قیصر خالد (ڈپٹی جنرل آف پولیس ) مہاراشٹر سے ایک ملاقات



  جنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر اردو زبان و ادب کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچایا ہے ، ان کی کامیاب زندگی میںا ن کی مادری زبان کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔

           قیصر خالد(ڈپٹی جنرل آ ف پولس برائےشعبئہ تحفظِ عوامی حقوق،ممبئی ( مہاراشٹر)

حنیف قمر

موبائیل: 9594919597

   جواں سال جدید لب و لہجہ کے منفرد شاعرقیصر خالد سے ایک یادگار ملاقات:

آئینہ ہوں کہ میں پتھرہوں یہ کب پوچھے ہے

  زندگی مجھ سے میرے ہونے کاسبب پوچھے ہے

                 حنیف قمر :  سب سے پہلے میں آپکو یہ بتاتا چلوں کہ اس سال ۲۰۱۶ میں اردو ماہنامہ ’’تریاق‘‘ ممبئی ، اپنے پا نچ سال پورے کرچکا ہے اور اس رسالہ کے مدیرجناب ضمیر کاظمی اور میر صاحب حسن  اور ادارتی بورڈ کے معاونین، جناب فیض الحسن اور انیس عادل صاحب کی دیرینہ خواہش پرماہنامہ ’’تریاق‘‘ کے قارئین کی دلچسپی کو مد نظررکھتے ہو ئے آپ سے انٹرویو کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ کا زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے راست سوال کی طرف آتا ہوں۔

حنیف قمر:  آجکل اکثریت کا مانناہے کہ اردو زبان ذریعہ معاش کی زبان نہیںہے۔یہ صرف شعر و شاعری کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ،آپ کا کیا خیال ہے۔؟ 

قیصر خالد:  انگریزی اور علاقائی زبانوںکی روزگار یا ذریعہ معاش کے میدان میں یقیناً بڑی اہمیت ہے ،لیکن اردو زبان بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہے، ہا ں۔۔۔آبادی کے لحاظ سے یہ ہر جگہ ممدومعاون ہے ، مگر یوں کہنا کہ ـ’’ اردو زبان ذریعہ معاش کی زبان ہی نہیںہے ، سراسر لغو ہے۔ آج مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ۱۹۹۷میں سول سروسیز کے امتحانات میں ، میرا ایک  اختیاری مضمون اردو بھی تھا، آج میں جس اعلی عہدے پر فائز ہوں،انگریزی اور علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی شمولیت بھی میری اہلیت کو اجاگر کر چکی ہےاور مجھے فخر ہے کہ میرے اس روزگار میں اردو زبان بھی شامل ہے۔ایسا ماننا اور کہنا کہ اردو زبان اب صرف شعر و شاعری کیلئے محدود ہوکر رہ گئی ہے یہ قطعاً غلط ہے۔ 

حنیف قمر:  اردو زبان کی اہمیت آپ کے نزدیک کیا ہیے ؟ 

قیصر خالد: صرف اردو زبان ہی نہیں بلکہ ہر ایک زبان، جو مختلف حلقوں اور سماج میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،آپسی گفت و شنید کے لئے بیحد ضروری ہوتی ہے، فرض کیجئے.

(موبائل کی گھنٹی بجتی ہئے، اور وہ اپنا جواب ادھورا چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں)کچھ توقف کے بعد واپس لوٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔

  ہاں۔۔! تو میںیہ عرض کر رہا تھا کہ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب کہیں زبردست مار پیٹ کے دوران کافی کچھ نقصان ہوجاتاہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہوں لیکن ایسے موقعوں پر    فریقین کو سمجھانے اور معاملے کو   سلجھانے کیلئے اچھی گفتگو کی ضرورت آن پڑتی ہے، تب فریقین کی سمجھ میں آنیوالی زبان یا بولی کا استعمال کیا جاتاہے ، چاہے آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں آزمالیں، اس ماحول سے مطابقت رکھنے وا لی زبان کا شیر یں انداز میں استعمال کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں، اس سے انسان کی سمجھ بوجھ پر کافی اثر ہوسکتا ہے۔اور زبان کے بغیر انسان ، انسان نہیں رہ جاتا،جانور اور انسان میںیہی اک بنیادی فرق ہے۔ انسان اپنی اپنی زبانوں کا استعما ل اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے، آپسی گفتگو کے لئے کرتاہے۔

یہ ہے دور ہوس لیکن ایسا بھی کیا

آدمی کم سے کم آدمی تو رہے  

 حنیف قمر: ادبی حلقوںمیںاردو زبان و ادب اور اس کی ترقی و ترویج کیلئے موجودہ رائج ا لعمل پر اور اسکے تابناک مستقبل پر جو مایوس کن سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں ، کیا آپ بھی اس سے متفق ہیں؟

قیصر خالد: کسی بھی زبان و ادب کی مقبولیت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس کے بولنے سیکھنے، پڑھنے لکھنے والے موجود ہیں اور رہی اردو زبان اس کی مقبولیت، اسکی ترقی و ترویج کا عمل یہ دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ وہ سارے لوگ جو زندگی میں اردو کے مختلف شعبۂ جات میں کامیاب ہوئے ہیں، جنہوں نے اردو زبان کی بے لوث خدمت کی ہے اور جنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لببک کہ کر اردو زبان و ادب کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچایا ہے ، ان کی کامیاب زندگی میںا ن کی مادری زبان کا بہت بڑا دخل ہوتا ہئےکیونکہ ہماری زبان اردو در اصل عالمی زبان ہے ، اگر آپ بین الاقوامی سطح پر ایمانداری سے ا یک طائرانہ نظر دوڑائیں، تو آپ کو یہ ضرور احساس ہوگا کہ، دنیا میں ہر طرف اردو زبان آبادی کے حساب سے خوب پھل پھول رہی ہے ۔ 

 آجکل نئی نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے انسانی زندگی کے ہر ایک شعبے میں کافی ترقی ہورہی ہے ، ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کی بھی اور خاص کر اردو ر زبان کی ترقی و ترویج بھی خوب ہو رہی ہے۔ ریختہ اردو کی تنظیم، اسکی تازہ مثال ہے ۔اس تنظیم کے مالک میرے اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ میں نے محسوس کیاہے اور ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس پلیٹ فارم پر دنیا بھر سے محبان اردو کو اکٹھا کیا جارہا ہے۔ اس تنظیم میں دنیا کے ہر ایک گوشے سے اردو کے ماہر صحافی،ادباء و شعراء ،ماہر لسانیات اور بھی دیگر اصناف میں لکھنے والے معروف قلمکار لا تعداد جمع ہورہے ہیں، نہ صرف اس تنظیم میں بلکہ دیگر بے شمار تنظیمیں ، حتی المقدور حسب استطاعت اور وسائل مصروف با عمل ہیں، کیا یہ اردو زبان کا ارتقاء نہیں ہے؟

مذہب اور زبانوںکی بقا کا دار و مدار اس کے ماننے والوں کے آپسی اتحاد و یکجہتی پر منحصر ہوا کرتی ہیں۔ آپسی انتشار ان دونوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

حنیف قمر: اردو کے حوالے سے چونکہ آپ کا بھی نئی نسل کے شعراء میں شمار ہوتاہے آپ نئی نسل کے موجودہ شعراء اور ان  کے کلام سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

