مارچ ۲۰۱۸

حکمت عملی


’’کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘
’’۲۰۱۹میں کیا ہوگا؟‘‘
اور نہ جانے کیا کیا،بس اسی طرح کی باتیں جہاں دیکھئے ،جسے دیکھئے،کر رہا ہے۔تمام ممالک میں ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں کچھ کرنے سے زیادہ ہم کچھ کہنے سننے میں یقین رکھتے ہیںعملی میدان میں ہمارا شمار نہیں ہوتا۔ اترپردیش اور بہار میں چند سیٹوں پر الیکشن ہوئے اور بھاجپا نہیں آئی ،بس بحث و مباحثہ شروع ہوگیا کہ ۲۰۱۹ میں کیا؟ ہندوستانیوں سے بھلا ہندوستانی نیوز چینل کیوں واقف نہ ہوں؟ بعض نیوزچینلس نے بھی ۲۰۱۹ کی باتیں شروع کر دی ہیں۔۲۰۱۹ ؁ کے لئے ابھی وقت ہے کچھ کر گزرنے کا ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے دن واقعی اچھے ہوں تو اس کے لئے شروعات ابھی کرنی ہوگی۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہودی اگلے دوسو برسوں کی پلاننگ کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں جبکہ ہم ہندوستانی بالخصوص مسلمان باتیں ایک ہزار سال آگے کی کرتے ہیں اور صرف باتیں کرتے ہیں عمل ہمیں آتا ہی نہیں۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے پچھلے چند برسوںمیں جو جو واقعات ہوئے ہیں ان سے ہم بخوبی واقف ہیں اب بھی نہ جاگے تو پھر شاید جاگنے کا موقع ہی نہ ملے۔بھاجپا نیتا سبرامنیم سوامی نے کھلے عام انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے مسلمانوں کو فرقہ فرقہ میں بانٹنے کی حکمت عملی کی تھی جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ وقت کی ضرورت کو سمجھیں اور متحد ہوجائیں۔اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔جہاں بھی فرقہ پرستی اور گروہ بندی ہوئی وہاںہمیشہ ناکامی ہاتھ آئی۔
آج سے سات سال قبل جب ماہنامہ’’تریاق‘‘جاری کیا گیا تھا اس وقت بعض ادیب حضرات نے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپ کس کے ساتھ ہیں ؟ سوال کرنے پر انھوں نے واضح کیا کہ’’ محترم شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ یا جناب گوپی چند نارنگ کے ساتھ ؟‘‘ہم نے مذاقاً کہا کہ ہم تیسراگروہ بنا رہے ہیں جس کا نام ’’تریاق‘‘ہے۔یہ بس مذاق ہی تھا ۔دھیرے دھیرے حالات سامنے آئے جب بعض اردو علاقوں کا ہم نےدورہ کیا توجانا کہ ہر جگہ چند چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کی ساری ترقی و ترویج ان ہی کی مرہون منت ہے۔ مشاعرہ کرلینا اور ایک دوسرے کو اعزاز دینا،دلانا بس یہی ان کی کل کائنات ہے۔اس سے آگے کے جہاں سے وہ ناواقف ہیں۔وہ سنا ہی ہوگا کہ کنویں کا مینڈک اسی کو دنیا سمجھتا ہے۔ جناب اظہر مسعود نے ہمیں بتایا تھاکہ لکھنؤ میں جب اردو اکادمی کی بلڈنگ قائم ہوئی تو اگلے دن اخبارات میں سرخیاں تھیں کہ اردو کا مقبرہ تیار ہوگیا۔
فیس بک پر ایک سوال کے جواب میں اکثر افراد نے یہی کہا کہ گروہ بندی نے اردو کا بہت نقصان کیا ہے۔ادب برائے زندگی سمجھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گروہ بندی نہ صرف ادب و زبان کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ انسانیت کے لئے ،ایک بہترین معاشرہ کے لئے اور اب تو انسانی وجود کے لئے گروہ بندی خطرہ بن گئی ہے۔گلوبلائزیشن نے دنیا کو ایک گائوں کی شکل میں تبدیل کردیا ہےاور اردو والے ہیں کہ اپنے اپنے کنویں کے پاس یوں بیٹھے ہیں کہ جیسے ساری کائنات یہی ہے۔ہم ایسے کئی افراد کو جانتے ہیں جو اردو ادب کی بات چلے تو سب سے پہلے مشاعروں پر تنقید کرتے ہیں اور پھر مشاعرہ کے اسٹیج پر بنے سنورے نوشہ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔تنقید ،ادب کی ایک صنف ضرور تھی جو آج خوشامد بن گئی ہے یا اپنی بھڑاس نکالنے کا طریقہ ہوگیا ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم مل کر نہ صرف زبان و ادب بلکہ ملک و قوم کی فکر کریں اور عملی میدان میں متحرک نظر آئیں۔
اب یہی دیکھئے نا، پچھلے سال ہم لوگوں نے سوچا تھا کہ مارچ کے مہینے میں خواتین نمبر شائع کیا جائے ،بہر حال پچھلے سال تو نہ ہو سکا مگر اس سال ہم لوگوں نے کوشش کی،قلمکاروں کا ساتھ ملا اور لیجئے ہم حاضر ہیں ’’خواتین نمبر ‘‘کے ساتھ۔
خواتین نمبر کے اعلان کے بعد اتنے زیادہ مضامین ،افسانے، غزلیں اور نظمیں ملیں کہ اگر دوسو صفحات بھی شائع کئے جاتے تو کم پڑتے۔ادارہ کی اپنی مجبوریاں ہیں ایسا کر پانا مشکل تھا اس لئے کوشش کی گئی کہ فقط خواتین قلمکاروں کی تخلیقات کو ترجیح دی جائے پھر بھی بہت سی تخلیقات رہ گئیں انشااللہ اگلے چند شماروں میں ’’دھنک رنگ‘‘ کے کالم میں انھیں شامل کر لیا جائے گا۔’’خواتین نمبر‘‘کی وجہ سے اس بار ہم ’’میزان‘‘اور نیا کالم’’آہنگ‘‘نہیں کرپارہے ہیں ۔اگلی بار شامل رہے گا۔ آئندہ شمارہ سے ایک نیا کالم ’’اردو رتن‘‘شروع کیا جارہا ہے جس میں ان افراد کو شامل کیا جائے گا جنھوں نے بذریعہ اردو میڈیم تعلیم حاصل کی اور زندگی میں کسی مقام و مرتبہ تک پہنچے۔ایسے لوگوں کی ہمت افزائی ضروری ہے تاکہ دوسرے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
خواتین نمبر آپ کے ہاتھوں میں ہے ہماری کوتاہیوں سے ہمیں ضرور آگاہ کریں اور قلمکاروں کی حوصلہ افزائی میں بھی پیچھے نہ رہیں۔
چلئے پھر ملتے ہیںاگلے شمارہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب