امریکی نژاد ہندی فلم اداکار
ٹام بیچ آلٹر
سے ایک ملاقات
حنیف قمر
موبائیل:9594919597
حنیف قمر: نئے سال کی آمد، آمدہے اور ہم سب کی جانب سے آپ کونیا سال مبارک ہو ۔نئے سال کی شروعات پر میں چاہونگا کہ آپ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف شخصیت کا انٹرویو شائع کیا جائے ، جس کے لئے چند ایک سوالات لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوںاور میرے ساتھ ماہنامہ’’تریاق‘‘کے ایڈیٹر میر صاحب حسن ساتھ ہیں۔(ہم دونوں باری باری ہاتھ ملاتے ہیں)۔
ٹام آلٹر : جی۔۔۔جناب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں، دیگر معزز ،مشہور و معروف ہستیوں کے مقابل میں کچھ بھی نہیں ہوں یہ آپ کی قدر دانی ہے کہ آپ نے اس خاکسار کو نہ صرف قومی بلکہ بین الا قوامی فنکاروں کے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ جسکے لئے میںتہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں، اسے میں رسالہ کے قارئین کے علاوہ ، فلمی ناظرین اور پرستارا ن کا ا عزاز سمجھتا ہوں۔
میں تو بس یونہی ایک عام اداکار ہوں جسے اپنے کام سے بے انتہا رغبت ہے، یہ سب آپکا خلوص ہے اور کچھ نہیں۔ میں آپ کے جذبئہ خلوص کو سلام کرتا ہوں اور آپ کی نیک خواہشا ت اور مبارکباد کو قبول کرتا ہوں، آپ کے ادارتی عملے کے ساتھ رسالے کے بیشمار قارئین کا شکر گزار ہوں اور میری جانب سے بھی آپ سب کو نیا سال مبارک ہو اور یہ سال، ہر لمحہ خوشیوں سے لبریز، صحت و سلامتی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھے ۔
حنیف قمر : میں اس خوشگوار ماحول کو بنائے رکھتے ہوئے، قارئین کی معلومات میں مزید اضافہ کے لئے جاننا چاہتا ہوںکہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ آپ امریکہ سے بھارت آئے اور اسی کو مستقل مسکن بنالیا، اپنی سوانحی حالات پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
ٹام آلٹر : نومبر ۱۹۱۶ میرے اجداد یعنی دادا ، دادی، بھارت آئے تھے اور ابھی پچھلے نومبر اسی سال ۲۰۱۶ میں ہمیں آئے ہوئے پورے سو سال ہوگئے، جس کا ہم نے جشن صد سالہ بھی منایا۔ انہیں یاد کیا ان کی روح کی تسکین کے لئے عبادتوں کا اہتمام بھی کیا تھا۔ میرے دادا دادی کے خطوط جو میرے لئے خزینہ ء بیش قیمت اور سرمایہ حیات ہیں، جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں، انکی تحریروںکی مختلف آوازوں میں صدا بندی(ریکارڈنگ) کر لی گئی ہے ، ابھی بھی بہت کچھ باقی ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح محفوظ کروانے کی تراکیب سوچ رہا ہوں۔
ہاں تو میں اپنی سوانحی داستان کے کس موڑ پر تھا؟( اس درمیان گھر کا فون بج اٹھا، اور کچھ وقفہ کیلئے وہ اٹھ کر چلے گئے تھے۔۔۔۔)
حنیف قمر : جب۱۹۱۶ میں آپ کے اجداد بھارت آئے تو انھوں نے کس صوبے یا شہر میں رہنے کو ترجیح دی ؟ اور آپکی پیدائش کہاں ہوئی ؟
