US KE LIYE (AFSANA) اُس کے لئے (افسانہ)




 اُس کے لئے

میر صاحب حسنایڈیٹر’’تریاق‘‘ممبئی


رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی، بارش کی شریر بوندیں گاہے گاہے سے جیپ کے شیشے سے ٹکرارہی تھیں جنھیں کانچ پر لگا وائپر خوبصورتی سے ایک سمت کرتا جارہا تھا۔ دوگھنٹے پہلے بھی میں قصبہ کا چکر لگا چکا تھا ۔مکمل طور پر امن تھا کہیں کوئی شور شرابہ نہیں تھا مگر ریڈیوسے جو خبریں دوسرے شہروں کی آرہی تھیں اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ریاست کی صورتحال کیا ہوگئی ہے جگہ جگہ فساد پربا تھا۔حکومت امن کا دعویٰ کررہی تھی مگر صورتحال بدتر ہوتی جارہی تھی۔جب سے مسلمانوں کے ہمدرد کہے جانے والے لیڈر کی سرکار بنی تھی تب ہی سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا ،جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگے ہوئے تھےقریبی شہر میں۔
ٹیکم گڈھ ریاست میں شہر سے دور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ،جس کی آبادی بمشکل چالیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ بہت سے تاجر پیشہ افراد شہروں میں رہتے تھے چھٹیوں میں یہاں آجاتے ۔ جنوب سمت میں ایک پہاڑی تھی اور اس سے لگ کر ایک خوبصورت سی ندی بہتی تھی جو دلوں کو سکون عطاکرتی تھی۔اسی جانب کچھ کوٹھیاں بھی موجود تھیں جس میں چند ایک کے علاوہ سب ہی آبادتھیں۔قصبہ کے بیچوں بیچ سے ایک سڑک گزرتی تھی جس کے دائیں بائیں کوٹھیاں، دکانیں وغیرہ بنی ہوئی تھیں جو ٹیکم گڈھ کو ایک قصبہ کی صورت میں پیش کرتی تھیں۔میں گزشتہ چودہ مہینوں سے بحیثیت تھانہ انچارج اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اب تک زیادہ تر سکون ہی تھا کبھی کبھار ہی کوئی الجھا ہوا کیس سامنے آتا۔ 
اب سے چند مہینے پہلے اسی طرح کی ایک سرد رات تھی جب میں قصبہ کا دورہ کرکے جیسے ہی تھانے پہنچا میرے ماتحت حولدار رام لال نے مجھے آکر بتایا ۔
’’ ایک عورت اندرکیبن میںانتظار کررہی ہے ،چونکہ باہر سردی زیادہ تھی اس لئے میں نے اس عورت کو آپ کے کیبن میں بٹھا دیا ہے‘‘۔
میں نے رام لال سے چائے لانے کو کہا اور اپنے کمرے میں آگیا ۔ کمرے میں ایک لالٹین کی مدھم سی روشنی میں اس عورت کو دیکھا ۔شاید انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ،بالوں سے اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا ۔ میں نے سوچا پہلے چائے پی لوں پھر اس عورت کو آواز دوں کہ معاملہ کیا ہے؟یہ سوچتے ہوئے میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 
کچھ دیر میں رام لال نے چائے لاکر دی۔ 
میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سوچ ہی رہا تھا کہ فجر کا وقت ہوجائے تو نماز بعد جاکر اپنے کمرے میں آرام کروں گا۔ اچانک بجلی کے کوندنے سے اجالا سا ہوا اور اسی اثنا میں میری نظر سامنے کی بینچ پر سر ٹکائے سورہی عورت پر پڑی۔میں نے جوکچھ دیکھا ،مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔میں نے ہلکے سے ٹارچ جلائی اور اس عورت کے چہرے کو بغور دیکھنے لگا۔ یہ وہی تھی ’’شاہینہ‘‘۔
