آج کل تووالدین بھی اپنے بچوں کو گیت اور ڈانس اسٹیج شوز کے لئے پروموٹ کر رہے ہیں اور ان کی تربیت کیلئے ڈانس ٹیچرزاور استاد گائیک اور گائیکائوںپر ہزاروںروپئے خرچ کر رہے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے لیکن میرے لئے میری ماں ہی گرو رہی ہیں ، ڈانس ہو یا گائیکی۔
حنیف قمر : ظاہر ہے کہ آپ نے گائیکی کا پرفارمنس بھی بنگالی زبان میں ہی دیا ہوگا ،پہلی بار آپ کو کس نے موقع دیا ، کیا وہ کوئی غیر سرکاری (پرائیویٹ) ادارہ تھا یا سرکاری۔۔؟
شوچی سمیتا : اس معاملے میں میرے والدین خاص کر میری مماں فیصلہ لیتی تھی تو ظاہر ہے کہ وہ اس وقت کے حساب سے سرکاری ادارہ ’’ آل انڈیا ریڈیو‘‘ سلی گوڑی ، میں ایک پروگرام ’’ ششو ماحولے‘‘ جو صرف چائلڈ آرٹسٹس کے لئے ہی ہوتا تھا، جس میں، میں نے بھی حصہ لیا تھا۔میں نے مختلف نظمیں ریکارڈ کروائیں لیکن جس نظم پر مجھے پہلا انعام (پرائز) ملا وہ جناب قاضی نذر الاسلام کی مشہور و معروف نظم ’’ کو کھیو کاٹ برالی‘‘ تھی ۔یہ میرے لئے دوسرا موقع تھا کہ مجھے فرسٹ پرائز ملا تھادونوں طرف سے ڈانس پروگرام میں بھی اور گائیکی میں بھی ، دھیرے دھیرے میرا ڈانس اور گائیکی کی پاپولاریٹی( شہرت) بڑھتی گئی اور یوں ہی چلتا رہا اور۔۔۔۔
اچانک ایک دن میں گلے کی شکایت کی وجہہ سے بیمار پڑ گئی ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں گلے کی بیماری (ٹانسلس) میں مبتلا ہوگئی ہوں۔ تین سال تک مسلسل علاج چلتا رہا یوں سمجھ لو سات سال کی عمر تک میں نے کوئی پرفارمنس نہیں دیا اور تین سال تک مکمل علاج اور آرام کے بعد پھر سے مجھے پرکٹس کی اجازت مل گئی تو میں بہت خوش تھی۔ آہستہ آہستہ میری پرفارمنس کے ساتھ ساتھ آٹھویں کلاس تک بے فکری سے اسکول کی تعلیم اور پرفارمنسس بھی چلتے ر ہے۔۔مجھے فخر ہےکہ دوران تعلیم میں بہت ذہین تھی جسکی مثال یہ ہےکہ مجھے میتھس(حساب) سبجیکٹ میں سو میں سو مارکس ملے تھے ۔
حنیف قمر : کیا آپ کے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ آپ اسٹیج کی دنیا کو ہی اپنا کیرئر بنالیں؟
شوچی سمیتا: جب میں دسویں کے بعد جونئیر کالج، گیارہویں اور بارہویں میں زیر تعلیم تھی تعلیم پر پوری طرح دھیان دینے کا پریشر (دبائو) مجھ پر بڑھتا گیا، میرے والدین کو بھی دیگر لڑکیوں کے والدین کی طرح میرے مضبوط پائیدار کیرئر کی فکر بھی ستانے لگی اور یہ میری تعلیمی قابلیت کے مطابق مجھے ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کا سپنا دیکھنے لگے۔ مجھے اسی طرح کی ترغیب دینے لگے تھے ۔میرے سبھی ڈانس شوز، گائکی کے پروگرامس اور بھی دیگر سرگرمیاں سب پیچھے چھوٹنے لگیں اور میں ان سب سے پھر چار سال کے لئے دور ہو گئی ، پڑھائی، پڑھائی اور بس پڑھائی ۔۔۔