ٹام آلٹر : جی۔۔۔انھوںنے صوبہ پنجاب کو اپنا مسکن بنالیا تھا( جو اب پاکستان کا صوبہ ہے) کچھ افراد خاندان راولپنڈی ، پشاور ، سیالکوٹ اور بھی دیگر علاقوں میں بس گئے تھے، میرے والد محترم ۱۹۱۹ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آج بھی جب کبھی میں پاکستان جاتا ہوں تو وہاں کے دوست مجھے اس ناطہ سے یہ جتانا چاہتے ہیں کہ میں تو اصل میں پاکستانی ہوں۔۔۔۔ تو میں انہیں دو ٹکا سا جواب دیتا ہوں ، نہیں۔۔۔۔، اس وقت پاکستان کا وجود ہی نہیں تھا تو میں پاکستانی کیسے ہوا؟
۱۹۴۷ کے بٹوار ے میں، دادا ، دادی وہیں پاکستان میں رہ گئے ، تب میرے والد اور میرے سب سے چھوٹے چچا جان الہ آباد (بھارت)میں رہ گئے ۔ میری پیدائش ۲۲ جون ۱۹۵۰ کو مسوری اتر اکھنڈ(شمالی بھارت) میں ہوئی ، اسکے بعد ۱۹۵۴ میں میرے والدین الہ آباد سے سہارنپور ہجرت کرگئے۔مسوری اور دیرہ دون کے درمیان کوئی چھوٹا سا مقام ہے، شاید راجکوٹ وہاں پر انہوں نے ایک آشرم کی بنیاد ڈالی۔ ’’ مسیحی دھیان کیندرا‘‘۔
پہلے وہاں پر منادر، آشرم اور مساجد بیشمار تھیں لیکن بٹوارے کے وقت شر پسندوں نے ان عبادتگاہوں کو مسمار کردیاہے، اس دوران وہاں شر پسندوں نے اس مقدس ماحول کو بہت حد تک بگاڑ دیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ حالات سدھرتے گئے لوگ آتے گئے بستے گئے اسی طرح میری پرورش کبھی اس گاوں میں کبھی مسوری کے درمیان ہوتی رہی او ر میری تعلیم بھی ووڈاسٹاک مشنری اسکول میں پوری ہوئی ،جس کے پرنسپل کبھی میرے دادا ہوا کرتے تھے اور ان کے بعد میرے چچا جان پرنسپل مقرر ہوئے ۔ اسی طرح ہماری پچھلی پانچ نسلیں اسی اسکول میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے ہیں اور اپنی خدمات بھی دیتے چلے آرہے ہیں۔ ۱۹۶۸ میں میٹریکولیشن کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ بھیجا گیا۔ امریکہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام کاج بھی کرتا رہا ۔ پھر اس شب و روزسے بھی جب اکتاہٹ محسوس کرنے لگا تو گریجویشن کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر میں بھارت واپس چلا آیا۔بھارت کی سر زمین پر کچھ نام کمانے کے جنون نے امریکہ میں رہ کر گریجویشن کرنے کی مہلت ہی نہیں دی اور۱۹۷۲ میں فلم ٹریننگ انسٹیٹیوٹ آف انڈیا پونہ جوائن کرلیا۔
حنیف قمر : آپ کا فیملی بیک گرائونڈ عیسائی دھرم کی تبلیغ سے جڑا رہا ہے اور آپ کی تعلیم و تربیت بھی ووڈ اسٹاک جیسے میعاری مشنری اسکول میں مکمل ہوئی ہے ، تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچانک فلم انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے کا یہ فیصلہ ۔۔۔؟ کیا آپ کے خاندان والوں کا متفقہ فیصلہ تھا؟ اگر۔۔، نہیں توآپ کے اس ذاتی فیصلے پر خاندان والوں کا کیا رد عمل رہا؟کچھ بتانا پسند کریںگے آپ ۔۔۔۔؟؟؟
