MORNAMA BY INTIZAR HUSAIN
۲۰۱۶ کو اردو کے ممتاز فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کا لاہور میں انتقال ہوگیا۔یہ خبر برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اردو داں حلقے پر بجلی کی طرح گری۔انتظار حسین ہمارے عہد کے سب سے بڑے قصہ گو تھے۔ان کے اب تک افسانوں کے آٹھ مجموعے،چار ناول،دو سفرنامے،کالموں کے تین مجموعے اور انگریزی میں متعدد کتابوں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ان کی سوانح’’چراغوں کا دھواں‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے اردو کے ادبی حلقے میں خوب سراہا گیا۔
ان کی موت قرۃالعین حیدر کے بعد اردوادب کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔وہ ۷؍دسمبر ۱۹۲۳ کو ضلع بلند شہر کے قصبہ ڈبائی میں پید ا ہوئے۔میرٹھ میں تعلیم حاصل کی اور تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔
انتظار حسین کا شمار ترقی پسند دور کے آخری ایام میں ابھرنے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ابتدا میں انھوں نے ترقی پسند افسانہ نگاروں کے زیر اثر سماجی، سیاسی اور معاشرتی نوعیت کے افسانے ضرور لکھے لیکن بہت جلد انہیں احساس ہوگیا کہ اکہرے بیانیہ کے پامال اسلوب میں وہ اپنے عہد کا آشوب بیان نہیں کرسکتے۔علاوہ ازیں جدیدیت میں تجریدیت اور ابہام کے نام پر جو کھڑاگ پھیلایا گیا تھا وہ ان کی طبیعت کو گوارا نہیں تھا۔لہذٰا انھوں نے ترقی پسند ی کی مانوس راہوں اور جدیدیت کے گنجلک راستوں سے ہٹ کر اپنی ڈگر خود بنائی اور داستانوں، حکایتوں ،جاتک کتھائوں ،دیو مالا اور اساطیری کہانیوں کے خزانے کو کھنگالا اور ایک ایسا اسلوب تراشا جو انہیں سے شروع ہوا اور انہیں پر ختم ہوگیا۔
اگرچہ ان کا اسلوب بظاہر سادہ اور حکایتی طرزنگاری سے مملو نظر آتا ہے تاہم انھوں نے اسی اسلوب میں اساطیری اور دیومالائی حکایتوں کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں زندگی کی صداقتوں پر اس طرح منطبق کیا ہے کہ اردو افسانے کا قاری پہلی بار ایک نئی جہت اور ایک نئے طرز احساس سے آشنا ہوا۔
بعض نقادوں نے ان کے افسانوں میں ناسٹلجیا کے عناصر تلاش کئے ہیں جو کسی حد تک درست ہیں مگر ان کا ناسٹلجیا کسی مریضانہ فکر و احساس کا زائدہ نہیں بلکہ یقین کو مستحکم کرنے اور ایک پوری تہذیب کو نئے سرے سے دریافت کرنے کا نام ہے۔ایک جگہ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے:
’’جو لوگ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تھے وہ مجھے بےطرح یاد آرہے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنھیں میں اپنی بستی میں بھٹکتا چھوڑ آیا تھا مگر پھر وہ لوگ بھی یاد آئے تھے جو منوں مٹی میں دبے پڑے تھے۔میں اپنی یادوں کے عمل سے ان سب کو اپنے نئے شہر میں بلا لینا چاہتا تھا کہ وہ پھر اکٹھے ہوں اور میں ان کے واسطے سے اپنے آپ کو محسوس کرسکوں۔افسانہ لکھنا میرے لئے اپنی ذات سے ہجرت کا عمل ہے‘‘۔
انتظار حسین کا محبوب موضوع’’ہجرت‘‘ماضی کی صالح اقدار کی بازیافت ہے۔وہ اساطیر اور تاریخ کے سمندر منتھن سے ایسے موتی تلاش کرکے لاتے ہیں جوانسانی تہذیب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔وہ حکایات اور اقوال کے حوالے سے زمانہ ٔ حال کی مادہ پرستی،بدکرداری،عیاری،مکاری اور انسان کی مفاد پرستی کا پردہ چاک کرتے ہیں۔جسے ماضی پرستی کہا جاتا ہے اسے وہ اپنا تجربہ کہتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے ایک طویل انٹرویو میں صاف کہا ہے کہ :
’’جو بھی میرا تجربہ ہے۔میں ابھی اس تجربے کو Exhaustنهیں كرسكا۔جب تك اس پورے تجربے كو میں بیان نه كرپائوں ،میں دوسرے تجربے كی طرف كیسے جاسكتا هوں‘‘۔
یه حقیقت هے كه انتظار حسین جب بھی ماضی میں غوطہ زن ہوتے ہیں عبرت اور بصیرت کے گوہر نایاب تلاش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