قیصر خالد: دراصل میرا ایسا ماننا ہے کہ آ دمی کو اپنی شناخت ضرور بنانی چاہئیے۔آج ہم قدیم شعراء جیسے میر،غالب،سودا،داغ،مومن،درد،جوش، جگر ،حسرت موہانی، اقبال ، فیض،فراز، ابن انشاء اور شاد عظیم آبادی جیسے معروف شعرا، یہ سب ادب کے لائقِ اعتماد استاد الشعراء تھے اور ہیں۔ ان کے مختلف نوعیت کے کلام ان کا انداز تحریر اور بھی دیگر طرز کے اشعار سے آج بھی، آپ کو یہ اندازہ ہو جائےگا کہ یہ کس شاعر کا شعرہے، اور یہ جو رنگ جم گیا ہے یہ یونہی نہیںہے۔ اس مقام تک پہنچنے کیلئے بہت سارے مشاہدات،مطالعہ،اور تجربات کی ضرورت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ خون جگر استعمال کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر یہ رنگ یہ شناخت بن جاتی ہے۔

  لیکن بد قسمتی سے مجھے ان دنوں ایسا محسوس ہوتا ہےکہ موجودہ شعراء نے یہ سمجھ لیا ہےکہ ہزار دو ہزارالفاظ کے درمیان پورا ادب سمٹ آیاہے اور بس یہ سب اسی نہج پر شعر کہے جارہے ہیں۔ اگر ایسے شعراء یا مصنف کی تخلیق سے ان کانام ہٹا دیا جائے تو یہ پہچاننا بیحد مشکل ہوجائیگا کہ یہ کس کی تخلیق ہے؟

 حنیف قمر: آپ اپنی شاعری کے ذریعہ سامعین کے ذہنوں پر زندگی کے کس شعبہ کی ترقی و ترویج کی نمائندگی کرتے ہیں ؟قارئین ’’تریاق‘‘کو بتانا پسند کریں گے؟

قیصر خالد:  دراصل شاعری، آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کا ہنر ہے،کہنے کا مطلب، کسی شاعر کی آپ بیتی ہی دراصل وہ جگ بیتی ہوتی ہیے جس کو وہ اپنے احساسات میں پرو کر عوام کے سامنے پیش کرتاہے۔شاعری میں اگر فکر کا عنصر شامل نہ ہو تواس میں کوئی ندرت نہیں ہوگی ۔

انسانی جذبات کی صحیح عکاسی پر کہے جانے والے اشعار جیسے احمد فراز کی شاعری، ان کی شاعری میں بھی انسانی جذبات کا عکس بھر پور ہوتاہےجو بہت دیر تک اپنا تاثرقائم رکھ پاتے ہیں۔ سچے اورحقیقی شاعر کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہونی چاہئے اور ہوتی بھی یہی ہےکہ اسکے تخیل سے کوئی ایسا گوہر نایاب نکلے جو اس کے معنی خیزاور پر اثر تخیلات سے سجی سنوری اس کی شاعری کو بلند مقام عطا کرے اوروہ  اسکی پہچان بن جائے جیسے میرا ایک اور شعر سنئے۔

وہ اک شعر جو اشعار کا ہو کوہ نور 

ہمارے بحر تخیل سے وہ گوہر نکلے

ا ب ممبئی جیسے شہر میں رہائش کے حوالے سے میرا یہ شعر دیکھئے۔

شہر میں ایسی جگہ میرا بھی اک گھر ہوتا

جسکی کھڑکی کے مقابل میں سمندر ہوتا

ممبئی جیسے شہر میں ہر شخص کے دل کی آوازہے، آرزو بن کر رہ گیاہے کہ اس کا بھی اک گھر ہو۔یہ صرف قیصر خالد کے دل کی آواز،آرزو نہیں بلکہ ہر شخص کی دلی آرزو ہے۔ میری مختلف غزلوں کے چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ فرمائیے  ؎

نازک ہے یہ راستہ اس پہ نا چل

اے عشق سنبھل اے شوق بدل

اول اول میرے تذکرے ہیں مگر

آخر آخر کہیں بت جاناں نا ہو

چلنا رکنا دونوں میں بربادی ہے

دشت وفا میں آئے تو ہو آہو بن کر

ایک اچھے شاعر کی پہچان وہی ہے کہ اس کا کلام اس کی حیات میں بھی پڑھا جائے اور بعد از مرگ تو اور بھی کثرت سے پڑھا جائے۔سماج میں اگر آپ مثبت تبدیلی لانے کے لئے شعر کہہ رہے ہیں تو آپ کا کلام آنیوالے وقتوں میں آپ کی پہچان بن جائیگا ،جو برسوں بعد بھی بھلائے، بھلا یا نہیں جاسکتا۔ میں نے تجربے کی بنیاد پرجو شعر کہے ہیںان میں سے چندا شعار سنئے    ؎

ہم  نا یکبار  بھی گرتے تو سنبھلتے کیسے

خوش گمانی تیرے دلدل سے نکلتے کیسے 

یہ زمانہ مکاں کا ،ستم بھی نیا

تیرا غم بھی نیا میرا غم بھی نیا

بدگمانی نے تبدیل محور کئے

کعبہ اسکا تو میرا صنم بھی نیا

موجودہ دور کی شاعری پرایک غزل ملاحظہ فرمائیں   ؎

ہجر و وصال کے نئے منظر بھی آئینگے

آبادیوں میں آئے ہو تو پھر گھر بھی آئینگے 

پامال راستوں سے بغاوت نہیں گناہ

قدریں نئی ہیں تو نئے رہبر بھی آئینگے

محرومیاں کیہں تو کہیں پر نوازشیں

کیا یہ سوال بر سر محشر بھی آئینگے

ڈھائوگے تم جو محور افکار کوتو پھر

یہ جان لو کہ غیب سے لشکر بھی آئینگے۔

آئے ہو شہر  زر کی چکا چوند میں مگر

محلوں کے ساتھ راہ میں بے گھر بھی آئینگے

ہیں پتھروں سے لوگ بھی اس شہر سنگ میں

کیا انکے واسطے نئے آذر بھی آئینگے

دیوی کو منصفی کی ملے گا قرار تب

جب اپنا سر جھکائے ستمگر بھی آئینگےـ

حنیف قمر:  امید کی جاسکتی ہے کے یہ دور بھی آنیوالاہے۔ 

قیصر خالد: ’’ انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ 

کب تلک ترک تعلق کو نبھایا جائے

چھوڑ ماضی کے گھروندوں کو اب آیا جائے

اب وہ محمود و ایاز ، اور سداما، نا کشن

جوبڑا دکھتا ہو پہلو میں بٹھایا جائے

میرا مانناہےکہ شعر میں انسانی جذبات ، فکر اور انفرادیت کی صحیح عکاسی ہو نی چاہئے،جو آپ کی شناخت بن سکے،میں نے میرے دونوں مجموعہ جات ’’دشتِ جاں‘‘، اور’’ شعور عصر‘‘ میں بھی اسی کامیاب سعی کو قا ئم رکھا ہے۔یہی وہ احساسات،تجربات و مشاہدات ہیں جس پر کسی بھی صنف میں بات کہی جانی چاہئے۔جو سابق میں نامی گرامی شعراء و قلمکاراور دیگر فنکاروں نے بھی گاہے گاہے استعمال کیا ہئے۔ ان مذکورہ بالا صفات کے استعمال کے بغیر آپ کچھ بھی تخلیق نہیں کرسکتےاور اگر کروگے تو لا حاصل ہوگا۔آپ بیتی کے ذریعہ ،مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ علم کے ذریعہ سماجی شعور ، اور پیغام محبت کو عام کرنا،بھائی چارہ کی اہمیت کو ابھارنا، وطن پرستی کا جذبہ سے اہل وطن کو بیدار اور سرشار رکھنا ، وغیرہ وغیرہ ۔

مرزا غالب ، فراز، جوش، درد،سودا،ابن انشاء، جگر، حا لی ، میر انیس، حسرت موہانی، علا مہ ا قبال وغیرہ وغیرہ، برسوں بعد بھی۔۔۔ہم ان کا کلام یادکرتے ہیں کیونکہ انہوں نے سماج میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے شعر کہہ کر آنیوالے وقتوں میںاپنی پہچان بنا کرچلے گئے ،جو برسوں بعد بھی آج تک یاد ہیں۔ 

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں  

کار جہاں دراز ہئے اب میرا انتظار کر

جس دشت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی

اس دشت کے ہرخوشۂ گندم کو جلادو  

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہء بر انداز چمن  ایک نظر ادھر بھی  

ڈھونڈھوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جسکی حسرت و غم اے ہم نفسو،وہ خواب ہیں ہم 

بر عکس اس کے شعر گوئی،یا شعر کہنا، اگر آپ کے نزدیک کسی کی تذلیل مقصود ہےاور اسکو ابھارنے کے لئے شعر کہہ رہے ہیں۔ عام سماجی زندگی میں ایک دوسرے کے رہن سہن کے طریقۂ کار پر اپنے نفسیاتی بخار کو ابھار رہے ہیں، تو سمجھ لیجئے کہ ایسے شعراء کے ہاں تخیل، تجربہ و مشاہدہ اور علم کی کمی کے باعث وہ انجانے میں ہی صحیح سماجی زندگی کے مختلف موضوعات کو منافرت پھیلانے کا ذریعہ بنارہے ہیں  ۔ جون ایلیا نے کیاخوب کہا ہئے کہ ’’ جنہیں ابھی مطالعہ کرنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں۔‘‘

  ایسے اشعار کہنے والے شعراء کو شاعری کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا اور نہیں بھی کیا جانا چائیے۔ 

  حنیف قمر:  قدیم شعراء کے علاوہ آپ اور کن کن شعراء کے کلام سے متاثر ہیں؟

قیصر خالد:  اخترالایمان صاحب کو میں بہت پڑھتا ہوں، مجھے ان کا کلام پڑھنے میںایک سرور سا حاصل ہوتا ہے۔ ظفر اقبال،پیرزادہ قاسم، کشور ناہید،پروین شاکر،احمد فراز اورعرفان صدیقی کو بھی پڑھتا ہوں، یہ بھی بہت اچھاکلام کہتے ہیں، عرفان صدیقی کا یہ شعرپڑھئے ۔ 

ریت پر تھک کر گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے

آپ کیوں آئے ہو اس دشت میں وحشت کے بغیر

 حنیف قمر : کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مشاعرے ہی اب ایک واحد راستہ رہ گئے ہیں جہاں ہم اردو زبان و ادب کے نام پر یکجا ہوتے ہیں اور مختلف شعراء کا کلام سنتے ہیںموجودہ مشاعروں ،سے کس حد تک اردو زبان و ادب کو فروغ مل رہاہے ؟