’’ آج سے پہلے صرف لڑکوں کیلئے والدین فکر مند ہوا کرتے تھے لیکن کچھ کچھ والدین آجکل لڑکیوں کی اعٰلی تعلیم کے بارے میں بھی سوچنے لگے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے۔والدین اپنی اولاد لڑکا ہویا لڑکی کیلئے جو بھی سوچتے ہیں، اپنی اولاد کے لئے صحیح سوچتے ہیں ، لیکن ہوتا وہی ہے جس میں لڑکا یا لڑکی کی رچی (دلچسپی )ہوتی ہے۔ مجھے ڈاکٹریٹ تو نہیں ملی مگر ہاں مجھے انجنیئر نگ سیٹ مل گئی لیکن میں انجینئر نہیں بننا چاہتی تھی ۔آٹھویں کلاس تک مجھے جو کچھ بھی سکھایا گیا تھا وہی میرے دماغ سے چمٹ گیا تھا۔ گرئیجویشن میں داخلہ ملنے سے پہلے میں نے ’’ مس نارتھ بنگال ‘‘ کے بیوٹی کانٹسٹ (مقابلۂ حسن) میں قسمت آزمائی تھی ، مقابلہ میں اول تو نہیں لیکن مجھے دوسرا مقام ملا۔یہیں سے میں نے حوصلہ پاکر ربندر بھا رتی یونیورسٹی کلکتہ سے گرئیجویشن (آنرز، ان ڈرامہ تھیٹر)میں داخلہ لے لیااور ۲۰۰۶ میں اچھے نمبروں سے گرئیجویشن کی ڈگری لے لی چونکہ ہم سلی گوڑی سے تعلیم کےلئے کلکتہ منتقل ہوچکے تھے ۔ میں نے اسی یونیورسٹی سے ۲۰۰۸ میں ماسٹر ڈگری (ایم۔اے آنرز ان ڈرامہ اینڈ تھیٹرز) کے ڈگری حاصل کرلی تھی۔ انہی دنوں مجھے اسٹیج کی دنیا سے شہرت کے بل پر مجھے فلم اور سیرئلس میں ایکٹنگ کے لئے آفرز بھی آنے لگے۔ اول تو میں پہلے سے ہی لائیو تھیٹر کیلئے ڈانس اور گائیکی کے پروگراموں سے جڑی ہوئی تھی ہی لیکن اب ایکٹنگ کیلئے آفرز آنے لگے تو میں نے بنگال کے مشہور و معروف مسٹر وبھاش چکرورتی کی تھیٹر’’ آنایا تھیٹر‘‘ کو جوائن کرلیا۔ اس تھیٹر کے ساتھ میں نے ڈائریکٹر راما پرساد بینی (جن کا بہت کم عمری میں اچانک انتقال ہوا)، کی ہدایت میں بے شمار کامیاب پرفارمنس دئے ہیں کچھ عرصہ بعد میںانہوں نے مجھے اور وبھاش چکرورتی کو لےکر ایک کامیاب بنگالی ڈرامہ ’’آچھے آچھے استھان‘‘ ڈائریکٹ کیا تھا۔جس میں وبھاش چکرورتی نے میرے پاپا کا رول کیا تھا،میں انہیں تب سے لےکر آج تک پاپا ہی کہتی ہوںاور مانتی بھی ہوں یہ میرے کیرئیر کا سب سے بہترین سنہری دور تھا ۔
۲۰۰۹ میں بنگالی فلم ’’ اسٹودنٹ نمبر ون‘‘،
۲۰۱۰ بنگالی فلم میں’’ کوکھونو بدائی بولو نا‘‘
۱۱۔۲۰۱۰ میں ایک بنگالی سیرئل’’ کاجوری ‘‘ میں مرکزی رول کیلئے آ فر ملا جس کے ڈائریکٹر امیت سین گپتا تھے اور پھر اس کے بعد تو سیر ئلس کا ایک سلسلہ چل نکلا ۔تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا اسی سال میں نے ایم۔فل بھی مکمل کرلیا تھا۔
۱۲۔۲۰۱۱ میں ’’ شولو آنا‘‘ اسی سال ’’ بھالو بھا شا ڈاٹ کام۔‘‘
۲۰۱۳ : ’’چینا تابو آچینا، ‘‘ اور بھی بنگالی سیرئلس ہیں۔
۲۰۱۴: میں نے پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی تو ، قومی اہلیتی ٹسٹ( این ۔ ای ۔ ٹی) بھی پاس کرلیا۔
۲۰۱۵ میں ہندی سیرئلس ، ٹوٹل نادانیاں اور یہ ہیں محبتیں بھی میری کامیاب سیرئلس میں سے ہیں ۔
ابھی میں پی۔ایچ۔ڈی کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی میں مہمان لکچرر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہوں۔
حنیف قمر : جب آپ ڈانس کرتی ہیں جیسے کتھک ، منی پوری یا پھر کوئی کرییٹیوٹی اسٹائل ڈانس، زیادہ تر کس کی شاعری یاکویتائوں پر پرفارم کرتی ہیں ۔؟
شوچی سمیتا : زیادہ تر میں نے را بندر ناتھ ٹیگور کی ۔نظموں پر یا ان کی شاعری پر ہی پرفارم کیا ہے، اس دوران مجھے بےشمار انعام و اعزازات (ایوارڈز) ملے ہیں،اسی لئے میں آج بھی رابندر ناتھ ٹیگور جی کی شاعری پر ہی پرفارم کرنے کو ترجیح دیتی ہوں۔
حنیف قمر: آپ بنگالی فلموں کی ہیروئن ہیں، ممبئی یونیورسٹی میں کتھک ڈانس کی لکچرر( مہمان)ہیں ۔کتھک پروگرامس بھی دیتی ہیں،سنگر بھی ہو، بنگالی زبان کی شاعرہ بھی ہو، ٹرانسلیٹر(مترجم) ، بنگالی سے مراٹھی زبان میں، میوزک کمپوزر بھی ہو۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ سب آپ کے مشغلے ہیں،تو پھر ان سب میں آپ کا کیرئر منتخب کرنے کو کہا جائے تو آپ کس شعبہ کو پسند کرینگی؟
شوچی سمیتا : میں فل ٹائم کتھک ڈانس پروفیسر بن کر اسٹوڈنٹس کو سکھانے کو ترجیح دونگی اور جو کچھ میں نے سیکھا ہے اس کو مزید آگے بڑھانے کی خاطر باقی سارے مشغلوں کو پارٹ ٹائم کردونگی ضرورت پڑے تو کچھ وقت کے لئے ان پر روک لگا دونگی، اسٹوڈنٹس مجھ سے سیکھیں گے آگے بڑھینگے، سماج میں میری سکھائی ہوئی کلا، آرٹ یا پھر ڈانس ہی کہہ لیجئے کو آگے بڑھائینگے ۔والدین اور ملک کا نام روشن کرینگے۔ میرے مقصد کو پورا ہوتا ہوا دیکھ کر میرے من کو شانتی ملےگی،یہ بہت بڑا اعزاز ہوگا میرے لئے۔ میں چاہونگی کہ لوگ مجھے ٹیچر کے طور پر یاد کریں ، یاد رکھیں ۔ کہتے ہیں نا کہ ’’ ٹیچر (معلم) دیش کا سب سے اہم ترین شخص ہوتا ہے۔ ‘‘ کیرئر کے طور پرپروفیسر بننا میرا بھی ارمان ہے۔
حنیف قمر : جیسا کہ آپ نے کہا اسٹیج سے منسلک کلائیں آپ نے اپنی مماں سے سیکھی ہیں تو کیاکتھک ڈانس بھی ۔۔۔؟کتھک ڈانس کرنے کا طریقہ کار، ترتیب وار کیا ہوتا ہے، اور ان کے نام کیا ہوتے ہیں ۔؟
شوچی سمیتا : نہیں۔۔، نہیں۔۔، آپ سے میں نے ایسا نہیں کہا، بلکہ دیگر والدین کی طرح میری مماں نے بھی بچپن سے ہی مجھے وہ سب سکھانے کا جتن کیا ہے جس میں میری دلچسپی رہی ہے۔ شعور آنے کے بعد تو باقاعدہ میں نے گروئوں سے سیکھا ہے جیسے گرو سودیش رائے، سے سنگیت ،وبھاش چکرورتی اور راما پرساد بینی سے اداکاری، کلاسیکل ڈانس میں نے سوپنا گھوش جو وندنا جی کیساتھ برجو مہاراج کی شاگرد رہ چکی ہیں اور بھی دیگر ماہرین سے میں آج بھی کچھ نہ کچھ سیکھتی رہتی ہوں۔کلاسیکل ڈانس کی شروعات کا پہلا اسٹیپ، جو ہوتا ہے اس کو سلامی کہتے ہیں، پھر ٹکڑا، آمود، گت نیکاش وغیرہ وغیرہ۔ مگر سلامی کے بعد جو اسٹیپس استعمال کیئے جاتے ہیں وہ گیت یا غزل کے بول کے مطابق آگے پیچھے کرنے پڑتے ہیں اور سب سے آخر کا جو مرحلہ ہوتا ہے وہ پیروں کا اور طبلہ کی تھاپ پر ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس میں پورے ڈانس کی جان پھونکنی پڑتی ہے بہت سخت محنت کا کام ہوتا ہے۔
حنیف قمر : گیت یا غزل جو بہ مشکل چار سے سات آٹھ منٹ کی ہی ہوتی ہیں، ان کو ڈانس کے ساتھ پیش کرنا ہو تو آپ کو ریہرسل سے پرفیکٹ بنانے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے۔؟
شوچی سمیتا: گیت یا غزل میری مادری زبان بنگالی میں ہو تو، ایک دو دن ، اور غیر زبان میں ہو تو پرفیکشن لانے تک چھ سات دن تو لگ ہی جاتے ہیں، ویسے کسی بھی گیت یا غزل کے لئے ایک دن کافی ہے۔
حنیف قمر : بچوں کے گروپ ڈانس کے مقابلے میں اگر آپ کو جج بنایا جائے تو کیا آپ اس گروپ میں یہ جج کر پائیں گی کہ کس نے کہاں پر غلطی کی ہے۔؟
شوچی سمیتا : ہاں ایک کلاسیکل ڈانسر ہونے کے ناطے مجھے بچوں کے ڈانس مقابلوں کو جج کرنا کوئی مشکل کام نہیں لگتا ہے اکثرمیں، ایسے پروگرامس میں بھی جاتی ہوں، لیکن کلاسیکل ڈانس سیکھنے والے مقابلوں میں حصہ لینے والے اسٹوڈنٹس سے میں کہنا چاہونگی ، ڈانس کو جتنی روانی سے تم نے شروع کیا ہے دوران ڈانس تمہیں لگے کہ کہیں غلطی ہوگئی ہے تو آپ اس کو بھی کسی نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جانا چاہئے، اچانک رک جائو گے تو غلطی محسوس ہوگی ہی ، لیکن یہ نہ سمجھنا کہ غلطی چھپ گئی ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہاں۔۔۔ چھپانے میں کامیاب ہوگئے تو ہوسکتا ہے وہ کوئی نیا انداز بن کر ججس کی نظر سے چوک ہو جائے۔
حنیف قمر : کلاسیکل ڈانس (کتھک )کا جب بھی ذکر آئیگا تو اکثرڈانسر کے روپ میں صرف عورت کا ہی خیال آتا ہے ، کیا کلاسیکل ڈانس (کتھک) صرف عورتوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔؟
شوچی سمیتا : نہیں ۔نہیں، میں آپ کو بتا دوں، شاید آپ بھی جانتے ہونگے ، کتھک ڈانس کے مہا سمراٹ عالمی شہرت یافتہ ڈانسر برجو مہاراج‘‘ مرد ہی تو ہیں ، جنہوں نے اس ڈانس کو عالمی پیمانے پر مشہور کروادیا اور ویسے بھی نہ صرف کولکاتا بلکہ جہاں جہاں بھی کلاسیکل ڈانس کی اکیڈمیز قائم ہیں وہاں دیکھئے مرد اور عورت سبھی اس ڈانس کو سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور غیر ملکی باشندے بھی اس کو سیکھنے کے لئے دور دراز ملکوں سے بھی آتے ہیں ۔
’’ آپ نے بنگالی لوک گیت (بنجارہ گیتوں) کا مراٹھی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور دھن بھی آپ ہی نے بنائی ہے، کیا آپ نے مراٹھی سیکھی ہے یا کسی اور کی خدمات لی گئی ہیں۔؟کافی دیر کی اپنی خاموشی توڑتے ہوئے انیس عادل صاحب نے سوال پوچھا۔
شوچی سمیتا : جی میں نے باقاعدہ مراٹھی چندن شیوے سر اور کھانڈگے سر، سے سیکھا ہے اور آج بھی سیکھ رہی ہوں۔ ان کے مراٹھی لکچررز نے مجھے مراٹھی سکھانے میں بہت مدد کی ہے اور پھر جیسا کہ میں پہلے ہی آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں اسی یونیو رسٹی کے ’’ لوک کلا ‘‘ شعبہ میں گیسٹ (مہمان) لکچر ربھی ہوں، بچوں کو ڈانس سکھاتی ہوں، کچھ تو ماحول کا اثر ہوگا ہی نا۔‘‘
حنیف قمر : آپ کس بنگالی لوک شاعر کے گیتوں کو مراٹھی میں ترجمہ کرکے عوام کے سامنے لانا چاہتی ہیں اور یہ کیوں ضروری ہے کیا یہ خیال تمہارا ذاتی ہے یا ریسرچ کا حصہ ہے۔؟
شوچی سمیتا : میرا ریسرچ کا ٹاپک(عنوان) ہے’’ تٖفصیلی مطالعہ، تماشہ، مذہبی تہوارجاترا ، اور ان میں گائے جانے والے لوک گیت اور ناچ کے انداز۔‘‘ کے تحت میرا ریسرچ پروجیکٹ چل رہا ہے پورے ہندوستان میں مشہور و معروف لوک گیت شاعر ’’ رجنی کانت سین‘‘کے گیتوں کو میں چاہتی ہوںکہ ان کی شاعر ی کا ایک بہت بڑا حصہ مراٹھی زبان میں ترجمہ کروں ۔
آج تک کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ مراٹھی آدیواسی لوگوں کے لئے ان کے دلچسپ گیت، گائوں گائوں اور گھر گھر عام کردئے جائیں ۔میرے خیال سے ان آدیواسیوں کے لئے اور ان کے تفریحی مشغلوں کے لئے یہ ایک اچھا اور کامیاب قدم ہوگا۔ یوںدیکھا جائے تو شہری لوگوں اور شہر سے قریب گائوں میں رہنے والے افراد کے مقابلے دور دراز مقامات پر بسنے والے ان آدیواسیوںکے لئے تفریح کے بہت کم مواقع ہوتے ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔؟
حنیف قمر : اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ ہر کلا کے شعبہ میں مکمل ہیں، اور اس کا کریڈٹ آپ سخت محنت اور لگن، ایمانداری سے نبھانے کو دیتی ہیں ،کیا تمہیں یہ محسوس ہوتا ہےکہ ہرلڑکی کی کامیابی صرف گھر سے باہر نکل کر کام کرنے میں ہے ۔؟ کیا گھر میں رہ کر اپنے بڑے بزرگوں ، والدین اور سسرال یا شوہر کی فرمانبردار بن کر کامیاب زندگی نہیں گزار سکتی۔؟؟’ ’ آج عالمی وومنس ڈے‘‘ کے موقع پرجو ہمارے دیش کی نہیں بیرون ملکوں کی پرمپرا ہے اورابھی شروعاتی دور میں ہے کیا اس کو ہمارے دیش میں منانا چاہئے ۔؟
آج کے د ن آپ عالمی اقوام کی عورتوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی کچھ مختلف بتائیں۔؟
شوچی سمیتا : سبھی عمر کی عورتوں کو میرا یہ پیغام ہےکہ سب سے پہلے آپ اپنی اولادوں میں یہ فر ق کرنا چھوڑ دیں کہ یہ لڑکا ہے ، یہ لڑکی ہے۔ لڑکے کو یہ کرنا چاہیےاور لڑکی کو یہ نہیں کرنا چاہیے ، اس طرح کا نمایاں فرق جتلا کر لڑکی کے سامنے پست ہمتی کے الفاظ نہ دہرائیں کہ یہ تو لڑکی ہے چہار دیواری تک ہی اس کی زندگی محدود ہے وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ ان کی صلاحیتوں کے موافق ان کی بھی تربیت کیجئے ۔ ان میں بھی خود اعتمادی پیدا کریں۔بجائے اس کےکہ اس کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کومیں والدین کی منفی سوچ مانتی ہوں۔