یہاں ان کے ایک مشہور افسانہ ’’مورنامہ‘‘کا مختصر سا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے جس میں پچھلی صدی کے اواخر میں ہندوستان اور بعد میں پاکستان میں یکے بعد دیگر ے جو ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے ان کی تباہ کاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔کہانی کی جڑوں کو مہابھارت کی زمین میں دریافت کرکے افسانہ نگارنے کہانی کو مزید دلچسپ اور فکر انگیز بنادیا ہے۔افسانے کا محرک ایک چھوٹی سی خبر بنتی ہے کہ جب ایٹمی دھماکہ ہوا تو راجستھان کے مور سراسیمگی کے عالم میں جھنکارتے،شور مچاتے اپنے گوشوں سے نکلے اور حواس باختہ فضا میں تتربتر ہوگئے۔خاطر نشان رہے کہ ہندوستان میں ایٹمی تجربہ ،راجستھان کے صحرا ہی میں کیا گیا تھا۔ اسلامی روایت کے مطابق مورجنت کا جانور ہے اور ہندودیومالا کے مطابق وہ دیوتائوں کی سواری ہے ۔وہ نہ صرف فطرت کے حُسن کے بقا کی علامت ہے بلکہ مسرت و انبساط اور پاکیزگی کا بھی استعارہ ہے۔
ایٹمی دھماکے سے موروں کے غائب ہوجانے کے بعد راوی موروں کی تلاش میں نکلتا ہے ۔اسے بستی کے باہر ایک نچا کھسٹا مور دکھائی دیتا ہے۔راوی مور کی اس حالت کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔اسی آن اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔کوئی دوسرا اس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔اس نے اپنے بائیں نگاہ ڈالی اور اس کی آنکھیںپھٹی کے پھٹی رہ گئیں۔اس کے پیچھے پیچھے مہابھارت کی جنگ کا سب سے ملعون اور منحوس کردار اشوتھاما چل رہا تھا۔اشوتھاما،دروناچاریہ کا بیٹا تھا اور مہابھارت کی جنگ میں کوروں کے ساتھ تھا۔دروناچاریہ کو دیوتائوں سے برھماستر کا وردان ملا تھا۔برھماستر ایسا ہتھیار تھا جس کے استعمال سے دنیا کے تمام جیو جنتو، فنا ہوسکتے تھے۔دروناچاریہ نے برھماستر کا راز صرف اپنے چہیتے شاگرد ارجن کو بتایاتھا ۔جنگ میں استاد اور شاگرد ایکدوسرے کے مقابل آکر کھڑے ہوجاتے ہیںمگر دونوں برھماستر کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔مرتے وقت دروناچاریہ برھماستر کا راز اپنے بیٹے اشوتھاما کو بتادیتے ہیں۔جنگ کے بالکل آخر میں جب پانڈوئوں کی جیت قریب تھی ،اشوتھاما برھماستر چلا دیتا ہے جس کی مار سے پانڈوئوں کی استریوں کے حمل تک گرجاتے ہیں۔تب سری کرشنا ناراض ہوکر اسے شراپ دیتے ہیں۔
’’درونا کے پاپی پتر!تونے بال ہتیا کاپاپ کیا ہے اس لئے میں تجھے شراپ دیتا ہوں۔ توہزاروں برس تک اس طرح جیئے گا کہ تیرے زخموں سے سدا خون اور پیپ رساکرے گی اور بستی والے تجھ سے گِھنا کھائیں گے‘‘۔
روایت ہے کہ اشوتھاما آج بھی زندہ ہے اور اپنے سڑے گلے بدن کے ساتھ بنوں میں بھٹک رہا ہے۔انتظار حسین نے اس روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دراصل ’’ایٹم بم‘‘موجودہ عہد کا برھماستر ہے،اسے استعمال کرنے والا اشوتھاما کی طرح انسانی نسل کا قاتل ٹھہرے گا۔اشوتھاما کو قابل نفریں گردانتے ہوئے افسانہ نگار نے ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کرنے والوں سے بھی نفرت کا اظہار کیا ہے اور آگاہ کیا ہے اس برھماستر کے استعمال سے گریز کرو ورنہ انسانی نسل کی تباہی وبربادی تمھارے سر ہوگی۔
ایسی صورت میں معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ افسانہ صرف اردو ادب ہی کا نہیں عالمی ادب کا ایک شاہکار بن جاتا ہے۔ساتھ ہی دنیا کی ان بڑی طاقتوں کو ملامت کرتا ہے جو اپنی جنگجویانہ ذہنیت کے سبب دنیا کے امن و اماں کو خطرے میں ڈالتے رہتے ہیں۔
یہاں اشوتھاما مہابھارت کا صرف ایک کردار ہی نہیں بلکہ اس آمرانہ ذہنیت کا استعارہ بن جاتا ہے جو اپنی بالا دستی کی خاطر جنگ وجدال ہی کو مسئلہ کا آخری حل سمجھتے ہیں۔
افسانہ نگار نے ایک جگہ بڑے پتے کی بات کہی ہے۔