ٹام آلٹر : جی نہیں۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔ میرے والدین نے کبھی کوئی شدید اعتراض تو نہیں جتایا بلکہ مجھے میرے گھر والوں سے پوری پوری حوصلہ افزائی ملی۔ قانونی،معاشی مدد بھی ملی ہے۔میرا پورا پورا دھیان رکھا جاتا تھا۔ ہاں۔۔ البتہ ہماری کمیونٹی کے چند ایک احباب اور دوستوں نے میرا مذاق اڑایا ، میرے حوصلے پست کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھ پر فقرے کستے تھے۔’’ فلموں میں ایکٹنگ کرنے چلے ہو کبھی صورت دیکھی ہے شیشے میں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرے گھر والوں کی طرف سے مجھے کبھی کوئی دشواری در پیش نہیں آئی۔
ہاں۔۔!! دشواری اس وقت در پیش آ سکتی تھی گر مجھے انسٹیٹیوٹ میں داخلہ نہ ملتا تو۔۔۔؟
کیونکہ آج کی طرح اس وقت بھی فلموں میں ایکٹنگ سیکھنے کے خواہش مندوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ اس وقت ہم شاید دہلی میں قیام پذیر تھے اور جہاں تک مجھے یاد ہے صرف دہلی سے زاید از ایک ہزار افراد نے فارم بھرا تھا اور داخلہ ملا تھا صرف دو افراد کو جن میں ایک میں تھا اور دوسرا بنجامن گیلانی ۔اس طرح میں اسوقت خوش قسمت ثابت ہوا اور ۱۹۷۲سے۱۹۷۴ تک سیکھتا رہا۔دوران ٹریننگ ڈاکیومینٹری فلمیں بنتی تھیں،کبھی گانوں کی پکچرائزیشن ہوتی تھی، شعبئہ ہدایتکاری کے طالب علموں کو یہ موقع دیا جاتا تھا کہ وہ شعبئہ اداکاری کے طالب علموں کو لے کر ۲۰ یا ۲۵ پچیس منٹ کی فلمیں بنائیں۔ ہمیں ایسی عملی تربیتی فلموں میں اداکاری کے گر سیکھنے کو ملتے تھے اور بھی دیگر شعبوں کی جانکاری دی جاتی تھی جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ میں نے بہت کچھ سیکھا بھی اور ڈپلومہ حاصل کرلیا۔
حنیف قمر ؛ کیا انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل فنکاروں کو اس زمانے میں کام آسانی سے ملتا تھا؟
ٹام آلٹر : پونہ فلم ٹریننگ انسٹیٹوٹ آف انڈیا کی ان دنوں کافی شہرت تھی، بہت نام تھا اس انسٹیٹوٹ کا اور آج بھی ہے۔ اس سے فارغ التحصیل فنکاروں کے لئے بہت سارے دروازے کھلے ہوئے تھے جن میں قابل ذکر، بی آر چوپڑہ فلمز، رشی کیش مکھرجی فلمز اور رامانند ساگر فلمز ۔ یہ وہ فلمساز و ہدایتکار ہیں جنہوں نے ہمیشہ سے ہی نئے فنکاروںکی حوصلہ افزائی کی ہئے، ان کی اداکاری کو کھری کسوٹی پر پرکھ کر عوام سے داد وصولی ہے ۔ (چند ایک ایسے بھی تھے، جو انسٹیٹیوٹ کا نام سنتے ہی چپی سادھ لیتے تھے)۔ ٹریننگ مکمل ہوتے ہی مجھے پہلا کام دیوآنند کے ساتھ فلم ’’ صاحب بہادر ‘‘ میں ملا، جسکو چیتن آنند نے بنائی تھی ۔
میں نے رامانند ساگر فلمز کے بینر تلے اپنی پہلی ریلیز فلم ’’چرس‘‘ میں دھرمیندر کے ساتھ سی۔آئی۔ڈی،آفیسرکا رول کیا تھا۔اس فلم کی ہیروئن ہیمامالنی تھی، اس وقت شاید میں ۲۵۔۲۰ برس کا رہا ہونگا، اور اس رول کے بعد تو پورے پنجاب میں میری شناخت ’’دھرم پا جی کے ’’باس‘‘ کے روپ میں ناظرین کے دماغ میں آج بھی تازہ ہے۔ مجھے ان دونوں کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آیا تھا۔