مردوں کے غلبہ ( میل ڈومینیٹیڈ) والے سماج میں آج بھی یہ باتیں اتنی ہی مشکل ضرورہیں جتنی پہلے بھی تھیں فرمانبرداری کے نام پر فرمانبرداری کا غلط مطلب سمجھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ مذہبی پاس و لحاظ، سماجی نام و نمود کی پابندی جیسے جذباتی ہتھکنڈوں میں جکڑ کر مرد حضرات آج بھی عورتوں کی خواہشات ، ان کے جذبات کو کچلنے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ بھی ایک طرح سے عورتوں کا استحصال ہی ہے۔ اگر فرمانبرداری کا یہی مطلب ہے تو مرد حضرات کو بھی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے ،آپسی صلاح و مشوروں سے گھریلو معاملات نپٹانے میں مدد کرنا چاہیے ، اس سے عورت میں بھی خود اعتمادی اور اسکی ذہنی صلاحیتوں کو قوت ملتی ہے۔ مرد حضرات بجائے ان کا حوصلہ پست کرنے کے مناسب سمت میں راہنمائی کریں تو اس کا تشخص بھی بڑھےگا ، اور پھر عورت ہی فرمانبردار کیوں؟کیا وہ اس لئے کہ مرد فرمانبردار رہ کر زندگی گزارنے کو عیب سمجھتا ہے؟
لیکن پہلے کہ بہ نسبت زندگی گزارنے کے لئے فی زمانہ ضرورتوں کی بدلتی ہوئی کیفیت نے آج ان کے اقدار، ترتیب و اہمیت یکسر بدل کر رکھ دئے ہیں۔عورت اپنی اہمیت اور سماج میں اپنی ساکھ یعنی درجات قائم کر چکی ہے،اس خود اعتمادی کو قائم رکھیںاور زندگی کو متحد، متفق اور خوشگواربنانے کے لئے اپنے باعزت اختیارات کو استعمال کریںگھر سے باہر اور گھر کے اندر دونوں جگہوں پر زندگی کو یکساں اور خوشگوار بنائے رکھیں۔اب رہا آپ کے دوسرے سوال کا جواب کہ ’’ وومنس ڈے ‘‘ ہمارے دیش کی پرمپرا نہیں ہے۔
بے شک آپکا کہنا درست ہےکہ یہ ہمارے دیش کی پرمپرا نہیں ہے یہ دوسرے ملکوں کی دین ہے نقل ہے، اس دن کو ہم ’’ وومنس ڈے ‘‘(عالمی یوم خواتین) کہنے کے بجائے ’’ ہیومنس ڈے ‘‘ ( یوم عالمی انسانیت ) کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ’’وومنس ڈے‘‘ میں پھر ایک طرح سے نمایاں فرق کا احساس چھپایا گیا ہے ۔ دیکھو تم عورت ہو اور ہم مرد ہیں عورت ہوں یا مرد سب انسان ہیں، انسان کی اولاد ہیں۔ اس لئے اس دن کا نام بدل کر’’ یوم انسانیت منائو‘‘ اور انسانیت کے ناطے میں مرد وں کے اس سماج سے اپیل کرتی ہوں کہ آج کل تکنیکی آلات کی مدد سے لڑکی کو ماں کے پیٹ میں ہی مار دیا جارہا ہے ، یا پیدا ہوتے ہی اس کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے یا پھر انہیں زندہ تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے کسی کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ یہ لڑکی ہے ۔عورتوں کے احترام میں ’’ وومنس ڈے ‘‘ منانے والے سبھی مرد و خواتین سے میری پر زور اپیل ہےکہ، کم از کم آج کے دن تو ایسا نہ کرو۔۔پلیز۔۔۔ صرف ایک دن۔۔۔ایکد ن بھی ایسا نہ ہو ۔۔۔تو نہ جانے کتنی لڑکیوں کی جانیں بچ سکتی ہیں۔

Comments
Post a Comment