’’جنگ کے آخری لمحوں سے ڈرناچاہیئے۔جنگ کے سب سے نازک اور خوفناک لمحے وہی ہوتے ہیں۔جیتنے والے کو جنگ کو نبٹانے کی جلدی ہوتی ہے۔ہارنے والا جی جان سے بیزار ہوتا ہے تو وہ خوفناک ہتھیار جو بس ڈرانے دھمکانے کے لئے ہوتے ہیں آخری لمحوں میں استعمال ہوتے ہیں۔پھر بےشک شہر جل کر ہیروشیما بن جائے،دل کی حسرت تو نکل جاتی ہے‘‘۔
’’مورنامہ‘‘دراصل ایٹمی دھماکوں کے زہریلے اثرات اور ایٹمی جنگ کے ہولناک نتائج کے خلاف ایک حساس افسانہ
نگار کا درد بھرا احتجاج ہے اور ہندوستان و پاکستان دونوں ملکوں کے اہل اقتدار کے لئے ایک عبرت انگیز اشارہ بھی ہے۔
مورنامہ(افسانہ)
انتظار حسین
اللہ جانے یہ بدروح کہاں سے میرے پیچھے لگ گئی،سخت حیران اور پریشان ہوں۔ میں تو اصل میں موروں کی مزاج پرسی کے لئے نکلا تھا ۔یہ کب پتہ تھا کہ یہ بلا جان کو چمٹ جائے گی۔وہ تو اتفاق سے اس چھوٹی سی خبر پر میری نظر پڑ گئی ورنہ اس ہنگامے میں مجھے کہاں پتہ چلنا تھا کہ وہاں کیا واردات گزر گئی۔ہندوستان کے ایٹمی دھماکہ کی دھماکہ خیز خبروں کے ہجوم میں کہیں ایک کونے میں یہ خبر چھپی ہوئی تھی کہ جب یہ دھماکہ ہوا تو راجستھان کے مور سراسیمگی کے عالم میں جھنکارتے، شور مچاتے اپنے گوشوں سے نکلے اور حواس باختہ فضا میں تتر بتر ہوگئے۔
ویسے تو میں نے فوراً ہی ایک کالم لکھ کر اپنی دانست میں مور دوستی کا حق ادا کیااور فارغ ہوگیا مگرفارغ کہاں ہوا۔اس چھوٹی سی خبر نے میرے ساتھ وہی کیا جو منوج جی کے ساتھ۔ان کے ہاتھ آجانے والی چھنگلیاں جیسی مچھلی نے کیا تھا۔وہ تو اسے گھڑے میں ڈال کر نشچنت ہوگئے تھے مگر وہ تو پھیلتی چلی گئی۔منوج جی نے اسے گھڑے سے نائومیں،نائو سے کنڈ میں،کنڈ سے تلیا میں،تلیا سے ندی میں منتقل کیا مگر وہ ندی میں بھی نہیں سمائی۔پھر انھوں نے اسے اٹھا کر سمندر کا رخ کیا تو وہ چھوٹی سی خبر بھی یا وہ واقعہ جسے اخبار والوں نے ایک کالمی سرخی والی دوسطری خبر سمجھا تھا، میرے تصور میں پھیلتا چلا گیا۔آغاز ان موروں کی یاد سے ہوا جنھیں میں نے جے پور کے ایک سفر کے دوران دیکھا تھا۔سبحان اللہ! کیا ترشا ترشایا گلابی گلابی شہر تھا۔اس شہر میں ،میں نے دوپہر میں قدم رکھا تھا۔ان اوقات میں تو کسی وجود کا احساس نہیں ہواتھا لیکن جب دن ڈھلے میں نے اس دلہن ایسے سجے سجائے ریسٹ ہائوس میں اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے پھیلے ہوئے صحن میں ،فوارے کے ارد گرد چبورتے،پھر منڈیروں پر مور ہی مور۔کتنے سکون کے ساتھ اور کتنی خاموشی سے اپنی نیلی چمکیلی لمبی دموں کے ساتھ ایک شاہانہ وقار کے ساتھ چہل قدمی کررہے تھے۔ان کی اس چہل قدمی میں شاہانہ وقار کے ساتھ کتنی شانتی تھی۔اس آن وہ سارا دیار مجھے شانتی کا گہوارہ نظر آیا۔شانتی کا، حُسن کا اور محبت کا۔
اگلی شام جب میں اس شہرسے نکلنے لگا تو جس ٹیلے، جس پہاڑی پر نظر گئی وہاں موروں کا ایک جھرمٹ نظر آیا اسی طرح خاموش۔ان کی چہل قدمی میں وہی وقار ،ویسی ہی شانتی۔تھوڑی ہی دیر میں شام کا دھندلکا پھیل گیا اور پوری فضا موروں کی جھنکار سے لبریز ہوگئی۔ میں نے جانا کہ یہ مسافر نواز میری ہی خاطر یہاں آس پاس کے ٹیلوں اور درختوں پر اترے ہوئے تھے۔اب وہ اپنے مہمان کو الوداع کہہ رہے ہیں۔
اور اب جب میں نے اس سفر کو یاد کیا تومیری ساری فضائے یاد موروں سے بھر گئی اور میں حیران ہوا کہ اچھا وہاں اتنے موروں سے میری ملاقات ہوئی تھی جیسے راجستھان کے سارے مور میرے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ہوں۔مگر اب وہاں کیا نقشہ ہوگا؟میں دھیان ہی دھیان میں پھر اس دیار کی طرف نکل جاتا ہوں۔میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ناکوئی مور دکھائی پڑ رہا ہے نہ ان کی جھنکار سنائی پڑ رہی ہے۔ وہ سب کہاں چلے گئے، کس کوہ میں جاچھپے۔دور ایک ٹیلے پر نظر گئی۔ ایک نچا کھسٹا مور بیٹھا دکھائی دیا۔ میں تیزقدم اٹھاتا اس طرف چلا مگر میرے پہنچنے سے پہلے اس نے ایک ہراس آمیز آواز نکالی،اڑا،اور فوراً ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
