میں بن گیا
میر صاحب حسن
ممبئی
گریجویشن مکمل کئے مجھے چار سال ہوچکے تھے مگر آج تک میری پہچان یہی تھی کہ میں نواب صاحب کا بیٹا ہوں ،میری خود کی کوئی پہچان نہ تھی جبکہ میرے کئی دوست یار سیٹل ہوچکے تھے ۔میرا جگری یار اشرف ڈاکٹر بن چکا تھا ، سہیل کامیاب تاجر تھا ،راشد ٹھیکیداربن چکا تھا غرض اس طرح ان کی ایک اپنی پہچان بن چکی تھی۔اشرف اپنے والد کے ساتھ کہیں جاتا تو لوگ کہتے کہ یہ اشرف صاحب ہیں اور یہ ان کے والد ہیں اور جب میں کہیں جاتا تو میری پہچان یہ ہوتی کہ فلاں نواب صاحب کا بیٹا ہے۔بارہاوالد صاحب نے کہا کہ کچھ کرو ،اگر کچھ نہیں کرسکتے ہوتو اپنا ہی کاروبار دیکھو مگر اب ہم بھی تو ہم ہی تھے ابھی تک تو گریجویشن کا جشن ہی منا رہے تھے۔
مگر اس دن تو حد ہی ہوگئی ۔ابھی ابھی عید ختم ہوئی تھی کہ بڑے ماموں اور ان کافرزند اکبر تشریف لائے ،ان سے مل کر ہمیں خوشی ہوئی مگر ماموں جان نے والد صاحب کے سامنے ہی ہمیں آسمان سے زمین پر اٹھا پھینکا۔
’’میرے لڑکے کو دیکھو ،انجینئر ہے ،تم کیا ہے ؟بس باپ کی دولت ہے،نوابی ٹھاٹ ہیں،یہ سب کب تک رہے گا ،میاں کچھ کرو‘‘ماموں نے کہا۔اسی طرح وہ اور بھی بہت کچھ کہتے رہے۔ خیر وہ تو چلے گئے مگر والد صاحب نے آسمان سر پر اٹھا لیا،خوب برا بھلا کہا،جو اب تک نہیں کہا تھا وہ سب کہہ ڈالا۔
ہم بہت بے بسی محسوس کررہے تھے ،کیا کرتے نوابی خون ہے بھئی جوش تو مارے گاہی۔دن بھر جھنڈے والان کے ایک کونے میں بیٹھے غوروفکر کرتے رہے۔جیسے جیسے شام قریب آ رہی تھی،پیٹ جکڑا جارہا تھا،آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں،کبھی ٹنڈے کبابی،تو کبھی گلچے نہاری نظروں میں گھوم رہے تھے۔آخر کار جھنڈے والان سے باہر نکلے ۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کہ اچانک پیچھے سے کسی نے آواز دی۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرا ایک جگری دوست شاہد کھڑا تھا۔
’’ارے چھوٹے نواب ،کہاں ہو بھئی؟‘‘شاہد نے سوال کیا۔
’’ارے جناب ،یہیں تھا ،بس سوچنے لگا کہ شام کیسے گزاروں‘‘میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
لیجئے میاں ،اس میں سوچنا کیا ؟چلئے ہم لئے چلتے ہیں آپ کو ،حضرت گنج میں ایک مشاعرہ ہے ،بس وہی شام گزارتے ہیں،لطف آجائے گا‘‘۔شاہد نے زور دیتے ہوئے کہا۔
ہم نے سوچا چلو،یہی بہتر ہے۔امین آباد میں ٹنڈے کبابی کے یہاں پہلے سیر ہوکر کبابوں کا لطف اٹھایااور پھر چل دیے مشاعرہ سننے۔
مشاعرہ شمشاد ہال میں ہونا تھا ،ہال بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، خوبصورتی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔منتظمین نے ہمیں دیکھا تو فورا ًہمارے پاس آئے اور ہمیں لے جاکر پہلی صف میں بٹھادیا جہاں خاص مہمانان تشریف فرما تھے۔