۱۹۷۴ سے ۱۹۸۱تک میں نے سبھی معرو ف بڑے بڑے فلمسازو ہدایتکاروں جیسے وی شانتا رام، ستیہ جیت رے، راجکپور، رشی کیش مکھرجی، منوج کمار،من موہن دیسائی کے علاوہ اوربھی دیگربینرس کے تلے کام کیا ہے ۔ان کے ساتھ کام کرنے کامطلب یہ ہوتاہے کہ ہم نے ٹریننگ کے دوران جو کچھ بھی سیکھا ہے، اپنی پوری صلاحیت کو اس میں جھونک دیں اس قدر کہ ناظرین آپ کے کام کی خوب سراہنا کریںاور آپ فلم ناظرین کے دل و دماغ پر چھا جائیں۔ یہ سب کچھ فنکار کی صلاحیت پر منحصر کرتا ہےکہ وہ کس حدتک کامیاب اداکاری کہ ذریعہ ناظرین کے دلوں میں اپنا مقام بنا پاتاہے۔
حنیف قمر: پونہ میں ڈپلومہ فلم ایکٹنگ ٹریننگ کے دوران آپ کے ساتھیوں میں کون تھے، جس میں کتنے اداکار آپ کی طرح کامیاب رہے ہیں اور کتنے گمنامی کے اندھیروں میں غائب ہوگئے ؟
ٹام آلٹر: میرے ساتھیوںمیں ہیروئن رنجیتا،نیتا مہتا، رما وج ، وجیندر گھاٹگے، بنجامن گیلانی اور متھن چکرورتی رہے ہیں۔
حنیف قمر : سناہے ریحانہ سلطان ،شبانہ آعظمی اور نصیر الدین شاہ بھی آپ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ میں نے دوران گفتگوہی پوچھا۔
ٹام آلٹر : نہیں۔۔ نہیں۔۔ ریحانہ سلطان ، شبانہ اعظمی سے بھی سینئررہی ہیں اور ایک خاص بات یہ کہ ریحانہ سلطان فلم انسٹیٹیوٹ کی پہلی اسٹوڈنٹ رہی ہیں جنہیں، فلم ’’دستک‘‘ کیلئے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔شبانہ اعظمی مجھ سے بھی سینئر رہی ہیں اور نصیر الدین شاہ جونئیرتھے ۔(دوران گفتگو فون کی گھنٹی بجتی ہیے وہ معذرت کرتے ہوئے فون سننے کیلئے چلے جاتے ہیں)۔
ہاں۔۔ تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ میرے ساتھیوں میں سبھی نے خوب فلمیں کیں خوب نام کمایا ہے ، لیکن متھن چکرورتی خوش قسمت اداکارہے جس نے خوب شہرت پائی، اسکی بیشمار فلمیں بھی چل پڑیں اور آج تک چل رہی ہیں۔ باقی سب جو بھی ہم سے پہلے یعنی ۱۹۷۰ تا ۱۹۷۶ تک جتنے بھی دیگر اداکار و فنکار فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے ہیں وہ زیادہ تر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے ہی آ ئے ہوئے ہیںاور آج بھی فلم انڈسٹری میں جمے ہوئے ہیں۔ میں مئی ۱۹۷۴ میں اس عروس البلاد شہر بمبئی آگیا اور آ ج بھی جد و جہد جاری ہے۔
حنیف قمر : شروعاتی دور سے لیکر آج تک فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے آپ کو اپنی فلموں میں یادگار چھوٹے چھوٹے رول ہی دیئے ہیں، جسے آپ نے اپنی پختہ اداکاری سےیادگار بنادیا، مگرکیا وجہہ ہے کہ آپ کبھی فلم میں ہیرو کا رول حاصل نہیں کر سکے؟
ٹام آلٹر : نہیں ۔۔نہیں ۔ ایسی بات نہیں ہے میں امول پالیکر کی ہدایتکاری میں بننے والی پہلی فلم ’’ آگنتک ‘‘ میں ہیرو کا کردار نبھا چکا ہوںجس کی ہیروئن امول پالیکر کی سابقہ بیوی ، چترا پالیکر تھیں۔ دراصل یہ ایک تثلیثی رومانی کہانی تھی ۔ایک اور ہیرو امول پالیکر خود بھی تھے۔
ایک اور بڑے بجٹ کی بنگالی فلم میں بھی میں ہیرو کا رول کرچکا ہوں جس میں میری ہیروئن من من سین تھی اور شومترو چٹرجی (دادا صاحب پھالکے ایوارڈ یافتہ ) جیسے عظیم کلاکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاہے۔ بطور ہیرو میں نے ایک آسامی فلم بھی کی ہے۔ جسکو بہترین علاقائی (ریجنل)فلم کا نیشنل ایوارڈ برائے سال ۹۸۔۱۹۹۷ سے نوازا جا چکاہے۔ میری ایک مراٹھی فلم بھی ہے جس میں، میں نے ہیرو کا کردار نبھایاہے ۔
ایک اور ہندی فلم ’’آرٹ آف ڈائینگ‘‘ جو ایک انگلش فلم کا چربہ تھی اور۰۲۔۲۰۰۱ میں اسی نام سے ہندی میں بنی تھی اس کا مرکزی کردار بھی میں ہی تھا ایک اور ہندی فلم ’’ چیخا ‘‘ میں نے خود پروڈیو س کی ہے۔۲۰۰۸ میں ریلیز ہونیوالی فلم بحیرۂ اوقیانوس کا بوڑھا ـ’’ اوشین آف ان اولڈ مین‘‘ یہ بھی ہندی فلم تھی جسکا ہیرو بھی میں تھا۔ ۱۱۔۲۰۱۰ رونت رائے کی ایک ہندی فلم ’’ بلاک بسٹر‘‘ میں صرف نیشنل چینل دوردرشن پر ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی، اس میں بھی میں ہیرو کا مرکزی کردار نبھا چکا ہوں۔ اب آپ اسکو میری بد قسمتی ہی کہہ لیجئے یا کچھ اور۔۔کہ میں نے اور بھی مزید فلمیں بطور ہیرو کی ہیں جو محدود حلقوں میں ریلیز ہوئیں یا پھر نا مکمل ، ادھوری رہی ہیں جو ڈبوں میں بند رہ گئیں ۔
’’چمیلی میم صاحب ‘‘ میں بھی میں ہیرو ہوں، جو بہت کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی، فلم کی کامیابی اور ناکامی ایک الگ چیزہے۔ ’’اب کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے‘‘ کے مصداق سب کے نصیب میں بے پناہ کامیابی کہاں۔۔۔؟
’’ہاں میں نے دیکھی ہے ، چمیلی میم صاحب۔۔ـ‘‘ میر صاحب حسن (مدیر تریاق ) نے گفتگو کو دلچسپ اور خوشگوار موڑ دیتے ہوئے ، فلم کا منظر سنانے لگے۔ ’’فلم کی شروعات میں آپ ٹرین کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہیں اور باہر کا منظر دیکھنے میں محو ہیں، مخالف سمت سے آنیوالی ہوأوں سے آپ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ٹام آلٹر : آپ نے یہ فلم بچپن میں دیکھی ہوگی، یہ فلم شاید۸۱۔ ۱۹۸۰ میں ریلیز ہوئی تھی ، شاید آپ اس وقت بہت چھوٹے رہے ہونگے (معاف کرنا چھوٹے سے مراد عمر سے ہے ) مگر دیکھئے ، پھر بھی آپکوبطور ہیرو میری پرانی فلم ’’ چمیلی میم صاحب ‘‘ کا اتنا پرانا منظر ابھی تک یاد ہے ، کہاں دیکھی آپ نے یہ فلم۔؟ ٹام آلٹر نے میر صاحب حسن کی طرف اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
میر صاحب حسن : جی۔۔۔ نیٹ پر۔ بس یونہی آپ کی تفصیلات مختلف سائیٹس پر ڈھونڈتے ہوئےدیکھ لیا تھا، ابھی کل کی ہی بات ہے۔ (میر صاحب حسن نے بڑی سادگی سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا)۔اور شاید اس فلم کا دوسرا ہیرو متھن چکرورتی ہے۔
ٹام آلٹر : نہیں ،نہیں، وہ اس فلم میں ہیرو نہیں ویلن ہے ۔یہ فلم متھن چکرورتی نے ہیرو بننے سے پہلے سائن کی تھی ا ور۱۹۸۱ یا ۱۹۸۰ تک یعنی اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی وہ کامیاب اور مصروف ترین ہیرو کی شبیہ بنا چکا تھا لیکن اسکے باوجود اس شخص کی انسان نواز دوستی دیکھئے کہ اس نے اپنے وعدے کو نبھانے کیلئے اس فلم میں میرے مقابل ’’ ویلن‘‘ کا رول بھی بخوشی کرنے کو راضی ہوگیا۔ یہ فلم اس وقت ہندوستان کے مشرقی حصہ یعنی بہار کا کچھ علاقہ ،بنگال،اڑیسہ، آسام اور شمال مشرقی علاقہ کے بیشتر علاقوں میں ریلیز ہوئی اور خوب چلی۔ اس علاقے کے بیشمار ناظرین مجھے آج بھی جانتے پہچانتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے بھی ہیرو کے رول کئے ہیں۔آج بھی مجھے جب اس سنہرے دور کی یاد آتی ہئے تو قلبی سکون اور دماغ میں ایک سرور سا چھا جاتاہے اور روح کو تسکین ملتی ہے۔
حنیف قمر : نیشنل چینل دور درشن پر ۱۱۔۲۰۱۰ میں پہلی بار آپ کی فلم’’ بلاک بسٹر‘‘ ٹیلی کاسٹ ہوئی، اس سے بہت پہلے ہی چھوٹے پردے پر اس چینل کے ذریعہ بیشمار کامیاب سیرئیلس اور ٹیلی فلمیں دکھائی جاتی تھیں، کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ آپ چھوٹے پردے پر بھی ’’ کئی سال بعد‘‘ نمودار ہوئے؟
ٹام آلٹر : نیشنل چینل غالبا ۷۸۔۱۹۷۷ کے آخر آخر میں متعارف ہواتھا اور رفتہ رفتہ لوگوں میں مقبول و عام ہونے لگا تھا ، ہاں چھوٹے پردے پر مجھے نمودار ہونے میں تاخیر ضرور ہوئی ہے لیکن اتنی بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی کہ جتنا آپکے سوال ’ـ کئی سال بعد‘سے ظاہر ہورہا ہے۔
چھوٹے پردے ، یعنی ٹیلیویژن پر ۱۹۹۲، ۱۹۹۱،۱۹۹۰ میں میری توجہ مبذول ہوئی اور میں نے ڈھیر ساری سیریئلس سائن کر ڈالی، حد تو یہ تھی کہ مجھے اس دوران بیس بائیس گھنٹے تک شوٹنگ میں مصروف رہنا پڑتا تھا، یہ سلسلہ قریباً پانچ چھ سال خوب چلا دور درشن پر میری بہت ساری کامیاب سیریئلس جیسے، جنون،زبان سنبھال کے، میرے گھر آنا زندگی اور تارا وغیرہ ، دکھائی جانے لگیں، یہاں تک کہ ۹۵۔۱۹۹۳ تک ، کہ ہفتہ میں بعض دن ایسے بھی ہوتے تھے جبکہ، صبح سے شام تک ، میری سات سات سیریئلس کی نمائش ہوا کرتی تھی،اسی طرح میری شناخت چھوٹے پردے پر بھی مزید پختہ ہوگئی تھی۔۱۹۹۲ میں ہی میں اس فلیٹ میں شفٹ ہوا ، جہاں آج آپ اور ہم بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں، میں اس فلیٹ کو میرے لئے بہت لکی مانتا ہوں۔
حنیف قمر : ٹیلیویژن کے حوالے سے ایک اور سوال، سیرئیلس بناتے وقت چینل والوں کی بیجا مداخلت کیا اس وقت بھی ایسے ہی ہوا کرتی تھی جس طرح آج ہوا کرتی ہے؟
ٹام آلٹر : یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب سیٹلائٹ ٹیلیویژن کی آمد آمد تھی زی ٹی وی متعارف ہوچکا تھا، اسکے ذریعہ سیریئلس دکھائے جانے کا دائرہ وسیع ترہوگیا۔ بیشمار سیریئلس بیرون ہند بھی دکھائی جانے لگےاور بھی مزید سیریئلس بنائے جانے لگے اور کام بہت بہت بڑھ گیا۔ ہم سب کلاکار رات دن شوٹنگس میں مصروف رہنے لگے اور کام بھی بیحدسلیقہ مندی سے ہوا کرتا تھا۔ آج کی طرح اس دور میں کسی کی دخل اندازی نہیں ہوا کرتی تھی کہانی کے تقاضہ کے مطابق کام سے کام رکھا جاتا تھا ۔ لیکن آجکل چینل والوں کی طرف سے بیجا مداخلت بہت زیادہ ہوتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ا ن کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلا سکتے۔
حنیف قمر : پچھلے چالیس سالوں سے آپ انڈسٹری میں مصروف ہیں ، کبھی کسی متنازعہ شخصیت کے ساتھ بھی آپکو کام کرنا پڑاہے؟
ٹام آلٹر : ہرگز نہیں، میری شخصیت کبھی کسی کے لئے درد سر نہیں رہی ہے، میرے سب کے ساتھ اپنے تعلقات بڑے خوشگوار تھے۔ میں ایک غیر متنازعہ شخصیت رہا ہوں جسکا کسی کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں رہاہےحالانکہ میں نے راجکمار مرحوم کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ فیروز خان صاحب کے ساتھ بھی ، مجھے انکا کائوبوائے اسٹائل بہت پسند ہے، وہ ایک انقلابی اداکا ر تھے ، اپنی ہر ایک فلم میں وہ ایک انوکھے انداز میں ناظرین کا دل موہ لیتے تھے ۔ اور اس وقت کے سوپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ بھی کام کیا ہے مگر سب کے سب میرے لئے قابل تعظیم رہے ہیںاور یہ عظیم اداکار بھی سب کو عزت دیتے تھے۔
ٓ اتنی اچھی عمدہ آسان اور فصیح زبان اردو بولنا کس سے سیکھا ہے آپ نے۔۔۔۔؟ مدیر میر صاحب حسن نے اپنا سوال دہرایا؟
ٹام آلٹر : بچپن سے ہی میں نے گھریلو ماحول میں اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ، اس زمانے میں ـ’’ مسوری‘‘ جہاں میری پیدائش ہوئی اور پرورش بھی جس ماحول میں ہوئی وہ سب اردو ، ہندی جیسا ہی تھا۔ یہ الگ بات ہےکہ گاندھی جی نے اس زبان کا نام’’ ہندوستانی‘‘ رکھ دیا تھا،اس میں کوئی مغالطہ نہیں کہ وہ زبان اردو ہی تھی کیونکہ زائد از ۹۰ فیصد بول چال وہی تھی۔ ہم نے بچپن سے لےکر آج تک کبھی ’’ خراب کو کھراب‘‘ نہیں کہا۔اس کے فرق کو خوب سمجھتے ہیں۔ جیسا کے آپ سب کومعلوم ہے میرے جد امجد سے لیکر میرے چچا اور والد بھی پادری رہ چکے ہیں وہ سب بھی انجیل مقدس کا درس اردو زبان میں ہی دیا کرتے تھے۔۱۹۵۰ کے ایک ملک گیر جلسئہ عام درس انجیل مقدس پر رکھا گیا تھا جسکے لئے ملک کے گوشے گوشے سے لوگ جوق در جوق اس جلسے میں شامل ہونے کیلئے آئے تھے۔ ان کی سہولیات کے لئے جو پمفلٹس چھاپ کر بانٹے گئے تھے وہ سب فصیح اور آسان اردو میںہی تھے،آج بھی میرے پاس وہ موجود ہیں اور میرا یقین ہےکہ میں تو کیا آج کا اچھا اردو جاننے والا شخص بھی اسکو روانی سے نہیں پڑھ سکتا۔ قصہ مختصر کہ اردو بچپن سے ہی میری رگ رگ میں دوڑ رہی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے میرے لئے لیکن پھر بھی میں اس زبان کو پختگی سے سیکھنے کے لئے دوران فلم ٹریننگ میرے عزیز دوست محمد رفیق شیخ سے پونا میں سیکھتا رہا ہوں۔ ممبئی میں عنایت اختر صاحب سے اردو سیکھنے کی بابت خواہش ظاہر کی جو خود بھی اس زمانے میں فلموں کے لئے لکھتے تھے۔ مولانا آزاد روڈ پر شاید’’ طاہرہ منزل‘‘ ناگپاڑہ میں رہا ئش پذیر استاد ـ ’ جالب مظاہری‘ صاحب سے متعارف کروایا، شاید وہ انجمن اسکول میں پڑھایا بھی کرتے تھے جو جے جے اسپتال کے آس پاس ہی کہیںہے۔ میں انکا شاگرد رہا ہوں۔ پورے سات آٹھ سال تک میں نے ان سے درس لیاہے۔ آج سے پہلے میں سانتا کروز میں رہا کرتا تھا وہ مجھے پڑھانے کے لئے ناگپاڑہ سے سانتا کروز آیا کرتے تھے جب مجھے ان کے رہائش کا پتہ چلا تو انکی عمرکا لحاظ کرتے ہوئے خود ناگپاڑہ انکے گھر جاتا تھا۔ مینا کماری اور یوسف خان ’’ دلیپ کمار‘‘ صاحب کو بھی وہ اردو سکھانے میں معاون رہے ہیں،میری طرح ان کے اور بھی کئی شاگرد بقید حیات ہیں، انہوں نے اردو قواعد پر ایک کتاب بھی لکھی تھی ’’ ممتاز القواعد‘‘ جو اب شاید بازار سے ناپید ہوچکی ہوگی۔ شاید ۱۹۸۶ میں میرے استاد بھی انتقال کرگئے۔ ’’ اللہ استاد محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت میں جگہ دے۔‘‘
آپ کے علم میں اس وقت فلم انڈسٹری میں موجود اور کون کون ایسے اداکار ہیں، جو اردو بولتے، پڑھتے اور لکھتے ہیں؟؟ میر صاحب حسن نے دوسرا سوال کر ڈالا۔
ٹام آلٹر : دھرمیندر،پریم چوپڑہ، بی آر اشارہ(بابو رام اشارہ)، ان کی اہلیہ ریحانہ سلطان، روشن تنیجہ اور بھی دیگر لوگ ہیں ، ان سب کے علاوہ، منوج کمار بھی نہ صرف اچھی اردو جانتے ہیں بلکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔زبان اردو کے معاملہ میں، یہ آج بھی میرے استاد ہیں، وقتا فوقتا ان سے بھی رائے مشورہ لیتا رہتا ہوں ۔
اردو قارئین کیلئے آپ کا کیا پیغام ہے۔؟میر صاحب حسن کے سوال پربس وہ مسکرا کر رہ گئےاور کہنے لگے۔
ٹام آلٹر : دیکھئے عالیجناب میر صاحب!! اردو کے مخلص باہمی رشتہ کی وجہ سے ہماری جو گفتگو ہو رہی ہے اس میں، میں سبھی قارئین ماہنامہ’’ تریاق‘‘ کو میرا تجربہ بتانا اور سنانا چاہونگا، ملک کے مختلف شہروں میں میرے اکثر پروگرامس اردو کے حوالے سے ہی منعقد کئے جاتے ہیں جہاں اکثریت اردو بولنے، سمجھنے والوں کی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک شہرکا واقعہ ہے جو اردوکیلئے بہت زرخیز مقام ہے۔ لوگ اردو بولتے ہیں، پڑھتے لکھتے اور عام بول چال کی زبان بھی اردوہے۔ یہاں سے کئی شاعر ادیب صحافی اور دیگر سماجی اشخاص نے اردو کے حوالے سے بہت نام کمایا ہے اور اپنے شہر کا نام روشن کر رہے ہیں،بڑی اچھی بات ہے لیکن اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی ، جب وہاں کے لوگ مجھ سے چاہتے تھے کہ میں، وہاں انگلش میڈیم اسکول قائم کرنے میں ان کی مدد کروں۔حالانکہ میں اس شہر کے باشندوں کی زبان اردو سے بے انتہا محبت سے متاثر ہو کر وہاں کسی اردو پروگرام میں شرکت کی غرض سے گیا تھا۔
میرا پیغام یہی ہےکہ اردو کی باقاعدہ ترقی و ترویج کیلئے سنجیدگی سے با عمل ہو جائیں،خود بھی سیکھیںاوروں کو بھی سکھائیں۔اسکے لئے ہر گھر میں اردو اخبارات اور رسالوں کے خریدار بنیں، روزمرہ کی زندگی میں ہم اپنی مادری زبان اردو کی بول چال عام کریں،اردو پڑھیں، لکھیں اردو سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو باقاعدہ فرصت کے اوقات میںروزانہ کا معمول بنائیں۔ اپنی مادری زبان سے محبت ہی تمہاری بقا کی ضامن ہے ،جس قوم کو اپنی زبان سے محبت ہوگی اسکو زمانے کی بے شمار سازشیں بھی فنا نہیں کر سکتیں تو بھلا آپ ہی بتائیں کہ سینکڑوں سال پرانی زبان اردوکیسے ختم ہو سکتی ہے؟
اردو زندہ باد ۔۔۔اردو پائندہ باد۔۔۔


Comments
Post a Comment