 قیصر خالد : حنیف قمر صاحب۔۔۔!!! آجکل مشاعرے شخصیت پرستی کی مارکٹنگ کیلئے زیادہ اور فروغ زبان و ادب کیلئے کم ہوتے ہیں، مثال کے طور پر کسی بھی مشاعرے کا پبلسٹی پوسٹر ہی لیجئے، جس میںمنتظمین و دیگرمتعلقہ سیاسی،کاروباری اشخاص کی بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ جلی حروف میں نام، اس تنظیم کے اغراض و مقاصد،اور پھر چھ ،سات،یا پھر دس بارہ شاعروں کے نام کےساتھ مقامی افراد ، ان گنت میزبان شاعروں کے نام اور ان کی تصاویرکسی کونے میں چھاپ دئے جاتے ہیں۔ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہوگا کہ مشاعرہ شروع ہونے سے قبل یا پھر بیچ، بیچ میں،سامعین کے اطمینان و خوشی کیلئے، کسی مسخرے کو اسٹیج پر بلا کر مائک سونپ دیا جاتا ہے تاکہ وہ یہاں موجود سامعین کو گرمائے رکھے۔ یہ ساری شعبدہ بازیاں ، کیا فروغ اردو زبان و ادب کیلئے ہیں۔؟ نہیں ۔۔، بلکہ یہ شخصیت پرستی کو فروغ دینے کا کاروبارہے ،جس میں شاعر و متشاعر دونوں کو استعمال کیا جا رہاہے، ایسے مشاعروں کا مقصدشخصیت پرستی اور ذاتی مفاد کی مارکٹنگ نہیں تو اورکیاہے۔؟ مشاعرے قدیم زمانوں میں اردو ادب کی ترقی و ترویج اور  اسکی روایتی شان وشوکت کی بقا کے لئے ہوا کرتے تھے مگر آجکل کے مشاعرے ، پوسٹر بازی اور شخصیت پرستی کا بہانہ بن گئے ہیں، جس سے مشاعرے کی روایتی شان و شوکت مجروح ہو رہی ہے، اردو زبان و ادب کو نقصان پہنچ رہاہےاور یہی وہ لوگ ہیں جو اردو زبان کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں،اسکی تباہی کا واویلہ بھی مچاتے رہتے ہیں۔ اردو سے متعلق شعر سنئے ، شاید ایسے موقع کے لئے مناسب شعر ہوگا   ؎ 

سارا زمانہ سر آنکھوں پر لیتا ہے

رسوا ہوں گھر میں اپنے اردو بن کر

حنیف قمر: پچھلے کئی سالوں سے یہ محسوس کیا جا رہاہے کہ قلمکار و شاعر حضرات نے جب بھی حالات حاضرہ پر قلم اٹھایاہے، صرف منفی پہلو کو ہی اجاگر کیاہے، کیوں۔۔۔۔؟

خالد قیصر: دیکھئے حنیف قمر صا حب۔۔۔،  میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آجکل بیشمار شعراء ، مشاعروں کو ذریعہ معاش بنا لیاہے ایسے شعراء کے نزدیک یہ سب  مارکٹنگ کے ہتھکنڈے ہیں، یہ ادب کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوتے کہ موجودہ حالات کو غیر ضروری ابھار کر، بڑھا چڑھا کے،جوڑ توڑ ، کرکے قافیہ ردیف ملا لیا  ۔۔۔۔اور بس ہو گیا شعر، اسی طرح غزل بھی تیار کرلی، پھرمشاعرہ بھی پڑھ لیا،نقدی لے لی، اور چل پڑے دوسرے مشاعرے کی تلاش میں۔۔۔،

نعت شریف کے حوالے سے قیصر خالد نے کہابیشتر شعراء آج بھی بس سطحی سی بات کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، محبت اگر دل و جاں سے ہو تو اشعار ہوتے ہیں، میں نے بھی اپنے طور پرآپ کی شان اقدس میں نعت شریف کے چند اشعار کہے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ آپ اس انٹرویو میں میری مکمل نعت شریف شائع کریں۔

 حنیف قمر : یعنی آپکا کہنا یہ ہےکہ آجکل کے موجودہ شعراء،ادیب و قلمکاران سب صفات کو سمجھنے سے قاصر ہیں خالی الذہن ہیں، جسکی وجہ سے نئے لکھنے والوں کی تحریریں، تخلیقا ت اور کلام شاعر میں، پختگی باقی نہیں رہی ۔؟