مشاعرے میں نامی گرامی شعراء شرکت کررہے تھے اور صدارت ڈاکٹر اچھن کررہے تھے۔کچھ دیر میں دو ضعیف شخص بھی مشاعرے میں آئے تو ان کے لئے اگلی صف میں جگہ بنائی گئی کیونکہ وہ شعراء کے والد تھے۔اس سے پہلے میں نے کسی مشاعرے میں شرکت نہیں کی تھی ،یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں شاہد کی وجہ سے اور کچھ ذہنی تکلیفوں کے سبب آگیا تھا۔
مشاعرہ شروع ہوا،ایک کے بعد ایک شاعر آکر اپنا کلام سناتے رہے اور حاضرین خوب داد دیتے رہے۔شاعروں کی عزت واکرام دیکھ کر میں نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ مشاعرے کے آخر میں ڈاکٹر اچھن نے اپنا کلام سنایااور حقیقی معنوں میں مشاعرے کو لوٹ لیا۔ مشاعرہ تو ختم ہوا مگر ختم ہوتے ہوتے مجھے دن بھر کی ذہنی تھکان سے نجات دلاگیا اور ایک نیا راستہ دکھا گیا ۔میرے والد چاہتے تھے کہ میں کچھ بنوں ، چنانچہ میں نے طے کرلیا کہ مجھے شاعر بننا ہے تاکہ میری بھی شہرت ہو اور میرے والد بھی کہہ سکیں کہ ان کا بیٹا مشہور شاعر ہے ۔
جب میں گھر پہنچا تو آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی،حویلی میں سناٹا تھا۔ میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور بستر پر دراز ہوگیا ۔مگر نیند کس کمبخت کو آنی تھی مجھے تو یہی آوازیں سنائی دے رہی تھی کہ حضرات اب آپ کے سامنے مشہور شاعر تشریف لارہے ہیں ،تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں استقبال ہورہا تھا،تو کبھی آوازآتی کہ مشہور شاعر کے والد صاحب تشریف لارہے ہیں۔آوازیںآتی رہیں اور مجھے خوش کرتی رہیں۔
علی الصبح میں اپنے دوست شمشاد کے گھر پہنچ گیا ،اس کے والد میاںبشّن سے بھی میری اچھی جمتی تھی اورمیں نے کئی بار ان سے سناتھا کہ وہ بھی شاعری کرتے ہیں۔میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا کہ مجھے شاعر بننا ہے۔پہلے تو ہنستے رہے مگر میری سنجیدگی دیکھ کر وہ بھی سنجیدہ ہوگئے ۔
’’میاں شاعر کیوں بننا چاہتے ہو؟‘‘انھوں نے سوال کیا۔
’’دراصل میرے سارے دوست کچھ نہ کچھ بن ہی گئے ،میں اب تک کچھ نہیں کرسکا ۔ابا حضور کا کہنا ہے کہ کچھ بن کر دکھائو،بس اسی غرض سے میں نے سوچاکہ شاعر بن جائوں تاکہ میرا نام ہو اور ساتھ ابا حضور کا بھی نام ہو؟میں نے عرض کیا۔
’’ہوں۔۔۔۔یہ بات ہے،کبھی شاعری کی ہے‘‘؟سوال کیا۔
’’نہیں کی،مگر اب شاعر بننا چاہتا ہوںاور اپنا ایک مجموعہ شائع کرنا چاہتا ہوں تاکہ صاحب کتاب ہوجائوں‘‘میرا جواب تھا۔
وہ محترم سوچ میں پڑ گئے ۔کچھ دیر بعد انھوں نے غوروفکر کرتے ہوئے کہا:
’’تم میرے بیٹے کے دوست ہو،ساتھ ہی مجھے بھی عزیز ہو،کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا،چلو اب تمھیں شاعر بنا ہی دیا جائے‘‘۔
’’کیا میں شاعر بن جائوں گا‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہاں بھئی،جلد ہی تم ایک مشہور شاعر اور صاحب کلام کہلائوگے۔میاں تم نواب ہو،روپئے پیسے کی کمی نہیں ،بس شہرت ہی تو چاہئے ،اسے خرید لیا جائے‘‘۔انھوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’جی ،جی آپ جیسا کہیں ہم کریں گے،روپئے پیسے کی کوئی فکر نہیں‘‘۔میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
’’سب سے پہلے تم اپنا ایک تخلص رکھ لو‘‘انھوں نے حکم دیا۔
بہت دیر تک ہم دونوں ایک کے بعد ایک کئی ناموں پر غور کرتے رہے کہ کون سا نام بطور تخلص اچھا رہے گا۔کئی نام محترم بزرگ نے بتائے ،جو مجھے اچھے نہیں لگے۔کچھ میں نے بتائے جسے انھوں نے ناپسند کردیا۔اس دوران کئی بار ہم نے کافی کی چسکی لی،پکوڑے بھی کھائے۔آخر کار بروزن غالب ،ہم نے ’’قالب ‘‘طے کیا۔یہ ہمیں بہت پسند آیا کیونکہ ہم تو چاہتے ہی تھے کہ لوگوں کے دلوں میں رہیں ،پھر چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔
بشّن میاں نے کہا’’تمھارا تخلص تو طے پاگیا اب میں اپنی چند غزلیں تمہیں دیتا ہوں،جومیری لکھی ہوئی ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ میں نے کبھی کہیں کسی کو سنائی نہیں ۔ بس اس میں جہاں جہاں میرا تخلص ہے وہاں وہاں ’’قالب ‘‘رکھ دو۔میری دی ہوئی غزلوں کو اچھی طرح سے رٹ لو تاکہ کسی شعری نشست میں اسے سنا سکو‘‘۔
’’شعری نشست میں سنانے سے کیا فائدہ ہوگا؟میں چاہتا ہوں جلد سے جلد کتاب چھاپ کر اس کا اجراء ہو تاکہ مشہور ہوجائوں‘‘۔میں نے جلدی جلدی کہا۔
بشّن میاں نے پان کی ایک گلوری منہ میں رکھتے ہوئے کہا ’’تھوڑا صبر کرو، پہلے نشستوں میں شرکت کرکے کچھ پہچان بنائو۔سنیچر کی شب ایک نشست ڈاکٹر اچھن کے یہاں ہوتی ہے ،اس میں چلتے ہیں ،وہیں سے تم اپنی شاعری کی شروعات کرو‘‘۔
سب طے پاجانے کے بعد انھوں نے اپنی لکھی تین چار غزلیں دیں ،جنھیں لے کر میں اپنے گھر روانہ ہوا۔اب ان غزلوں کو یاد کرنا میرا کام تھاتاکہ میں انھیں شعراء کے سامنے سنا سکوں تاکہ میرا شمار بھی شعراء میں ہوجائے۔
غزلیں یاد کرنا بھی کوئی آسان کام تھا؟غزلیں یاد کرنے کے لئے بڑے دشوار مراحل سے گزرنا پڑا۔اب تک تو بس ہمیں وہ محلے یاد تھے جہاں حسینائیں رہا کرتی تھیں جنھیں دیکھ کر کوہ کاف کی پریوں کا احساس ہوتا اور ہم طلسم ہوشربا کی گلیوں میں دلربائوں کے ساتھ ہاتھوں میں ساغرومینا لئے سیر کیا کرتے تھے۔ہمیں ان پکوانوں کے نام بھی یاد تھے جن کے نام سنتے ہی یوں محسوس ہوتا جیسے ہم کئی جنموں سے بھوکے پیاسے ہیں اور پکوان سامنے آنے پر ہم یوں ٹوٹ پڑتے جیسے ہماری زندگی کا مقصد ہی کھانااور وہ بھی چین سے کھانا ہے کیونکہ راوی نے ہماری قسمت میں بس عیش وآرام لکھا تھا۔مگر اب مرتا کیا نہ کرتا شاعر بننے کا جنون سوار ہوگیا تھا ،غزلیں یاد کرنی تھی تاکہ برصغیر کے تمام شعراء فخر کریں کہ ’’قالب‘‘ان کے زمانے کا شاعر ہے۔
خود کو کمرے میں بند کرلیا ۔بشّن صاحب کی غزلوں کو اپنا بنا کر یاد کرتے رہے،کبھی صوفے پر تو کبھی فرش پر لیٹ کر پڑھتے رہے ۔کبھی چہل قدمی کرتے ہوئے تو کبھی دوڑتے ہوئے ،کئی بار تو ٹھوکر بھی کھائی ۔آج محسوس ہورہا تھا کہ کچھ بننا کتنا مشکل کام ہے ۔وہ تو بھلا ہو ہماری کالج کے صدر شعبۂ اردوکا جنھوں نے گریجویٹ بنادیا ورنہ وہ بھی نہ بن پاتے ۔خیر ہماری انا نے ہمیں جھکنے پر مجبور کردیا،وہ جو کبھی حویلی میں ٹکتا نہیں تھا۔تین دنوں تک کمرے میں بند رہا۔کمرہ بند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کسی کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ ہم خود شاعر نہیں ہیں بلکہ دوسرے کی غزل کو یاد کررہے ہیں۔یہی سمجھوتہ ہمارے اور بشّن میاں کے بیچ ہواتھا وہ ہمیں شاعر بنارہے تھے اور بدلے میں ہمیں ان کے شوق کو پورا کرنا تھا۔ہم کمرے میں بند غزلیں رٹ رہے تھے ،ہمارے گھر والے سوچ رہے تھے کہ نہ جانے یہ بے غیرت کیا کررہا ہے،جبکہ بشّن میاں کہیں کسی حور کے یہاں رقص و سرور سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
اللہ ،اللہ کرتے تین دنوں میں تین غزلیں یاد کیں۔استاد محترم بشّن میاں کے مطابق یہ کافی تھا۔سنیچر کی شب ہم دونوں شعری نشست میں پہنچے ۔نشست کے ناظم اکرام صاحب کلام سنانے والوں کے نام نوٹ کررہے تھے۔انھوں نے بشّن میاں کے اصرار پر ہمارا نام درج کرلیا۔ڈاکٹر اچھن کے کہنے پر نشست شروع ہوئی۔تین شعراء نے اپنا کلام سنایا اس کے بعد ناظم نے اعلان کیا کہ اب نئے ابھرتے شاعر ’’قالب‘‘ میاںاپنا کلام سنانے آ رہے ہیں ۔لوگوں نے جب نیا نام سناتو چہ مینگوئیاں شروع ہوگئی سب حضرات مڑ مڑ کر دیکھنے لگے کہ یہ کون صاحب ہیں؟آج سے پہلے اس نشست میں شریک افراد ’’قالب‘‘کو تو نہیں جانتے تھے مگر بیشتر افراد یہ ضرور جانتے تھے کہ ہم کس کے فرزند ہیں اور ہمارے ابا حضور کے کئی لوگوں پر احسانات بھی تھے۔ایسے میں ہم اپنی جگہ سے اٹھے اور مکمل اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنا کلام سنانا شروع کیا۔وہ افراد جو ابا حضورکے احسانوں تلے دبے ہوئے تھے انھوں نے ہمیں بھی خوش کرنا شروع کیا اور ہمارے ہر شعر پر جی کھول کر داد دینے لگے۔اس طرح ہم نے ایک ہی مصرع کئی کئی بار پڑھا۔ہماری تعریف میں ڈاکٹر اچھن نے بھی دوجملے کہہ دئے۔مشاعرہ ختم ہوا ۔ لوگوںنے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا ،اب اس میں کچھ کمال استاد محترم بشّن میاں کی غزلوں کا تھا اور کچھ کرم ہمارے والد بزرگوار کی عنایتوں کا ،جس کی وجہ سے لوگوں نے ہمیں سر پر اٹھا لیا۔ایک شاعر جن کی قیمص شاید قمیص کہلانے کے لائق بھی نہ بچی تھی ،انھوں نے پرجوش انداز میں کہا :
’’ارے جناب والا!ماشاء اللہ سے آپ تو خود شاعر ہیں کیوں نہ اپنی کوٹھی پر بھی نشست کریے تاکہ ہم جیسے غربا ء کوٹھی کے اندرونی ماحول سے بھی آشنا ہوسکیں‘‘۔ ایک صاحب اپنی زلفیں سنوارتے ہوئے ہمارے قریب آئے اور سوالات کرنے لگے۔کئی سوالات کئے ،ہم نے جوابات بھی اچھے دئے۔ایک سوال انھوں نے یہ بھی کر دیا کہ کس کی جانب ہو،کس گروہ سے انسیت رکھتے ہو؟ یہ سوال ہم سنجھ ہی نہ سکیں ،بس مسکرا دیئے۔
جب کچھ تنہائی میسر آئی تو اپنے استاد محترم سے دریافت کیا کہ فلاں کس گروہ کی بات کرر ہے تھے؟ اس سوال نے بشن میاں کو ایک جوش عطا کردیا۔وہ کہنے لگے:
دراصل اردو ادب دو حصوں میں بٹا ہوا ہے اور یہ دونوں گروہ والے اردو کا بھلا نہ کرکے اپنے پیروں کا بھلا کررہے ہیں اور لڑ رہے ہیں ،اردو کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔انگریزوں کی پالیسی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ پر اردو کے ’’ان داتا‘‘ بنے لوگ عمل کررہے ہیں ۔اسی لئے میں نے شاعری کو اپنی حد تک محدود کر رکھا ہے کہیں نہیں جاتا ، کیونکہ لوگ اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں ‘‘۔
’’دو گروہ کون سے ہیں اور ان سے فائدہ کسے اور کیا ہے‘‘؟ میں نے پوچھا
’’جنھیں بڑے بڑے اعزازات چاہئے وہ فلاں گروہ کے تابعدار ہیں اور جنھیں سرکاری اعزازات چاہئے وہ فلاں کو اپنا پیر پیغمبر مان کر ان کی امت بنا ہوا ہے۔ اب میاں تم بتائو کس گروہ کے ساتھ ہونا چاہتے ہو؟‘‘۔ استاد نے تفصیل بتائی اور ساتھ ہی سوال کردیا۔
’’محترم بزرگ !میں سمجھ گیا یہ سارا کھیل کیا ہے ، ہمیں کسی گروہ کے تابعدار بننے کی کوئی ضرورت نہیں ،ہم نواب ہیں اپنا گروہ ہم خود بنائیں گے،بس پہلے تو ہمیں شاعر بننا ہے‘‘۔میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
لوگوں کے اصرار پر ہم نے وعدہ کرلیاتھا کہ جلد ہی ہم انھیں اپنے غریب خانے پر بلائیں گے۔نشست کے بعد بشّن میاں اور ہم جب وہاں سے روانہ ہوئے تو بشّن میاں نے کہا کہ ماحول بن گیا ہے اب جلد ہی ایک شعری نشست کوٹھی پر ہوجائے جس میں سبھی شعراء کے لئے بہترین کھانوں کا انتظام ہو ساتھ ہی کوئی تحفہ بھی دیا جائے تاکہ وہ تمہاری جانب ہوجائیں۔چنانچہ آناًفاناًہم نے طے کرلیا اور اگلے ہفتہ ہی اس کا اعلان کردیا۔
شعری نشست کی خبر جب ہمارے محترم والد صاحب تک پہنچی تو انھوں نے تعجب سے پوچھا ـ:
’’تم شاعر کب بن گئے‘‘؟
’’شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی کرتے ہیں مگر کبھی اس جانب سنجیدگی سے غور نہیں کیاتھا۔جب آپ نے ہمیں طعنوں سے نوازا کہ کچھ کر دکھائو،کچھ بن کر دکھائو تب کہیں ہم نے سوچا کہ ہم کیا ہیں ،اب اسے سامنے لائیں‘‘۔ہم نے انھیں جواب دیا
’’ٹھیک ہے ،ہم بھی اس نشست میں دیکھیں گے کہ آپ کتنے کامیاب شاعر ہیں ،بس یہ خیال رہے کہ ہم نواب ہیں اور جوبھی کرتے ہیں سب سے الگ کرتے ہیں ۔ والد صاحب نے تاکید کی۔
بشّن میاں کی چند معیاری غزلیں لے کر انھیں رٹنا شروع کردیا جیسے وہ ہماری ہی غزلیں ہیں اور اب تو ہمیں خود اعتمادی بھی آگئی تھی ،ایک نشست میں اپنے جلوے دکھاچکے تھے۔کام کوئی بھی مشکل ہی ہوتا ہے ،چنانچہ شاعر بننا اور غزلیں یاد کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا ، خیر شاعر بننا تو طے کر ہی چکے تھے ،طلسم ہوشربا کی سیر کرتے رہے، الو بنتے بناتے رہے،ٹھوکریں کئی بار اپنے پائجامے کی وجہ سے کھائی۔
اللہ ،اللہ کرتے خصوصی نشست کا دن آہی گیا ۔ ہمارے استاد بشّن میاں صبح سویرے ہماری حویلی میں چلے آئے اور انھوں نے ہی ہمیں خواب سے جھنجھوڑ کر اٹھایا ، ہمیں لگا جیسے کوہ کاف سے سیدھے وزیرستان پہنچ گئے ہیں ۔خیر! بشّن میاں نے بتایا کہ لوگوں کو ہم نے ایک بار پھر دعوت دے دی ہے اور ساتھ ہی سبھی کی خدمت میں پیشگی ہزار ہزار روپئے بھی پہنچا دئے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں اور خوب داد دیں ۔ ہم نے ہچکچاتے ہوئے ان سے دریافت کیا :
’’شاعروں کے ساتھ کیا کوئی شاعرہ بھی تشریف لارہی ہیں؟
’’بہت خوب میاں !نوابی خون جوش میں ہے، ہمیں خود اس کا خیال تھا اس لئے دو شاعرات کو بھی بلایا ہے تاکہ لطف میں اضافہ ہوسکے‘‘۔انھوں نے جواب دیا۔
وقت مقررہ سے پہلے ہی کئی شاعر تشریف لاچکے تھے ،کچھ تاخیر سے ڈاکٹر اچھن بھی پہنچ گئے اور انھیں کی صدارت میں نشست کا آغاز ہوا۔اس نشست میں ہماری کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے بڑے نواب صاحب اور دوسرے عزیز بھی موجود تھے۔ مشاعرہ کے آغاز ہوا۔ پہلے چند شاعروں نے اپنے کلام سنائے ،لوگوں نے داد بھی خوب دی۔ کرتے کرتے ہمارا نمبر آہی گیا۔ہم شرکاء کے سامنے جب آئے تو ہماری نظر سب سے پہلے ابا حضور پر پڑی اور یوں لگا جیسے ہمارے پیروں نے جواب دے دیا ہو ، ساری ہڈیاں گوشت کے لتھڑے میں تبدیل ہوگئی ہوں، گرنے ہی والے تھے کہ اچانک بشن میاں کی آواز آئی۔
’’واہ میاں قالب،واہ میاںقالب‘‘۔
ان چند جملوں نے ہمارے اندر نئی روح پھونکی اور ہم نے اپنی غزل شروع کی ؎
تم ضد تو کررہے ہو،ہم کیا تمھیں سنائیں
نغمے جو کھو گئے ہیں ، ان کو کہاں سے لائیں
ہماری نوابی اور ہزار ہزار روپیوں کی نقدی کے خوب رنگ دکھایا ،لوگوں نے ہماری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کردیئے۔بار بار مقرر ارشاد کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔جب لوگ اصرار کرتے تو ایک نظر ہم ابا حضور کے چہرے پر ڈال ہی لیتے ،ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہونے لگا کہ ابا حضور کے چہرے سے خوشی جھلکنے لگی تھی۔گاہے گاہے ڈاکٹر اچھن کی طرف بھی نظر جاتی مگر وہ خاموش ہی دکھائی دئیے ۔ ہم نے اپنی چار غزلیں سنائیں ۔تین غزلوں تک ڈاکٹر اچھن کا چہرہ صاف اور روکھاہی تھا مگر چوتھی غزل پر انھوں نے داد دینا شروع کی۔ہمارے بعد ایک ضعیف شاعر کا نمبر آیا ضعیف وہ عمر کے حساب سے تھے ورنہ ان کے شعر تو ہم نوجوانوں کو بھی شرمندہ کررہے تھے یوں محسوس ہوتا جیسے سگمنڈ فرائیڈ ان کا چیلا رہا ہے۔آخری نمبر صدر نشست ڈاکٹر اچھن کا تھا۔وہ جب مائک پر آئے تو ہمارا دل اچھلنے لگا کہ نہ جانے وہ ہمارے بارے میں کیا کہیں گے؟اچانک ہمار ی سماعتوں کو ان کی رعب دار آواز سنائی دی انھوں نے ہمارے بارے میں کہنا شروع کیا۔
’’چھوٹے نواب قالب کی غزلیں سنیں ،مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ قالب کی غزلیں غالب کا مزہ دیتی ہیں۔وہ قادرالکلام شاعر ہیں ،انھوں نے اپنے آپ کو منوا ہی لیا ہے،اب دیکھنا ہے کہ ان کا مجموعہ کلام کب شائع ہوتا ہے ،ہمارے لئے لکھنئووالوں کے لئے خوشی کی بات ہے کہ قالب جیسے لوگ ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ اب میں اپنی غزل پیش خدمت کررہا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر اچھن اپنی غزل سناتے رہے مگر ہمارے کانوں میں قالب اور غالب ہی گونجتے رہے۔نشست ختم ہوئی لوگوں نے ہمارے ابا حضور کو بھی خوب خوب مبارک باد دی اور انھیں اس بات کا احساس دلایا کہ وہ ہمارے جیسے عظیم شاعر کے والد ہیں۔ بشن میاں کو ایک کونے میں لے جاکر ہم نے سوال کیا کہ’’ باقی شعراء نے تعریفیں کیں وہ تو سمجھ میں آیا مگر ڈاکٹر اچھن جیسے نامور اور عظیم شاعر ہمیں غالب کے برابر کا رتبہ دیں ،یہ نہیں سمجھ سکے‘‘؟
بشن میاںنے پھسپھساتے ہوئے کہا کہ’’ ان کا ایک شعری مجموعہ تیار ہے اس کی چھپائی کا وعدہ کرلیا ہے ۔تھوڑے سے پیسے صرف ہوں گے مگر کام بڑا ہوگیا ہے ، تم شعراء کی لسٹ میں اور وہ بھی معیار ی شعراء میں شامل ہوچکے ہو،اب جلد ہی تمھارا مجموعہ بھی چھپوادیتے ہیں۔ڈاکٹر اچھن اور دوسرے نامور ادبی حضرات سے تقریظ لکھوائی جائے گی‘‘۔
بشن میاں کی باتیں ہمیں خواب و خیال لگ رہی تھی اور ہمیں خوشی تھی کہ دولت کی طاقت نے ہمیں اپنے خاندان میں رسوا ہونے سے بچالیا اور اب ہم بھی نامور شعراء کی فہرست میں شامل ہونے والے ہیں۔کھانے کے درمیان ایک صاحب جو کسی اسکول میں مدرس ہیں انھوں نے حاضرین کے سامنے ہی کہا کہ میرا مجموعہ مکمل ہے مگر اسے شائع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ابھی ان کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ فورا ہم نے کہا ۔
’’آپ پریشان نہ ہوں ،ہم اسے شائع کردیں گے،یہ تو ادبی خدمات ہے ، بھلا ہم پیچھے کیوں رہیں‘‘؟ اس ایک وعدے نے کئی شعراء کے حوصلے بڑھا دئیے انھوں نے بھی اپنے دفتر کھول دئیے ۔ہم نے سبھی سے وعدہ کرلیا کہ ہمارے بس میں جو بھی ہوگا ہم اسے مکمل کریں گے۔اب یہ الگ بات ہے کہ جو پہلے نواب ہوا کرتے تھے اب وہ نیتا ہوگئے ہیں اور کون جیتا ہے وعدہ وفا ہونے تک یا کرنے تک؟
نشست کے بعد جب سارے حاضرین رخصت ہوگئے تو ہمیں ابا حضور نے گلے لگا لیا اور کہا کہ بیٹا آج تم نے ہمارا نام روشن کردیا ،ہمیں خوشی ہے کہ ہم شاعر کے والد ہیں۔
چند دنوں بعد ہماری غزلیں ،تصویر کے ساتھ ماہانہ رسالوں میں شائع ہونے لگیں اور لوگوں کی تعریفیں اور تنقیدیں بھی سامنے آنے لگیں ۔جس میں تعریفیں ہوتی،انھیں اعزازی ممبر شپ اور جسمیں تنقیدیں ہوتیں انھیں لائف ممبر شپ بھیجنا شروع کردیا نتیجتاًصرف تعریفیں ہی سامنے آنے لگیں۔اسطرح کئی مہینے گزر چکے تھے ،اب تو مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگے تھے ،ہم جہاں جاتے وہاں ہمارے ساتھ ہمارے استاد بشّن میاں ضرور ہوتے ، ہم اسٹیج پر ہوتے تو وہ منتظم اور سامعین میں رہ کر ہماری پشت پناہی کرتے اور ہمیں کامیاب کرتے۔
کئی مہینے گزر جانے کے بعد ہم نے بشّن میاں سے کہا کہ اب مجموعہ آنا چاہیئے ۔چنانچہ ان کی لکھی دو سوغزلوں میں سے انھوں نے سو غزلوں کا انتخاب کیا ۔اسے فورا ہم نے کاتب کو دیدیا کہ جتنی جلدی ہو ،اسے مکمل کردے۔کاتب نے جب غزلیں مکمل کردیں تو اسے تقریظ کے لئے ڈاکٹر اچھن اور دو دیگر نامور شعراء کی خدمت میں پانچ ہزار نقد کے ساتھ روانہ کیں۔ ابھی مہینہ ختم بھی نہ ہواتھا کہ شاندار تقریظیں مل گئیں۔اسی طرح ہفتہ بھر میں مجموعہ سامنے آگیا۔اب جشن رونمائی کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔
رسم اجراء کے لئے خصوصی طور پر ہندوستان کے مشہور شاعر ،ادیب و نقاد ڈاکٹر بدفشاں کو بلوایا۔مہمان خصوصی کے طور پر اترپردیش کے وزیراعلیٰ کانام شامل کیا گیا ۔ مہمانان خصوصی میں کئی نامور شعراء ،ادیب اور وزراء کے نام لکھے گئے۔بڑے ماموں کو خصوصی طور پر ہم نے دعوت دی کیونکہ ان ہی کے طعنوں نے ہمیں اس مقام پر پہنچایا تھا۔دعوت نامے چھپے اور تقسیم ہوئے،اخبارات میں اشتہارات شائع ہوئے کئی اخباروں والوں نے خود ہی کر اشتہارات لئے اور پورا پورا صفحہ ہمارے نام مخصوص کیا۔
رسم اجراء کے دن حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا ،ہمارے لئے ابا حضور نے خاص طور پر شاہی لباس دہلی سے بنواکر منگوایا تھا۔وقت سے پہلے ہی لکھنئو کے بڑے بڑے اخبارات والے،ٹیلیویژن چینل والے حاضر ہوچکے تھے۔ بڑے بڑے شاعر و ادیب رہے تھے اور ہمارے ساتھ ساتھ ابا حضور کی خدمت میں بھی مبارکباد پیش کرتے۔ ہمیں محسوس ہورہا تھا کہ والد صاحب کا سینہ کچھ زیادہ چوڑا ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر بدفشاں کے ہاتھوں رسم رونمائی ہوئی ،لوگوں نے ہماری تعریف میں خوب دل کھول کر لفاظیاں کیں۔ہمیں بھی مختصر تقریر کرنی پڑی۔اس ساری تقریب میں ہماراشاہی لباس ہماری الجھن بنا رہا تھا،کئی بار تقریر کے دوران بھی پائجامہ درست کرنا پڑا۔ رسم اجراء کے بعد ٹی وی چینل والوں نے ہمارا انٹرویو لیا ،لوگوں نے ساتھ تصویریں کھینچوائیں،خوب سراہا ۔لوگوں کی ضیافت کے لئے ہم نے بھی کوتاہی نہیں کی تھی۔لوگ گلے ملتے رہے،مبارکبادیاں دیتے رہے۔دھیرے دھیرے حاضرین رخصت ہوئے۔آخر میں ابا حضور نے بھی ہمیں خوب بھینچ کر گلے لگایا۔ہم دل میں دل میں خوش ہورہے تھے کہ آخر آج ہم بن ہی گئے ،ہم بن گئے شاعر۔ ابھی خیالوں میں ہی کھوئے ہوئے تھے کہ لنگوٹیا دوست شاہد نے ہمیں پیچھے سے اوپر اٹھالیا ،ہم اسے منع کرنے لگے اور چلانے لگے کہ ’’گرے،گرے،گرے‘‘۔
تبھی اماں کی زوردار آواز آئی۔
’’کمبخت مارا،رات کود یر میں سوتا ہے اور صبح پلنگ سے نیچے گرا رہتا ہے، آج کل کے لڑکے نکمے ہوچکے ہیں ‘‘۔
ہم نے آنکھیں مل کر دیکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ لکھنئو کے مضافاتی علاقے میں اپنے چھوٹے سے ڈربے نما گھر میں پلنگ سے گر پڑے ہیں،نہ کوئی بھیڑ ہے نہ ابا حضور ،نہ ٹیلویژن والے ،بس ہم ہیں اور اماں کی چیخ و پکار۔
٭٭٭٭٭

Comments
Post a Comment