وہ مور اڑ کر کدھر گیا؟ یہاں اکیلا بیٹھا کیا کررہا تھا؟اس کے سنگھی ساتھی، موروں کے جھرمٹ کے جھرمٹ وہ سب کہاں گئے؟وہ اس طرح ویرانی کی تصویر بنا کیوں نظر آر ہا تھا ؟اتنا اجڑا اجڑا، اتنا نچاکھسٹا کیوں نظر آرہا تھا؟ ویرانی کی اس تصویر سے میرا دھیان ویرانی کی ایسی ہی ایک اور تصویر کی طرف چلا گیا۔جسے میں بھلا بیٹھا تھا اور جو اس وقت اچانک میرے تصور میں ابھر آئی تھی۔ سمندر کے شفاف پانی میں گھلتا ہوا گاڑھا گاڑھا پٹرول، پانی کی رنگت بدلتی چلی جارہی ہے۔ پٹرول کی آلودگی سے کچھ سیاہی مائل نظر آرہا ہے اور اجاڑ ساحل،یہ ایک اکیلی مرغابی اس آلودہ پانی میں نہائی ہوئی ساکت بیٹھی حیرت سے سمندر کو تک رہی ہے۔جو پانی کل تک اس کے لئے امرت کا مرتبہ رکھتا تھا آج زہر بن گیا ہے۔اس کے پر بھاری ہو گئے ہیں کہ اب وہ اڑنے یوگ نہیں رہی۔اور زہر جیسے نس نس میں اتر گیا ہو۔عراق، امریکہ جنگ کی ساری ہولناکی اس آن میرے لئے اس مرغابی میں مجسم ہوگئی تھی۔مجھے دکھ ہوا کہ یہ مرغابی اس وقت کتنی اذیت میں ہے اور حیرانی ہوئی کہ آدمیوں نے اس ہنگام جو کچھ ایکدوسرے کے ساتھ کیا ،صدام حسین نے عراقیوں کے ساتھ،عراقیوں نے کویتیوں کے ساتھ، امریکہ نے عراقیوں کے ساتھ،اس سارے عذاب کو اس غریب مرغابی نے اپنی جان پر لے لیا ہے۔ عجیب بات ہے جب پیغمبری وقت پڑتا ہے تو بڑے بڑے جان بچا کر نکل جاتے ہیں۔کوئی ننھی سی جان اذیت کے اس بارگراں کو اکیلی سونگھوا لیتی ہے۔ اس گھڑی وہ مرغابی مجھے ایک جلیل القدر داستانی پرندہ نظر آئی، جیسے اس میں کسی پیغمبر کی روح سما گئی ہو کہ اس زور پر اس نے انسانی امت کا سارا عذاب ایک امانت جان کر اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے۔
میری کم نظر ی تھی کہ میں نے اس مرغابی کے مرتبے کو نہیں پہچانا۔ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ مرغابی تو ایک پیغمبرانہ شان رکھتی ہے، ہمارے عہد کی علامت ہے۔آدمی اس زمانے میں جو آدمی کے ساتھ کررہا ہے اور اپنے زعم آدمیت میں جو کچھ فطرت کے ساتھ کررہا ہے،یہ اس سب کی کہانی سنارہی ہے۔مجھے خیال ہی نہیں آیا کہ مجھے اس پر کہانی لکھنا چاہئے ۔کتنی آسانی سے میں نے اس مرغابی کو فراموش کردیا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بیچاری صرف مرغابی تھی اور مور جن پر میں کہانی لکھنے کے لئے بےچین ہوں صرف مور نہیں ہیں۔فرض کرو کہ اس مرغابی کی جگہ کوئی راج ہنس ہوتا،راج ہنس، مگر راج ہنس اب اس دنیا میں کہاں ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ اس برصغیر کی وشال دھرتی پر دوپرندے راج کرتے تھے۔اور یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ پرندوں کا راجا کون ہے، راج ہنس یا مور؟ اب وہ راج ہنس کہاں ہیں اور وہ موتی ایسی جھیلیں کہاں ہیں جہاں وہ اترا کرتے تھے اور وہ راجکماریاں کہاں ہیں جو اپنے محل کی فصیل پر اتر آنے والے راج ہنس پر عاشق ہوجایا کرتی تھیںاور اسے اپنے آنگن میں اتارنے کے لئے اپنی مالا کے موتی بکھیر دیا کرتی تھیں۔ وہ راج ہنس موتی چگتے تھے اور مانسرور جھیل کے شفاف پانی میں تیرا کرتے تھے۔اب مانسرور جھیل کہاں ہے؟ لگتا ہے کہ سب جھیلیں خشک ہوگئیں۔ ندیوں کا پانی میلا ہوگیا۔فضا بارود،دھویں،خاک دھول سے اٹی ہوئی ہے۔ نعروں اور دھماکوں کے شور سے آلودہ ہے۔راج ہنس پاکیزہ فضا اور شفاف پانیوں کی تلاش میں کہیں دور نکل گئے۔پیچھے بس مرغابیاں اور قاضیں رہ گئیں۔ زمانے کا عذاب وہ سہتی ہیں۔ راج ہنس قصے کہانیوں کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔
ایک مور تھا جو ابھی تک اپنے طائوسی وقار کے ساتھ ٹکا ہوا تھا اور ماضی اور حاضر کے درمیان پُل کی حیثیت رکھتا تھا۔اب بھی باغوں سے اس کی جھنکار اس طرح آتی تھی جیسی ماضی قدیم سے دیومالائی زمانوں سے تیرتی ہوئی آرہی ہے۔راجستھان میں تو مجھے مور کی کوئی آواز نہیں سنائی دی تھی۔یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں؟ میں کھنچا چلا جاتا ہوں۔راجستھان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔یہ میری بستی ہے، میرے بچپن کی دنیا۔ساون بھادوں کی بھیگی شاموں میں وہ کتنا غل مچاتے تھے۔وہ تو بستی کے باہر باغ بغیچوں میں جھنکارتے تھے۔مگر ان کی جھنکار سے ساری بستی گونجتی تھی اور وہ ایک مور جو جانے کدھر سے اڑتا اڑتا آیا اور ہماری منڈیر پر بیٹھ گیا۔کتنی دیر چپ چاپ بیٹھا رہا۔میں دبے پائوں چھت پر گیا۔پیچھے سے سرکتے سرکتے منڈیر تک گیا۔ اس کی دم پکڑنے ہی کو تھا کہ اس نے جھرجھری لی اور فضا میںتیر گیا۔
’’میرے لعل!مور کو تنگ نہیں کیا کرتے۔یہ جنت کا جانور ہے۔ ‘‘نانی اماں نے مجھے سرزنش کی۔
’’جنت کا جانور‘‘۔میں نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’پھر یاں پہ کیا کررہا ہے؟‘‘
’’ارے بیٹا!اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے‘‘
’’نانی اماں ! کیا کیا تھا مور نے جو سزا بھگت رہا ہے‘‘۔
’’ارے بیٹا معصوم تو ہے ہی شیطان کی چال میں آگیا۔‘‘
’’کیسے آگیا شیطان کی چال میں‘‘
’’وہ کمبخت بڈھا پھونس بن کر جنت کے دروازے پر پہنچا۔ بہت منتیں کیں کہ دروازہ کھولو۔ جنت کے دربان بھانپ گئے کہ یہ نحوست مارا تو شیطان ہے۔ انھوں نے دروازہ نہیں کھولا۔مور جنت کی منڈیر پر بیٹھا یہ دیکھ رہا تھا۔اسے بڈھے پر بہت ترس آیا۔اڑ کر نیچے آیا اور کہا کہ بڑے میاں، میں تمھیں جنت کی دیوار پار کرائے دیتا ہوں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شیطان فوراً ہی مورپر سوار ہوگیا۔مور اڑا اور اسے جنت میں اتار دیا۔اللہ میاں کو جب پتہ چلا تو انھیں بہت غصہ آیا۔باوا آدم اور اماں حوا کو جنت سے نکالا تو مور کو بھی نکال دیا کہ جائو لمبے بنو‘‘۔
میں کتنا حیران تھا۔بےچارہ مور جنت کی منڈیر پر بیٹھا کرتا تھا۔اب ہماری منڈیر پر آکے بیٹھ جاتا ہے۔میں نے نانی اماں سے کہا تو کہنے لگیں۔
’’ہاں بیٹے!اپنی منڈیر چھوٹ جائے تو یہی ہوتا ہے۔اب تیری میری منڈیروں پر بیٹھتا پھرتا ہے اور کہیں ٹک کے بیٹھ جائے‘‘۔
منڈیروں، درختوں کے جھنڈ میں،ٹیلے پہ، جہاں بھی پنجے ٹکانے کو جگہ مل جائے۔میں جب شراوستی کی راہ سے گزرا تھا تو میں نے اسے ایک ہرے بھرے ٹیلے پر بیٹھے دیکھا تھا۔کسی دھیان میں گم یا جیسے چپ چاپ کسی کی راہ تک رہا ہے۔میں شراوستی بہت دیر سے پہنچا تھا۔مہاتما بدھ کتنی برساتوں پہلے یہاں سے سدھار چکے تھے۔اب وہ بھی یہاں نہیں تھے،جہاں وہ برسات کے دنوں میں آکر باس کیا کرتے تھے۔بس اب تو اس بستی کی یادگار تھوڑی اینٹیں پڑی رہ گئی تھیں۔ذرا ہٹ کر ایک ہرے بھرے شاداب ٹیلے پر شاید اسی سمے کا ایک مور بیٹھا رہ گیا تھا جو گئے سمے کو ،اس سمے کی شراوستی کواپنی آنکھوں میں رمائے بیٹھا تھا اور کتنے سکون سے بیٹھا تھا۔اس ایک دم سے اجڑی ہوئی شراوستی کی ساری فضا میں جیسے شانتی رچ گئی تھی۔
میں شراوستی میں زیادہ دیر نہیں رکا۔مجھے واپس دلّی پہنچنا تھا۔ دلّی کی وہ شام بہت ادا س تھی۔کم از کم بستی نظام الدین میں تو اس کا یہی رنگ تھا۔ابھی پچھلے دنوں کتنے خانہ برباد قافلہ در قافلہ یہاں سے نکلے تھے۔اب خاموشی تھی اور برسات کی یہ شام بستی نظام الدین میں کچھ زیادہ ہی خاموش تھی۔کچے احاطے کے بیچ غالب کی قبر اجڑی اجڑی تھی۔احاطے کے گرد کتنی اونچی اونچی گھاس کھڑی تھی۔اس کے بیچ سے میں گزر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک مور نے مجھے پکارا۔میں نے مڑکر دیکھا۔وہ دکھائی تو نہیں دیا مگر اس کی پکار پھر سنائی دی۔ عجب پکار تھی،جیسے ہزار صدیاں مل کر مجھے پکار رہی ہوں۔