٭٭٭٭
وہ، جسے دیکھنے کے بعد میں نے پھر کسی کو نہیں دیکھا تھا۔وہ،جسے دیکھ کر میری صبح ہوا کرتی تھی،وہ،جس کے سرخ گالوں کی لالی سے صبح گلزار ہوا کرتی تھی۔ وہ،جس کے لبوں کو چھو کر ہوائیں مہک جایا کرتی تھیں ۔وہ،جس کی زلفوںکی سیاہی لے کر شام گھنیری ہوجایا کرتی تھی۔
  میڈیم کلاس سے ہمارا تعلق تھا ۔دسویں کلاس تک اردو میڈیم کی ایسی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی جہاں  لڑکے ؍لڑکیوں کی الگ الگ کلاسیس ہوا کرتی تھیں ۔ شہر کے ایک مشہور کالج میںداخلہ لیا۔ 
کالج کا پہلا دن تھا۔ 
کلاس میں آدھے سے زیادہ لڑکیاں تھیں لڑکوں کی تعداد کم تھی۔ پروفیسر صاحب آگئے اور اکونامکس کا پہلا لیکچر شروع ہوا۔ لیکچر کے دوران پہلی بار میری نظریں لڑکیوں کی طرف گئیں۔ اچانک ایک لڑکی پر میری نظریں ٹھہر گئیں ،بس اس کے آگے میں کچھ نہ دیکھ سکا۔ لیکچر سنتے ہوئے ہولے ہولے اس لڑکی کی طرف دیکھتا جاتا۔
دوتین روز کی محنت ومشقت کے بعد اس لڑکی کا نام معلوم ہوا ’’شاہینہ‘‘۔
اتفاق سے ایک سبجیکٹ کے علاوہ ہم دونوں کے سبجیکٹ Commonتھے۔ فلاسفی کے علاوہ ہر سبجیکٹ کے لیکچر میں ہمارا ساتھ رہتا۔ میں ایسی جگہ بیٹھتا جہاں سے وہ نظروں کے سامنے رہے۔اب تو سارے دوست بھی جان گئے تھے کہ میں شاہینہ سے دل ہی دل میں محبت کرنے لگا ہوں ۔چنانچہ میں جس وقت کالج پہنچتا جو بھی دوست ملتا وہ خبر دیتا کہ وہ کالج میں کہاں ہے یا کس لیکچر میں اس سے میری ملاقات ہوگی۔ایک دوست مظفر نے جب سنا کہ شاہینہ کو میں پسند کرتا ہوں تو وہ بھی پیچھے ہٹ گیا تھا میری دیوانگی دیکھ کر۔میں روز کوشش کرتا کہ کسی طرح اس سے بات کروں ،دوستی کروں مگر ناکام رہتا ۔ہمت ہی نہ ہوتی۔ میں ہی کیا َمیرے کئی دوست تھے جن کا یہی حال تھا وہ بھی کسی نہ کسی لڑکی کو پسند کرنے لگے تھے مگر نہ تو بات کر پائے تھے نہ دوستی،بس یکطرفہ محبت میں جی رہے تھے۔
دراصل ہم مسلم لڑکے ،کالج میں لڑکیوں کی اکثریت بھی مسلم۔ بوائز یا گرلس اسکول سے ہم زیادہ تر آئے تھے ۔کالج مسلم ٹرسٹ کا تھا ،ماحول بھی مسلم تھا شاید پوری کالج میں ایک یا دوگروپ ایسے رہے ہوں جس میں لڑکے لڑکیاں ساتھ رہتے تھے ۔زیادہ تر لڑکے اور لڑکیوں کا الگ الگ ہی گروپ رہتا۔جبکہ دوسری کالجوں میں ہم دیکھتے تھے کہ کالج شروع ہوتے ہی لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے قریب آجاتے۔جبکہ ہم اپنی کالج میں کسی لڑکی سے کوئی بات بھی کرتے تو یہ چرچا ہوجاتا کہ دونوں کا چکر ہے۔ کبھی کبھی آخری لیکچر کے بعد شاہینہ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اپنا سفر طے کرتا ،ایک چوراہے سے وہ اپنے گھر کی طرف مڑ جاتی اور میں لوکل ریلوے اسٹیشن کی طرف چلا جاتا۔ 
دن،مہینے کی شکل میں گزرتے رہے اور ایک سال گزر گیا۔ گرمیوں کی چھٹی میں اپنے گھر سے پندرہ کلومیٹر کا سفر طے کر میں اکثر اس ٹائپنگ کلاس کے پاس آکر بیٹھ جاتا ، جہاں وہ ٹائپنگ سیکھنے آیا کرتی تھی۔ کسی کسی دن ناکامی بھی ہوتی جب گھنٹوں انتظار کے بعد بھی وہ نہ آتی۔ 
کالج کا دوسرا سال شروع ہوا۔
وہی دیوانگی برقرار تھی،اب بھی نہ بات ہوسکی تھی اور نہ ہی دوستی۔عجب حال تھا روزانہ راتیں اس سوچ میں گزرتیں کہ کل صبح کسی طرح سے بھی شاہینہ سے بات کرنا ہے ۔ اورکالج میں وقت اس خیال میں گزرتا کہ کس طرح بات کروں ۔ کالج کا دوسرا سال بھی ختم ہونے والا تھا۔اس دن کالج میں ملک کے صدر جمہوریہ تشریف لائے تھے اور ایک میوزیکل شو بھی تھا ۔شو کے درمیان بھی میں ایسی ہی جگہ رہاجہاں سے اسے دیکھ سکوں ۔سارے دوست شو کا لطف اٹھاتے رہے اور میں اپنے دل کے سکون کے لئے شاہینہ کو دیکھتا رہا۔ شوختم ہوتے ہی جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ کالج کے گیٹ پر پہنچا تو اتفاق سے شاہینہ بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ گیٹ پر تھی۔ مجھے دیکھتے ہیں اس کی ایک سہیلی نے زور سے کہا ۔
’’لو !!وہ بھی آگیا‘‘۔شاہینہ نے میری طرف دیکھا اور باہر نکل گئی۔
دوسرے دن کالج کی آفس میں کسی کام سے میں رکا ہوا تھا کہ آفس کے گیٹ پر میں نے شاہینہ کو دیکھا جو کسی لڑکے کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ بتارہی تھی۔وہ لڑکا میرے پاس آیا اور مجھ سے نام پوچھا ۔میں نے اپنا نام بتایا ۔
’’میں شاہینہ کا بھائی ہوں۔تمھارے بارے میں شکایت ملی ہے۔تم شاہینہ کا پیچھا کرتے رہتے ہو۔اب بس کرو اور آئندہ یہ شکایت نہیں ملنا چاہیئے۔‘‘اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔ 
میں آفس میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔گھنٹوں بیٹھا رہا اور پھر وہاں سے نکل کر ساحل سمندرکی طرف چلا گیا۔ایسا ہونا ہی تھا ۔ میڈیم کلاس میں رہنے والے طلبا وطالبات جو مادری زبان کی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔کالج کے نئے ماحول میں پہنچ کر وہ چکرا جاتے ہیں۔ فلموں اور سیریل کے زیر اثر دل دے بیٹھتے ہیں مگر جھجھک اور احساس کمتری انھیں روکے رکھتا ہےاوروہ کالج کی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں مگر اپنے دل کی بات اس تک نہیں پہنچا پاتےاور ٹوٹتے بکھرتے رہتے ہیں۔
اس واقعے نے مجھے توڑدیا تھا ۔میری ایکطرفہ محبت کسی سراب کی طرح قریب آتے آتے آنکھوں سے اوجھل ہوچکی تھی۔بارہویں کے بعد میں نے دوسرے کالج میں داخلہ لے لیا ۔
٭٭٭٭ 
دن ،مہینے ،سال گزرتے چلے گئے ۔ 
گریجویشن کے بعد میں نے پولس محکمہ جوائن کرلیا۔والدین نے کافی زور دیا اور میری شادی بھی ہوگئی۔پولس ٹریننگ کے زمانے میں ایک بار ممبئی شہر جانا ہوا تھا ۔اس درمیان ایک پرانے دوست سے ملاقات میں باتوں کے درمیان شاہینہ کا ذکر آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ کالج میں ہی کسی لڑکے سے وہ محبت کرنے لگی تھی اور بعد میں دونوں کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ ممبئی سے کسی اور شہر چلی گئی۔اس ذکر کے بعد پھر کبھی اس کا ذکر نہیں ہوا ،بس رہ رہ کر اس کا نام جانے انجانے میں خیالوں میں آجاتا۔مگر آج۔۔۔۔آج!!!
٭٭٭٭
آج وہ بنفس نفیس میرے سامنے موجود تھی ۔
ماضی کے خیالات سے نکل کر میں جب حال میں پہنچا تو صبح نمودار ہوچکی تھی ۔ کمرے میں سورج کی کرنیں آرہی تھیں جو شاہینہ کے چہرہ سے اٹکھیلیاں کررہی تھیں۔میں اپنے کیبن سے باہر نکل آیا تاکہ فریش ہوسکوں۔باہر آکر میں نے ایک خاتون کانسٹیبل سے کہا ۔
’’کیبن میں جائو اور اس عورت کو اٹھاکر ہاتھ منہ دھلا دواور چائے کا بندوبست کرو،میں آرہا ہوں۔‘‘
چند منٹوں کے بعد جب میں دوبارہ اپنے کیبن میں داخل ہوا تو دیکھا وہ چائے پی رہی تھی۔میں نے سلام کیااور اپنی چیئر پر بیٹھ گیا۔وہ چائے پیتے پیتے اچانک چونک گئی اور کہا ۔
’’آپ‘‘؟
’’جی میں !!شاید آپ مجھے پہچان گئیں۔ میں سینیئر انسپکٹرہوں اور اس تھانے کا انچارج ہوں۔آپ رات یہاں آئی تھیں ۔پولس تھانے کوئی خوشی سے نہیں آتا۔ مجھے بتائیں کیا بات ہے؟‘‘
اُس نے جو کچھ مجھے بتایا وہ کافی چونکا دینے والی باتیں تھیں۔
نہ،نہ ،میں آپ سے چھپا نہیں رہا ۔آپ بھی سنئیے۔
کالج میں ہی اسے کسی شوکت نامی لڑکے سے محبت ہوگئی تھی ۔شوکت کافی دولت مند تھا۔گریجویشن کے بعد والدین کی مرضی کے خلاف دونوں نے شادی کرلی۔شوکت کی والدہ اور ایک بیوہ بہن تھی۔ٹیکم گڑھ میں ہی ان کی دومنزلہ کوٹھی تھی ۔ذاتی کاروبار تھا۔چند برسوں تک سب کچھ خوشی خوشی چلتا رہا۔شوکت اپنے کاروبارپر دھیان نہیں دیتے تھے۔اس لاپرواہی سے بزنس ڈائون ہوتا چلا گیا اور پھر دھیرے دھیرے جائداد بیچ کر عیش وآرام چل رہا تھا۔ شوکت کا معمول تھا کہ دن بھر سوئے رہتے اور شام ہوتے گھرسے نکلتےاور دیر رات گئے لوٹتے مگر اب کچھ دنوں سے پوری پوری رات وہ گھر سے باہر رہنے لگے تھے۔شوکت کی اس حرکت سے شاہینہ پریشان رہتی مگر شوکت کی والدہ اور بہن دونوں کو کوئی فکر نہ تھی۔ 
ایک دن شاہینہ تک یہ بات پہنچی کہ شوکت کا افیئر شہر کی ایک دولتمند بیوہ خاتون سے چل رہا ہے اور شوکت اسی کے یہاں جما رہتا ہےاور شاید جلد ہی دونوں شادی کرنے والے ہیں۔ یہ پتہ چلتے ہی شاہینہ کے قدموں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔اُ س نے شوکت سے ناراضگی کا اظہار کیامگر شوکت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ شروعات میں شوکت ناراضگی دکھاتا مگر اب وہ ہاتھ اور پیروں کا استعمال کرنے لگا تھا ۔جب شاہینہ مخالفت کرتی ،شوکت اس کی خوب پٹائی کرتا اور گھر سے چلا جاتا۔ شوکت کے جانے کے بعد اس کی ماں اور بہن بھی شاہینہ کو پیٹتے ۔اکثر شوکت کی ماں کہتی کہ یہ مرجاتی تو شوکت کی دوسری شادی اس دولتمند عورت سے ہوجاتی ۔
شوکت نے شاہینہ سے بولنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔شوکت کی والدہ اور بہن شاہینہ کو کئی کئی پہر بھوکا رکھتے ،اکثر کمرے میں بند کردیتے۔ 
کل رات بھی یہی ہوا تھا۔