قیصر خالد: نہیں، میرا یہ مطلب نہیں ہے بہت سارے شعراء ،ادیب و قلمکار لکھ رہے ہیں بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے عزیز دوست شکیل اطہر ہیںاور آپ کے ساتھی حسین کاوش بھی اچھاکہتے ہیںان کے علاوہ بھی شارق ، خورشیداکبر، محمد ایوب،ہندو بیرون ہند میں نئی نسل کے بہت سارے شعراء ، ادیب و قلمکار لکھ رہے ہیں، میعاری لکھ رہے ہیں ،گذرے زمانوں میںشاعر حضرات کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اپنے اپنے گروہ در گروہ بناکر اپنے پسندیدہ شاگردوںکومنتخب کرکے دیگر شعراء کے مقا بلے ا نکے کلام کو فوقیت دےکر شہرت دلوانے کا ، یعنی پبلسٹی کا کام سونپ دیتے تھے، پہلے کی بہ نسبت نئی نسل کی خوش نصیبی یہ ہےکہ ان کو جدید تیکنالوجی کا بہت بڑا سہارا بھی مل گیا ہے۔ آج کے ادیب، شعراء و قلمکار اپنی پسندکے فنکار اوران کی میعاری تخلیقات کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے ، بیشمار ویب سائیٹس موجود ہیں،ان پر موجود زبان و ادب کا جو بھی مواد موجود ہے ، اس کا خوب فائدہ بھی مل رہا ہے۔اب پہلے جیسی گروپ بندیاں باقی نہیں رہیں، اب ہم زبان و ادب کے کسی بھی ویب سائیٹس سے استفادہ اٹھاسکتے ہیں، لیکن آج کل یہ گروہ بندیاں مشاعروں کے انعقاد کے درمیان زور پکڑ رہی ہیں، جسکی وجہ سے مشاعروں کا میعار بھی متاثر ہوگیاہے۔یا یوں کہئےکہ ۔’’ من تورا حاجی بگویم،تو من را حاجی بگو۔‘‘  ( یعنی میں تمہیں حاجی کہتا ہوں، تم مجھے حاجی کہو۔)

حنیف قمر:  تخلیق کار اور نقاد کا رشتہ کیاہے اور یہ رشتہ کتنا ضروری اور اہم ہے۔ ان دونوں کے درمیان کیسا رشتہ ہونا چاہئے؟

قیصر خالد:  تخلیق کار کے فن اور اسکی زبان و ادب میں استعمال کئے گئے لفظوں کی معنویت، جملوں کی تراکیب، تدوین،ترویج،اسلوب اور رائج الوقت مشاہدات و تجربات کو تنقید نگار حضرات اپنے مطالعہ اور مشاہدات کے میزان پرتولتے ہو ئے زبان و ادب کی کھری کسوٹی پر پرکھتے ہیں، تنقیدی بصیرت کے سوا شاعری کے حسن پر نکھار نہیں آتا، فن کو تنقید کے الائو پر تاپنے سے فنی میعار کو جلا ملتی ہے اسمیں موجود خامیاں و خوبیوں کی طرف اشارہ ملتے ہیں ، چاہے وہ خود احتسابی سے ملیں یا کسی ماہر نقاد کے ماہرانہ تجربوں سے، مگر ناقد آپ کے روبرو دلائل کی بنیاد پر سچ کہنے کا عادی ہو، جیسا کہ اطہر شکیل نگینوی جو کہ مختلف اداروں سے کئی اعزاز ،انعام و اکرام سے نوازے جاچکے ایک اچھے کامیاب شاعر ہیں بلکہ تنقید نگار بھی ہیں۔ میں شکر گزار ہوں ان کا کہ جنہوں نے شروعاتی دور سے لیکر آج تک مجھے نہایت باریک بینی سے فن شاعری میں موجود مختلف رموز و نکات کی طرف، میرا دھیان مبذول کرواتے رہے ہیں۔ جنکا اکثر و بیشتر خیال بھی نھیں رہتا اور پھر ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور بڑے سے بڑا قلمکار بھی تنقید کا نشانہ بن چکا ہے ۔نام لینے لگیںتو بہت سارے نام سامنے آ ئینگے ،اس سے قلمکار ،شاعر ، ادیب و دیگر فنکاروں کو اپنی تخلیق سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔دوسری بات یہ ہےکہ ، تنقید ، تنقید برائے تعمیر ہونا چاہئے،نقاد کو چاہئے کہ وہ  پیش کرد ہ تخلیقی فن پر دائرہ ادب کے قاعدہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے، حوالہ جات کے تحت باضمیری سے کہے یا رقم کرے،  خوش آمدی اور انتقامی جذبہ سے تنقید کرنا فضول ہوگا۔

حنیف قمر:  ایک آخری سوال ماہنامہ اردو ’’ تریاق‘‘ ممبئی کے قارئین کیلئے جو ہندوستان و بیرون ہند کثیر تعداد میں موجود ہیںجنہوں نے اس رسالہ کو ’’عہد ساز رحجان کا آئینہ دار‘‘  جیسے لقب سے نواز اہے۔آپ کے آج تک منظر عام پر آنیوا لے شعری مجموعات اور اس میں موجود شاعری کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ، تفصیل سے بتائیے؟

قیصر خالد:  میری شاعری کے اب تک دو مجموعےمنظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’ شعور عصر‘‘(مہاراشٹراردو اکادمی سے انعام یافتہ) مارچ ۔۲۰۱۵ میں منظر عام پر آیا جسکو ادبی حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ کافی مقبولیت ملی،  یہاںتک کہ ایک سال کے اندر اس کا دوسرا ایڈیشن جولائی ۔۲۰۱۶میں دوبارہ چھاپنا پڑا اور ۲۰۱۶  میں اس کی ہندی زبان میں بھی طباعت کروانی پڑی ۔اسی سال مئی ۲۰۱۶ میں میرا دوسرا مجموعہ ’’ دشت جاں‘‘ بھی منظر عام پر آچکاہے، جسکی مقبولیت کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے۔ میری شاعری کا سفر جو بھی نظر سے گزرا اجمالی بیان تھا، مگر جوں جوں فہم و ادراک کی پرتیں کھلتی گئیں یہ راز مجھ پر عیاں ہونے لگا کہ وقتیہ رنگا رنگی کا خاکہ دراصل شاعری کی پہلی سیڑھی ہے، اس فن میں فکر و عمل کے بے شمار مراتب اور منازل ابھی سر کرنے باقی ہیںاورانہیںپانے کی کامیاب سعی ہی فن شاعری کے سفر میں سچا عشق ہے۔میں چاہتا ہوں کہ زبان و ادب اور فن شاعری کے ذریعے سماج میں مثبت خیالات پروان چڑھیں ان کو بڑھاوا ملے ، لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر محبت و خلوص سے زندگی گزاریں۔ ایکدوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہوں، اچھے برے اعمال کا بہتر طور پر فرق محسوس کریں، سچائی کی اہمیت کو فروغ ملے وغیرہ۔ یہ باتیں شیریںزبانی کے علاوہ،شعر و ادب کے ذریعہ بھی ممکن ہیں اور بہت کامیاب بھی۔ان ہی جذبات کو میں نے اپنے دونوں شعری مجموعوں کے ذریعہ منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہونگا۔ میری شاعری موجودہ دور کی آئینہ دار بھی ہے، یہ حالات حاضرہ کا رزمیہ بھی، تو کہیں کہیں المیہ بھی، اسمیں انحراف کا اعلامیہ بھی ہے اور اعتبار کی گونج بھی، رد و قبول کے عمل میں میرے اب تک کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہیں میرے اشعار اور میرا یہ شعری سفر ابھی جاری ہے۔ 

  قارئین ، عاشقان اردو، مخلص دوست احباب کےسجھائو ،انکی پسند نا پسند کے دائرے میں کی جانے والی تعریف و تنقید، سجھائو اور ان کی پسند نا پسند کے ذریعہ نشاندہی کی جانے والی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہونگا۔ جن سے مجھے اپنا فن نکھارنے میں مدد ملتی ہو ایسے سبھی مخلص دوست احباب اور قارئین میرے لئے استاد اور ماہر نقاد کے مانند ہیں۔

 میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب