Posts

Showing posts from 2018

US KE LIYE (AFSANA) اُس کے لئے (افسانہ)

Image
 اُس کے لئے میر صاحب حسن ایڈیٹر’’تریاق‘‘ممبئی رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی، بارش کی شریر بوندیں گاہے گاہے سے جیپ کے شیشے سے ٹکرارہی تھیں جنھیں کانچ پر لگا وائپر خوبصورتی سے ایک سمت کرتا جارہا تھا۔ دوگھنٹے پہلے بھی میں قصبہ کا چکر لگا چکا تھا ۔مکمل طور پر امن تھا کہیں کوئی شور شرابہ نہیں تھا مگر ریڈیوسے جو خبریں دوسرے شہروں کی آرہی تھیں اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ریاست کی صورتحال کیا ہوگئی ہے جگہ جگہ فساد پربا تھا۔حکومت امن کا دعویٰ کررہی تھی مگر صورتحال بدتر ہوتی جارہی تھی۔جب سے مسلمانوں کے ہمدرد کہے جانے والے لیڈر کی سرکار بنی تھی تب ہی سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا ،جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگے ہوئے تھےقریبی شہر میں۔ ٹیکم گڈھ ریاست میں شہر سے دور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ،جس کی آبادی بمشکل چالیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ بہت سے تاجر پیشہ افراد شہروں میں رہتے تھے چھٹیوں میں یہاں آجاتے ۔ جنوب سمت میں ایک پہاڑی تھی اور اس سے لگ کر ایک خوبصورت سی ندی بہتی تھی جو دلوں کو سکون عطاکرتی تھی۔اسی جانب کچھ کوٹھیاں بھی موجود تھیں جس میں چند ایک کے علاوہ سب ہی آبادتھیں۔قصبہ کے بی...

MORNAMA BY INTIZAR HUSAIN

Image
۲۰۱۶؁ کو اردو کے ممتاز فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کا لاہور میں انتقال ہوگیا۔یہ خبر برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اردو داں حلقے پر بجلی کی طرح گری۔انتظار حسین ہمارے عہد کے سب سے بڑے قصہ گو تھے۔ان کے اب تک افسانوں کے آٹھ مجموعے،چار ناول،دو سفرنامے،کالموں کے تین مجموعے اور انگریزی میں متعدد کتابوں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ان کی سوانح’’چراغوں کا دھواں‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے اردو کے ادبی حلقے میں خوب سراہا گیا۔ ان کی موت قرۃالعین حیدر کے بعد اردوادب کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔وہ ۷؍دسمبر ۱۹۲۳؁ کو ضلع بلند شہر کے قصبہ ڈبائی میں پید ا ہوئے۔میرٹھ میں تعلیم حاصل کی اور تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ انتظار حسین کا شمار ترقی پسند دور کے آخری ایام میں ابھرنے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ابتدا میں انھوں نے ترقی پسند افسانہ نگاروں کے زیر اثر سماجی، سیاسی اور معاشرتی نوعیت کے افسانے ضرور لکھے لیکن بہت جلد انہیں احساس ہوگیا کہ اکہرے بیانیہ کے پامال اسلوب میں وہ اپنے عہد کا آشوب بیان نہیں کرسکتے۔علاوہ ازیں جدیدیت میں تجریدیت اور ابہام کے نام پ...

RISHTON KI SALIB BY TANWIR TIMMPAURI

Image
رشتوں کی صلیب تنویر احمد تماپوری،الریاض سودی عرب،موبائیل –00966501724826 خلیج کی لڑکیاں --- کالے لبادوں میں محصور ہونے کے باوجود بھی حسن سے لدی پھدی ہوتی ہیں۔ وہ نمائش کے ذرائع محدود ہونے پر بھی اداوں کی آتش بازیاں جانتی ہیں۔ دیکھنے والوں کو یہ یقین دالنے میں ماہر ہوتی ہیں کہ ان کے پاس کالے لبادوں کے عالوہ بھی بہت کچھ ہے اوربہت نایاب ہے۔ عبداللہ آفندی کی دونوں لڑکیاں بھی مذکورہ خوبیوں سے مزین تھیں ۔وہ حسن میں ایکہ تھیں اور متحیرکرنے میں حکم کا یکہ ۔ اگرآفندی قبیلہ حسن کی کان تھا تو نورہ اسکا سب سے قیمتی ہیراتھی ۔عربی قہوے جیسازعفران مال سنہرارنگ ۔ صحرا کے چاند کی طرح روشن چہرہ۔پام کے پیڑسا سڈول بدن۔ چال میں سراور ڈھال میں لئے تھی۔نورہ بر صغیرکی نورہ کشتی جیسی ہی تھی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ بظاہر نہایت شریف نیک بزرگوں کی چہیتی نظر یں نیچے رکھنے والی ۔ اسکی بظاہر جھکی رہنے والی معصوم آنکھیں دراصل چور بازاری کے ہنر جانتی تھیں ۔ موقعہ محل دیکھ کر کینچلی بدلنا اسکےڈی این اے میں تھا۔خلیج کی اکثر لڑکیوں کی طرح نورہ کا ڈبل رول بھی متاثر کن تھا وہ کہیں ستی ساوتری تھی ...

SACH KA DESH NIKALA

Image
سچ کو دیش نکا لا  سراج فاروقی ۷۰۳،وادگھار،نزدکالج پھاٹہ،پنویل۔۴۱۰۲۰۶ ای میل : farooquisiraj@gmail.com    علی حسین بہت بڑا مصور تھا ۔وہ بڑ اہی حق پرست اور انصاف پسند تھا۔ وہ بڑ ی ہی اچھی ا ور نایاب تصویر یں بنا یا کر تا تھا ۔ مہا را ج کو اپنے اس غریب مصور کی کو ئی خبر نہ تھی۔ یا یو ں کہیں وہ ہمیشہ جھو ٹے اور چا پلوسو ں میں گھرا رہتا تھا ۔اسے وہ لو گ جو دکھا تے وہ وہی دیکھتا اور سنتا تھا ، اسے اپنی آنکھ ، کا ن ،نا ک پر جیسے کو ئی بھروسہ ہی نہیں تھا ۔ ایک با ر وہ پڑ وسی دیس میں گھو منے گیا ،تو اس کی وہا ں بڑ ی تعر یف سنی ۔محل آ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا ،’’علی حسین سے ہمیں ملوا یا جا ئے ۔ ہم بھی تو دیکھیں ،کیسی نا یا ب مورتی ہما رے نا ک کے نیچے چھپی بیٹھی ہے اور ہم کو خبر تک نہیں ہے۔۔۔۔۔‘‘ وزیر تو سب جانتا  تھا۔ وہ را جا کو اس کے نگارخانے میں لے گیا ۔ را جا نے بڑ ی ہی ہیچ نظروں سے اس پھٹے حا ل مصوراور اس کے نگارخانے کو دیکھا ۔جبکہ مصو ر نے را جا کا اپنے نگار خانے میں بڑی ہی خوش دلی سے استقبال کیا ۔ را جا اس مصور کے نگارخانے میں ب...