شوکت کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ باتوں باتوں میں شوکت کی والدہ اور بہن شاہینہ کو گالی گلوج دینے لگیں،دونوں نے مل کر اسے خوب پیٹااور کہا کہ اب روزروز کا جھنجھٹ ہی ختم کردیتے ہیں ۔یہ کہتے ہوئے شاہینہ کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا ۔ساس اور نند کی باتوں سے یہ کلیئر ہوچکا تھا کہ وہ اسے مارنا چاہتے ہیں ۔ شاہینہ نے کوشش کی اور کسی طرح اس کمرے سے باہر نکل آئی ۔تاریکی کی چادر پھیلی ہوئی تھی،سرد رات اورتیز بارش نے باقی کسر پوری کردی تھی۔شاہینہ کسی طرح گرتے پڑتے پولس تھانے پہنچی۔کانسٹبل رام لال نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے میرے کیبن میں بٹھا دیاتاکہ جب میں آئوں تو اس کی کمپلینٹ سن سکوں۔چنانچہ وہ میرے کیبن میں بیٹھ گئی اور کسی پل اس بے کس کو نیند آگئی۔نیند تو موت کے پہلو میں بھی آجاتی ہے۔اس کے آگے آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔
شاہینہ کی باتیں سن کر مجھے سخت افسوس ہوا اور تعجب بھی کہ کیا محبت کرنے والے اپنی محبت کے ساتھ ایسا سلوک بھی کرتے ہیںجیسا سلوک شوکت اور اس کے گھر والے کررہے تھے۔ وہ شاہینہ جس کے گالوں کی سرخی سے صبح گلزار ہوا کرتی تھی ،آج اس کے گال پر طمانچوں کے نشان تھے، جس کے لبوں کی سرخی ہوائوں کو مہکاتی تھی وہاں خون جمے ہوئے تھے۔وہ خوبصورت شاہینہ جسے دیکھنے کے لئے میں رات بھر جگتا ،کالج میں جس کے آگے پیچھے اپنی نظریں بچھائے گھما کرتا تھا ،آج اس کا یہ حال تھا کہ ہر دیکھنے والا افسوس کررہا تھا۔ 
ابھی ہماری باتیں ہوہی رہی تھیں کہ کانسٹبل نے آکر خبر دی کہ باہر کوئی شوکت صاحب آئے ہوئے ہیں جو مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔شاہینہ نے فوراًکہا ۔
’’وہی ہوں گے‘‘۔میں نے اسے اندر بھیجنے کے لئے کہا۔
چند ثانئے میں شوکت اپنی ماں اور بہن کے ساتھ اندر آیا۔ میں نے اسے پہچاننے کی کوشش کی مگر نہ پہچان سکا ۔ ہوسکتا ہےوہ کالج میں کسی اور ڈویژن میں رہا ہو۔میں نے سختی سے شوکت سے دریافت کیا ۔
’’کیا تم اور تمھارے گھر والے اسے مارنا چاہتے ہیں۔میں تم سب کو حوالات میں سڑا دوں گا۔اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی تم دوسری عورت کے چکر میں پڑے ہو‘‘۔
شوکت نے ہزار قسمیں کھائیں ،ہاتھ پیر جوڑے،شاہینہ کے سامنے گڑگڑایا اور معافی مانگی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔مجھے اپنی پہونچ کا رعب بھی دکھانے کی کوشش کیا مگر میں تو بس میں ہی تھا ۔شوکت کے گڑگڑانے کا اثر شاہینہ پر ہوچکا تھا۔ مشرقی خواتین کا یہی حال ہے ۔انھیں گھروں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر ڈولی میں جارہی ہوں اب جنازے کی صورت میں ہی گھر سے باہر آنا۔ کتنی ہی ماڈرن لڑکی ہو، مرد کے سامنے مجبور و بےکس ہی نظر آتی ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ بڑے شہروں میں طلاق کی وبا پھیل چکی ہے ۔کب شادی ہوتی ہے ،کب طلاق اور کب دوسری شادی ،کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
شوکت ہر طریقے سے قسمیں کھاکھا کرشاہینہ کو منانے کی کوشش کررہا تھا اور مجھ سے بھی گزارش کررہا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا میں کوئی سخت ایکشن نہ لوں۔شاہینہ کی ساس اور نند بھی اسے منارہی تھیں۔میں نے شاہینہ سے کہا ۔
’’تم FIRدرج کرادو،میں تمھارے شوہر ،ساس اور نند تینوں کو اندر کردوں گا ،تم بے فکر رہو،جو کرنا ہے سوچ سمجھ لو‘‘َ۔
کچھ منٹوں بعد شاہینہ نے مجھ سے کہا ۔
’’پلیز !!ہمیں جانے دیجئے ۔وہ لوگ معافی مانگ رہے ہیں اور اب وہ یا گھر والے ایسا کچھ نہیں کریں گے۔
کچھ توقف کے بعد میں نے سختی سے انھیں ہدایت دیتے ہوئے رخصت کیاکہ  وقفے وقفے سے پولس شاہینہ کا حال چال دریافت کرتی رہے گی ۔اگر آئندہ کوئی غلط حرکت ہوئی یا اسے مارنے کی کوشش کی گئی تو کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
٭٭٭٭
اس واقعے کو دومہینے کے قریب ہوچکے تھے۔گاہے گاہے سے میں اپنے ذرائع سے معلوم کرتا رہا تھا کہ پھر تو کچھ نہیں ہوا۔ شوکت کے بارے میں معلوم ہوگیا تھا کہ وہ دوسری عورت کے چکر میں بری طرح گرفتارہے ۔خود کی جائیداد لٹانے کےبعد لالچ اور شہوت میں وہ جکڑاہوا تھا۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ جہاں تک شاہینہ کی بات تھی تو وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اجنبیت محسوس کررہی تھی ساس ،ننداور شوہر کوئی بات نہیں کرتے تھے سوائے گالی گلوج کے۔بہرحال مجھے اس کی سلامتی سے غرض تھا۔
اچانک ایک دن مجھے ریاستی ہیڈآفس میں طلب کیا گیا ۔بادل نخواستہ مجھے جاناپڑا۔ دراصل پاس ہی ایک شہر میں ہندوئوں نے مسلمانوں کی ایک پوری بستی جلا دی تھی جس کی وجہ سے اطراف کا ماحول خوفناک ہوچکا تھا اور کچھ فرقہ پرست اس ریاست کو بھی گجرات بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ مجھے ایک سینیئر افسر کے ساتھ اسی علاقے میں بھیج دیا گیا ۔ٹیکم گڑھ کا ٹمپرری چارج میری غیر موجودگی میں ایک دوسرے افسررماکانت سہدیو کو دیا گیا۔
حالات سدھرتے سدھرتے تین مہینے لگ گئے ۔مگر اب ٹیکم گڑھ اور پاس کے علاقے میں حالات خراب ہوچلے تھے۔ یہ خبر آتے ہی مجھے دوبارہ ٹیکم گڑھ کا چارج دے دیا گیا اور میں وہاں پہنچا۔
پورے راستے مجھے شاہینہ کا خیال آتا رہا کہ نہ جانے وہ کیسے ہو؟ کیا حال ہوگا۔پولس تھانے میں رام لال اور دیگر لوگوں نے مجھے دوبارہ وہاں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ۔رام لال نےکچھ دیر بعد جو خبر مجھے سنائی ،اسے سن کر میرے قدموں تلے زمین نکل گئی، آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔ 
رام لال نے بتایا کہ شاہینہ کو شوکت ،اس کی ماں اور بہن نے جلا کر مارڈالا ہے۔اور پولس انچارج رماکانت سہدیو کو خوب رشوت دی گئی ،جس کی وجہ سے اس مرڈر کیس کو خودکشی کیس میں تبدیل کردیا گیا اور کیس فائل Close کردی گئی۔ میں غصے میں پاگل ہوچکا تھا ،مجھے سبھی پر غصہ تھا ، میں کچھ کرنا چاہتا تھا مگر قانون نے ہاتھ باندھ رکھے تھے ۔ملزموں میں خود پولس محکمہ کا ایک سینیئر افسر شامل تھا۔ 
کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھولتا ،میں بھی نہیں بھول سکاتھا میری پہلی محبت شاہینہ جسے اس کے شوہر ،ساس نے ہی جلا کر مارڈالا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے خود پر قابو رکھنا پڑا ۔دراصل مجھے میرے محکمے نے شہر میں ہورہے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے بھیجا تھا اور مجھے اپنے فرائض انجام دینے تھے ،مجھے اپنا غم بھلا کر لوگوں کی حفاظت کرنی پڑی، ان کے غم باٹنا پڑے۔ شہر میں جگہ جگہ فسادات ہورہے تھے،لوٹ مار،چاقوزنی ہورہی تھی گھروں کو جلایا جارہا تھا۔ رات بھر میں فورس لئے جگہ جگہ چھاپا مارتا اور دنگا فساد کرنے والوں کو گرفتار کرتا ۔ایسے ہی ایک صبح رات بھر گشت کرتے رہنے کے بعد میں آفس پہنچا ،تو خبر ملی، کہ کل رات شوکت کی حویلی بھی دنگائیوں نے جلا ڈالی ۔اس واقعہ میں شوکت ،اس کی ماں اور بہن تینوں مارے گئے۔ اس خبر کو رام لال نے بہت خوش ہوکر مجھے سنایا تھا۔ مجھے بھی اچھا لگا تھا ۔میرے پولس تھانے میں سبھی کو یہ خبر اچھی لگی تھی۔ ایسے لوگ مارے گئے تھے جو ایک مظلوم عورت پر ظلم کررہےتھےاور جس کی جان لی تھی۔
بہرحال دھیرے دھیرے شہر کے حالات معمول پر آئے۔چند ماہ میں ٹیکم گڑھ ہی میں رہا ۔پھر میری گزارش پر میرے سینیئر افسر نے مجھے دوسرے شہر میں ٹراسفر کردیا۔ 
وقت گزرتا رہا ،عہدہ بڑھتا رہااور بہ حیثیت انسپکٹر جنرل آف پولس میں ریٹائر ہوا ۔ میں نے اپنی پوری زندگی اپنے فرائض کو بخوبی نبھانے کی کوشش کی اور کبھی کوئی لاپرواہی نہیں کی ۔بس ایک بار ۔۔۔۔۔۔بس ایک بار۔۔۔۔۔ایک کام ایسا کیا جس نے ۔۔۔۔جس نے۔!!
٭٭٭٭
جن دنوں میں دوبارہ ٹیکم گڑھ پہنچا تھا فسادات جاری تھے ،شوکت اور اس کے گھر والوں نے شاہینہ کو جلا کر مارڈالا تھااور خودکشی کا رنگ دے دیا گیا تھا۔مجھے ٹیکم گڑھ آئے پانچواں چھٹا روز تھا ۔ 
آدھی رات کے قریب گزر چکی تھی۔ایک جگہ فسادیوں نے گھروں میں آگ لگا دی تھی وہاں پہنچ کر ہم نے بھیڑ کو منتشر کیا ،کئی فسادی گرفتار ہوئے۔ایکسٹرا فورس تعینات کرمیں ایک لیڈی کانسٹبل کے ساتھ لوٹ رہا تھا ۔راستے میں شوکت کی حویلی پڑی تو چند لمحے میں رکا اور نہ جانے کس خیال کے تحت لیڈی کانسٹبل کو رکنے کے لئے کہا اور خود حویلی کے دروازے پر چلا گیا۔دروازے پر دستک دی۔ یہ یقین دلانے پرکہ میں پولس والا ہوں ،دروازہ کھلا۔
دروازہ شوکت نے خود ہی کھولا تھا ۔دستک کی آواز سے شوکت کی والدہ بھی چونک گئی تھیں اور باہر نکل آئیں تھیں۔میں جیسے ہی اندر داخل ہوا ،شوکت چونکا۔ 
’’انسپکٹر عمران!آپ اس وقت‘‘۔
’’جی ہاں !میں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شاہینہ کا انتقال کیسے ہوا؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔اس نے خودکشی کر لی تھی‘‘۔شوکت کے کچھ کہنے سے قبل اس کی والدہ نے جواب دیا۔
میں نے ریوالور نکالتے ہوئے ایک بارپھر کہا۔
’’مجھے سچ سچ بتائوکہ شاہینہ کی موت کیسے ہوئی؟میرے پاس وقت نہیں ہے۔جلدی بتائو ورنہ میں شوٹ کردوں گا‘‘۔ریوالور دیکھ کر اچھے اچھے مجرم کی روح فنا ہوجاتی ہے ،ویسے بھی یہ لوگ ایسے کمینے اور ذلیل انسان تھے جو صرف عورت پر ظلم کرنا جانتے ہیں ۔شرافت کالبادہ اوڑھے ہوئے کمزور اور بزدل انسان۔لالچ اور غصہ جرم کروادیتا ہے اور جب اپنی باری آتی ہے تو روح فنا ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی ذلیل قسم کے شریف لوگ تھے یہ۔میں نے ایک ہوائی فائر کرتے ہوئے دوبارہ سوال کیا۔ہوائی فائر کا اثر یہ ہوا کہ شوکت کے منہ میں زبان آگئی اور وہ اقبال جرم کرنے لگا۔ فائر کی آواز سن کر حویلی کے کسی کمرے سے شوکت کی بہن باہر نکل آئی تھی اور باہر جیپ میں انتظار کررہی لیڈی کانسٹبل بھی اندر آگئی تھی۔