ہزار صدیوں کے کنارے پر پہنچ کر میں ٹھٹکا۔اس مور کی آواز تو مجھے یہیں تک لے کر آئی تھی،مگر اب صدیوں کے اس پار سے موروں کی جھنکار سنائی دے رہی تھی۔میں حیران،یامولا!یہ مور کون سے باغ سے بول رہے ہیں۔میں نے قدم بڑھایا اور ایک نئی حیرانی نے مجھے آ لیا۔یہ کون سا نگر ہے۔فصیلیں بادلوں سے باتیں کرتی ہوئی ،فصیلوں کے گرداگر پھیلے ہوئے باغ، قسم قسم کے پھل، رنگ رنگ کی چڑیاں، باغ چڑیوں کی چہکار سے گونج رہے ہیں۔ساری چہکار پر چھائی ہوئی دو آوازیں۔کوئل کی کوک اور موروں کی جھنکار ارے یہ تو پانڈوئوں کا نگر ہے۔ اندر پرستھ ،یہ تو میں بہت دور نکل آیا۔ مجھے واپس چلناچاہیے۔
بہت گھوم پھر لیا۔بہت موروں کو دیکھ بھال لیا۔کن کن دقتوں کے، کس کس نگر کے موروں کو دیکھا۔ان کی جھنکار سنی۔اب مجھے مورنامہ لکھنا چاہیے،مگر مجھے گھر واپس ہونے سے پہلے راجستھان کا پھر ایک پھیرا لگالینا چاہیے۔شاید وہ مور جو سراسیمگی کے عالم میں یہاں سے اڑ گئے تھے،واپس آگئے ہوں۔مور واقعی اچھی خاصی تعداد میں واپس آگئے تھے مگر عجب ہوا کہ مجھے دیکھ کر وہ سخت ہراساں ہوئے اور چیختے چلاتے ہوئے ٹیلوں اور درختوں کی شاخوں سے اڑے اور فضا میں تتر بتر ہوگئے۔بس اسی آن مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔کوئی دوسرا میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔میں نے اپنے بائیں نظر ڈالی۔میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ہیں یہ تو اشوتتھاما ہے۔ کروکشیتر کا مہاپاپی۔یہ یہاں کہاں اور میرے ساتھ کیوں چل رہا ہے۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ میرے ساتھ لگ لیا۔پھر مجھے خیال آیا کہ جب میں اندرپرستھ سے پلٹا ہوں تو کروکشیتر کے پاس سے گزرا تھا۔وہیں سے یہ منحوس شخص میرے ساتھ ہو لیا ہوگا۔مگرکروکشیتر میں تو اب سناٹا تھا۔نہ آدمی نہ آدم زاد۔یہ وہاں کیا کررہا تھا،کیا تب سے وہیں بھٹک رہا ہے۔جنگ آدمی کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔اشوتتھاما کو دیکھو اور عبرت کرو۔دروناچاریہ کا بیٹا۔باپ نے وہ عزت پائی کہ سارے سورما کیا کور و کیا پانڈو۔اس کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے،چرن چھوتے تھے۔بیٹے نے باپ سے ورثے میں کتنا کچھ پایا مگر یہ ورثہ اسے پچا نہیں اس جنگ کا سب سے ملعون آخر میں یہی شخص ٹھہرا۔
کہتے ہیں کہ سورمائوں کے استاد دروناچاریہ کے پاس وہ خوفناک ہتھیار بھی تھاجسے برہماستر کہتے ہیں۔دیکھنے میں گھاس کی پتی،چل جائے تو وہ تباہی لائے کہ دور دور تک جیوجنتو کا نام ونشان دکھائی نہ دے۔بستی زد میں آجائے تو دم کےدم میں راکھ کا ڈھیر بن جائے۔درونا نے اس ہتھیارکا راز بس اپنے ایک ہی چیلے سورماکو منتقل کیا تھا۔ارجن کو جو اس کا سب سے چہیتا چیلا تھا۔ جنگ بھی کیا ظالم چیز ہے۔کروکشیتر کے میدان میں استاد اور چیلا ایک دوسرے کے مقابل لڑ رہے تھے مگر دونوں نے قسم کھائی تھی کہ برہماستر استعمال نہیں کرنا ہے کیونکہ اس کے چلنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
درونا نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے اشوتتھاما کو برہماستر کا گر سمجھا دیا تھا مگر سختی سے تاکید کی تھی کہ کسی حال میں اسے استعمال کرنا نہیں ہے۔مگر جب درونا جنگ میں مارا گیا تو اشوتتھاما کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا۔جنگ کے آخری لمحوں میں وہ جان پہ کھیلا اور برہماستر چلا دیا۔جنگ کے آخری لمحوں سے ڈرنا چاہیے۔جنگ کے سب سے نازک اور خوفناک لمحے وہی ہوتے ہیں۔جیتنے والے کو جنگ کو نبٹانے کی جلدی ہوتی ہے۔ہارنے والا جی جان سے بیزار ہوتا ہے تو وہ خوفناک ہتھیار جو بس دھمکانے ڈرانے کے لئے ہوتے ہیں آخری لمحوں میں استعمال ہوتے ہیں۔پھر بےشک شہر جل کر ہیروشیما بن جائے دل کی حسرت نکل جاتی ہے۔جنگ کے آخری لمحوں میں دل کی حسرت کبھی جیتنے والا نکالتا ہے،کبھی ہارنے والا۔کروکشیتر میں آخر میں دل کی حسرت اشوتتھاما نے نکالی اور برہماستر پھینک مارا۔تب سری کرشن ارجن سے بولے’’ہے جناردھن!درونا کے مورکھ پتر نے برہماستر پھینک مارا۔مجھے جیو جنتو سب نشٹ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس استر کا توڑ تیرے پاس ہے سو جلدی توڑ کر اس سے پہلے کہ سب کچھ جل کر بھسم ہوجائے‘‘۔
تب ارجن نے اپنا برہماستر نکالا اور اشوتتھاما کے توڑ پر اسے سر کیا اور کہتے ہیں کہ جب ارجن کا بان چلا تو ایسی بڑی آگ بھڑکی کہ تینوں لوک اس کے شعلوں کی لپیٹ میںآگئے۔اس کی دھمک اس بن تک بھی پہنچی جہاں ویاس رشی بیٹھے تپ کررہے تھے۔انھوں نے تپسیا بیچ میں چھوڑ دی۔ہڑبڑا کر اٹھے اور اڑ کرکروکشیتر پہنچے۔اشوتتھاما اور ارجن کے بیچ آن کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر چلائے کہ دشطویہ تم نے کیاانیائے کیا۔ساری سرشٹی جل کر بھوبھل بن جائے گی۔جیوجنتو کا وناش ہوجائے گا۔اپنے استر واپس لو۔
ارجن نے اس مہان آتما کے چرن چھوئے۔ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوگیا اور فوراً ہی اپنا استر واپس لے لیا۔پراشوتتھاما ڈھٹائی سے بولا کہ’’ہے مہاراج!میں نے تو استر چلا دیا۔ اسے واپس لینا میرے بس میں نہیں ہے۔بس اتنا ہی کرسکتا ہوں کہ اس کی سیما بدل دوں۔سو اب یہ استر پانڈوئوں کی سینا پہ نہیں گرے گا۔پانڈوئوں کی استریوں پہ گرے گا۔جسے گربھ رہا ہے اس کا گربھ گر جائے گا ۔جس کی کوکھ میں بچہ پل رہا ہے وہ بچہ مر جائے گا۔پانڈو سنتان کا اس پرکار انت ہوجائے گا‘‘۔
اس آن سری کرشن جی کلس کر بولے۔’’ہے درونا کے پاپی پتر ، تیرا وناش ہو،تو نے بالک ہتیا کا پاپ کیا ہے۔میں تجھے شاپ دیتا ہوں کہ تو تین ہزار برس اس طور جئے گا کہ بنوں میں اکیلا مارا مارا پھرے گا۔تیرے زخموں سے سدا خون اور پیپ ایسی رسا کرے گی کہ بستی والے تجھ سے گھن کھائیں گے اور دور بھاگیں گے‘‘۔
میں بھی تو اس سے دور بھاگنے کی ہی کوشش کرر ہا تھامگر وہ تو سائے کی طرح میرے پیچھے لگا ہوا تھا۔یااللہ!میں کدھر جائوں ،کیسے اس نحوست سے اپنا پیچھا چھڑائوں ۔اچانک ایک خیال آیا کہ میرا بائی کی سمادھی یہیں کہیں ہے، وہاں جاکر چھپ جائوں۔پھر یاد آیا کہ ارے ہاں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بھی تو اسی نواح میں ہے۔اگر اس درگاہ میں پہنچ جائوں تو پھر سمجھوکہ اس کی زد سے بچ گیا۔وہاں درگاہ میں اسے کون گھسنے دے گا۔بس اس طرح کے خیال مجھے آرہے تھے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سے آنکھ بچا کر کیسے نکلوں جس راہ جاتا وہ پرچھائیں کی طرح ساتھ ساتھ چلتا۔ادھر موروں نے شور مچارکھا تھا۔کتنی ہراس بھری آوازوں میں چلا رہے تھے یعنی وہ مور جو بچے رہ گئے تھے۔ادھر پانڈوئوں کے گھروں سے عورتوں کے بین کی آوازیں آرہی تھیں۔ہرگھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔وہاں مرے ہوئے بچے پیدا ہورہے تھے اور ارجن کے گھر میں تو قیامت مچی ہوئی تھی۔سبھدرا کس درد سے بین کررہی تھی۔ اس کی کوکھ کا جنا ابھیمنیو پہلے ہی کروکشیتر میں کھیت ہوچکا تھا۔اسے رودھو کر اس نے بہو سے آس لگائی تھی کہ وہ پوت جنے گی۔اس پوت سے ارجن کے اندھیرے گھر میں اجالا ہوگا اور پانڈوئوں کی سنتان آگے چلے گی مگر ہوا وہ جو اشوتتھاما نے کہا تھا۔اُتّرا بیہوش پڑی ہے۔بچہ مرا ہوا پیدا ہواہے۔پانڈوئوں کے کسی گھر میں اب اجالا نہیں ہوگا۔برہماستر نے ان کی استریوں کی کوکھوں کو اجاڑ ڈالا ہے مگر سبھدرا نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔بھائی کا وعدہ اسے یادہے۔کرشن نے وعدہ کیا تھا کہ بہنا،تیری بہو کی کوکھ کو اجڑنے نہیں دوں گا تو انھوں نے اوتار ہونے کےناتے مردہ بچے میں جان ڈال دی ہے اور بتا دیا ہے کہ یہ بالک بڑے ہوکر ہستنا پور کے سنگھاسن پہ بیٹھے گا۔پانڈوئوں کا نام روشن کرے گا مگر اس مرے بچے نے زندہ ہوکر عجب سوال کیا۔ جب سنگھاسن پر بیٹھا اور ویاس جی آشیرواد دینے کے لئے بنوں سے نکل کر آئے اور اس کے برابر میں براجے تو اس نے گلاب کیوڑے کے پانی سےچلمچی میں ان کے پائوں دھوئے۔پھر چرن چھوئے اور ہاتھ باندھ کے کھڑا ہوگیا’’میرے پرکھ! آگیا ہوتو ایک پرشن پوچھوں‘‘۔
’’پوچھ بیٹا‘‘۔
’’ہے مہاراج،کروکرشیتر میں میرے ہی سب بڑے موجود تھے ، ادھر بھی اور ادھر بھی اور دونوں ہی طرف گنی گیانی بدھیمان موجود تھے۔پھر انہیں یہ سمجھ کیوں نہ آئی کہ یدھ مہنگا سودا ہے۔سب کچھ اجڑ جائے گا ،وناش ہوجائے گا‘‘۔
ویاس جی نے لمبا ٹھنڈا سانس بھرا،بولے’’پتر!یدھ میں اچھے اچھے مانو کی مت ماری جاتی ہے اور ہونی کو کون روک سکتا ہے؟‘‘
اور رشی جی ترنت اٹھ کھڑے ہوئے۔جن بنوں سے آئے تھے، الٹے پائوں انھیں بنوں میں چلے گے۔رشی لوگ ان بھلے وقتوں میں ہزاروں برس کے حساب سے زندہ رہتے تھے۔ارجن کا پوتا رشی نہیں تھا۔اسے سانپ نے ڈس لیا اور وہ مرگیا مگر اس نے ویاس جی سے جو سوال کیا تھا اس سوال نے ویاس جی سےزیادہ عمر پائی۔میں جب راجستھان میں بھٹک رہا تھا تو یہ سوال مجھے ملا تھا۔جہاں اشوتتھاما بھٹکتا پھر رہا تھا وہاں یہ سوال بھی آس پاس بھٹکتا دکھائی دیا۔اس نے بھی میرا بہت پیچھا کیا۔یہ سمجھ لو کہ میں دو سایوں کے بیچ چل رہا تھا۔پہلے میں اشوتتھاما کو دیکھ کرحیران ہوا تھا کہ اچھا اس مورکھ کے ابھی تین ہزار برس پورے نہیں ہوئے ہیں۔پھر جب پریکشیت والے سوال سے مڈبھیڑ ہوئی تو میں اور حیران ہوا کہ اچھا یہ سوال بھی ابھی تک چلا آرہا ہے بلکہ مجھے لگا کہ اب یہ سوال زیادہ گمبھیر ہوگیا ہے۔ مانو پوری پاک بھارت دھرتی پر منڈلارہا ہے جیسے کسی کے سر پر تلوار لٹکی ہو۔ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔یہ جواب تو نہ ہوا۔ویاس جی نے سوال کو ٹالا تھا ،جواب نہیں دیا تھا۔تب ہی تو وہ تب سے فضا میں بھٹکتا پھر رہا ہے اور جواب مانگ رہا ہے۔یک نہ شد دو شد۔میری جان کے لئے اشوتتھاما کم تھا کہ یہ سوال بھی میری جان کو لگ گیا۔
خیر میں پہلے اشوتتھاما سے تواپنی جان چھڑائوں۔کتنی مرتبہ اسے غچہ دینے کی کوشش کی۔اچانک راہ بدل کر دوسری راہ پر ہولیا۔سمجھا کہ اسے پتا نہیں چلا مگر تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ وہ تو پھر میرے آس پاس چل رہا ہے۔
میں نے سوچا کہ یہ میراکتنا پیچھا کرے گا۔مجھے تو اپنے دیار واپس چلے جانا ہے۔یہ اس دیارکی مخلوق ہے۔حد سے حد سرحد تک میرا پیچھا کرے گا۔ آگے اسے کون جانے دے گا۔پھر بھی میں نے کوشش کی کہ اس سے آنکھ بچا کر نکل جائوں۔بعد میں اسے پتا چلے کہ میں یہاں سے نکل گیا ہوں اور اس کی زد سے باہرہوں۔میں واقعی اس سے آنکھ بچا کر نکل آیا تھا ۔کیسی تڑی دی۔اس کے فرشتوں کو بھی پتا نہیں چلا کہ میں کب وہاں سے نکلا اور کب سرحد پار کی۔اپنی سرحد میں قدم رکھنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا۔خدا کا شکر ادا کیا کہ اس بدروح سے میں نے نجات پائی۔مجھے بیتال پچیسی کی کہانی یاد آئی مگر وہ تو کہانی تھی۔اس طرح تو کہانیوں ہی میں بھوت جان کو چمٹا کرتے ہیں مگر میرے ساتھ تو واقعی ایسا ہوا۔خیر بلا سے پیچھا چھوٹا،اب میں نشچنت تھا۔سوچ رہا تھا کہ میں اب جگ جگ کے موروں سے مل لیا ہوں۔کس کس نگر کے مور کی جھنکار سنی ہے۔اب میں اطمینان سے گھر بیٹھ کر مورنامہ لکھوں گا۔دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ جن جن موروں کو دیکھا تھا وہ سب ایک دم سے میرے تصور میں منڈلانے لگے۔ان کی شیریں جھنکار سے میرا سامعہ گونج گیا۔پھر مجھے لگا کہ جیسے میں مور کے سائے میں چل رہا ہوں۔جگت مور جس کی دم کھڑی ہوکر پنکھے کی شکل کی بن گئی ہے اور ساری فضا پر محیط ہوگئی ہے۔جگت مور رقص کرر ہاہے۔
میں جب اپنے گھر کے قریب پہنچا ہوں تو اچانک مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ کا احساس ہوا جیسے کوئی دبے پائوں میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا ۔یہ کمبخت تو یہاں بھی آ گیا۔اب میں کیسے اس سے چھٹکارا پائوں گا؟
تب میں رویا اور میں نے گڑ گڑا کر پالنے والے سے پوچھا کہ اے مرے پالنے والے،اے مرے رب،اس پریت کے تین ہزار سال آخر کب پورے ہوں ؟کب میں اپنا مورنامہ لکھ پائوں گا؟


Comments
Post a Comment