شوکت نے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا ایسے میں وہ ایک دولتمند بیوہ عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا تاکہ عیش وآرام کے دن پلٹ آئیں مگر اس شادی میں شاہینہ رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔دولتمند عورت کا کہنا تھا کہ جب تک شاہینہ ہے وہ شادی نہیں کرے گی۔ اس لئے ایک دن موقعہ پاکر شوکت نے شاہینہ کی خوب پٹائی کی اور پھر حویلی کے اسٹور روم میں لے جاکر شوکت ،اس کی بہن اور والدہ نے مل کر اسے جلا ڈالا۔اس مرڈر کو خودکشی کا رنگ دینے کے لئے سینیئر انچارج رماکانت سہدیو کو دولاکھ روپئے بطور رشوت دی گئی تھی۔ رماکانت سہدیو نے خودکشی کی رپورٹ لگا کر فائل Close کردی تھی۔اقبال جرم سن کر میرا غصہ سے برا حال تھا ۔میرے سامنے وہ مجرمین تھے جنھوں نےنہ صرف میری پہلی محبت مار ڈالا تھا بلکہ انسانیت اور محبت کے بھی مجرم تھے ۔ شاہینہ نےشوکت سے محبت کی تھی اور اس کے ساتھ گھر بسایا تھا مگر شوکت نے اپنی عیاشی کا روڑا سمجھ کر اسے مارڈالا تھا۔لیڈی کانسٹبل نے میرے حکم پر دونوں عورتوں کورسی سے باندھ دیا۔ میں نے اپنی سروس ریوالورشوکت پر تان لی۔ لیڈی کانسٹبل نے مجھے ایک سائلنسر پروف ریوالور دیتے ہوئے کہا ۔
’’سر یہ لیجئے۔ ابھی کچھ دیر پہلے برآمد کی گئی ہے‘‘۔لیڈی کانسٹبل کا اشارہ سمجھتے ہوئے میں نے اپنی سروس ریوالور اندر رکھی اور سائلنسر پروف ہاتھوں میں لے لیا۔
’’شوکت!تم نے ایک مظلوم عورت کا مرڈر کیا اور دولت کے زور پر بچ گئے مگر میں تمھیں معاف نہیں کروں گا۔اس کی سزا تمھیںضرور ملے گی۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے میں نے دوگولیاں شوکت کے سینے میں اتار دیں۔ شوکت وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ دونوں عورتوں کو رسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ اسٹور روم سے کیروسین نکال لایا ۔میں لیڈی کانسٹبل کے ساتھ باہر آیا۔ ہم دونوں نے مل کر حویلی کے اطراف کیروسین چھڑکا اور آگ لگا دی۔ کچھ دیر وہیں رکے رہے اور پھر روانہ ہوگئے۔شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کرتے ہوئے صبح سویرے پولس تھانے پہنچے تو رام لال نے خوشی خوشی بتایا تھا کہ رات فسادیوں نے شوکت کی حویلی میں آگ لگادی تھی جس میں تینوں فرد جل کر راکھ ہوگئے۔ یہ خبر سن کر لیڈی کانسٹبل نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا تھا اور پھر اندر چلی گئی تھی۔
٭٭٭٭
یوں تو میں اپنے محکمہ کا ایک ذمہ دار سپاہی تھا اور ہمیشہ قانون کی پاسداری کی تھی بس یہ ایک واقعہ ایسا تھا جس میں مجرمین کو سزا دینے کے لئے مجھے خود قانون بننا پڑا تھا اور جو کچھ میں نے کیا تھا صرف اپنی پہلی محبت شاہینہ کے لئے کیا تھا ،صرف اُس کے لئے۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭


Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب