طلسمی عینک
دو روز پہلے اس کے گیسٹ ہاؤس میںایک نامور جادوگرسی کے نرولا رہ کے گیا تھا۔خوش قسمتی سے جادو گر کے کرتب اس نے بھی دیکھے تھے۔تماشہ دیکھ کر وہ بھی ایک خیالی اورطلسماتی دنیا میں کھو گیا تھا۔دل چاہتا تھا بس یہی دنیا ہمیشہ سامنے رہے کیونکہ اصلی دنیا سے اس کا جی گھبراتا تھا۔
بدرالدین شہر کے پائیں علاقے وازہ پورمیں رہتا تھاجہاں کے لوگ طباخی کے ہنر میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں لیکن خود نوالوں کے لیے ترستے ہیں۔یہ بات الگ کہ اس کی وادی اپنی خوبصورتی کے لیے ساری دنیا میں اپنا ثانی نہیںرکھتی ۔برف سے ڈھکے آسماں کو چھوتے ہوئے نیلگوںپہاڑ، نت کھسکتے یخ بستہ گلیشئر ،فرازِکوہ سے گرتے اور اپنے دامن میں جھاگ کا انبار لگاتے ہوئے آبشار ،صاف و شفاف بلوریں جھیلیں ، ناگن کی طرح بل کھاتے ندی نالے، زمین کے بطن سے ابلتے میٹھے پانی کے چشمے اور روح پرور تازہ ہوائیں ۔لیکن اس کے لیے یہ سب بے کار تھا۔اس کی دنیا میںتو تاریکی ہی تاریکی تھی۔
جس دن نرولا واپس چلا گیا ،اسی دن بدرالدین نے گیسٹ ہاؤس کے کمروں کی صفائی کروائی۔ کیا جانے کس گھڑی دوسرا مہمان آ ٹپکے۔الماری صاف کرتے وقت اس کی نظر ایک کالے چشمے پر پڑی جو شایدنرولا اپنے ساتھ لے جانا بھول گیا تھا۔بدرالدین نے عینک اٹھائی اور اپنی آنکھوں پر لگائی۔ پھر جاکر قدِ آدم شیشے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔سامنے بدر الدین کے بدلے کوئی اور ہی شخص تھا۔ بالکل فلمی ہیرو جیسا۔وہ حیرا ن تھا کہ اس کی یہ حالت کیسے ہو گئی۔اتنا خوبصورت تو وہ پہلے کبھی نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ خود کو دیکھتا ہی رہے مگر دل نے کہاذرا دیکھو تویہ حقیقت ہے یا محض آنکھوں کا دھوکہ ۔ اس نے آنکھوں سے چشمہ اتارا اور اپنے آپ کو ٹٹولنے لگا۔وہاں وہی پرانا بدر الدین تھا ۔دبلا پتلا،سہما سہما ،غموں اور تفرقوں سے گھرا ہوا بدر الدین۔ اس نے اس کارروائی کو کئی بار دہرایا مگر ہر بار وہی نتیجہ نکلتا۔ اسے حیرت ہوئی کہ جا دوئی عینک نے اس کاحلیہ کیسے بد ل ڈالا۔ پھراسے یاد آیا کہ ا سکول میں طلبا اس کو دلیپ کمار کے نام سے پکارتے تھے۔شکل و صورت ، بالوں کا اسٹائل سب کچھ دلیپ کمار جیسا تھا۔ بس کمی تھی تو زبان کی۔ کشمیری ہونے کے ناتے وہ رواں اور فصیح اردو نہیں بول سکتا تھا حالانکہ اس نے کئی بار دلیپ کمار کی طرح ایکٹنگ کرنے اور مکالمے ادا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی۔اس کے دل میںکئی مرتبہ خیال آیا تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فلموں میں کام کرنے کے لیے ممبئی بھاگ جائے مگراس نے دوستوں کی زبانی گھر سے بھاگے ہوئے کلاکاروں کی کئی کہانیاں سن رکھی تھیں اور یہی کہانیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بن جاتیں۔ پھر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ کشمیر میںمدھوبالا اورمینا کماری کے مقابلے میں کہیںزیادہ سندر دوشیزائیں ٹوٹی ٹپکتی ہوئی چھتوں کے نیچے مسلسل کھانستی ہوئی اور بلغم تھوکتی ہوئی دم توڑتی ہیں۔ جب بدر الدین کے والد نے اسکول چھڑوا کر اس کو سفیدچوغہ (پوژھ)پہنا یا اور اپنے ساتھ شادیوں میںکھانا بنانے کے کام پر لے گیا تو اس نے فلموں کے خواب دیکھناچھوڑ دیا۔
بدرالدین نے چپکے سے عینک اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ دی اور سوچاکہ گھر جاکر اس کا خفیہ طور پر مزید معا ئنہ کروں گا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ عینک بیش قیمتی نہ ہو اور نرولا نے پولیس میں رپٹ درج نہ کی ہو۔پھر پولیس اس کو پکڑ کر اس کا جینا حرام کر دے گی۔پولیس کا کیاانہیں تو غریبوں کو یاتنائیں د ینے کا کوئی بہانہ چاہیے۔مسلمان ہو تو ضرورپاکستانی ہوگا اور ہندو ہو تو آر ایس ایس کا لیبل کافی ہے ۔ہر بار و ہی لاٹھیاں،وہی گالی گلوچ ،اور وہی مار پیٹ۔تھانے سے نکل کر آدمی یہ سمجھ نہیں پاتا کہ اس کو کس پاداش کی سزا مل گئی۔وازہ پور تو اس معاملے میں خاصا بدنام ہے۔
شام کو جب وہ گھر پہنچا تو سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جالی دارکھڑکی ،جس کو مقامی لوگ پنجرہ کہتے ہیں، کھولی اور باہر جھانکنے لگا۔سامنے لکھوری اینٹوں کے بنے خستہ مکان تھے جن کی چھتوں پربھوج پتر اور مٹی بچھی تھی۔ بس چند ایک مکان ایسے تھے جن پر شنگل یا ٹین کی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ موسم سرما میں چوبی چپّوں اور بیلچوں سے ان چھتوں کی برف اتاری جاتی تھی۔جھر جھر دیواروں سے جگہ جگہ مٹی کا پلستر اترا ہوا تھا۔ گلی کوچوں میں دس سال پہلے ٹائیلیں بچھائی گئی تھیںجو سب کی سب اکھڑ گئی تھیں اور اب ہر طرف یا تو گندگی پھیلی ہوئی تھی یا پھر کیچڑ۔سارے علاقے میں سینیٹری سسٹم کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ لوگ غربت کے باعث اپنے گھروں میں الگ سے یہ سسٹم لگانے سے معذور تھے ۔ نتیجتاً صبح سویرے پاخانوں کی ساری گندگی کھلی نالیوں میں بہائی جاتی تھی جسے سارا ماحول کثیف اور بدبودارہو جاتا۔ بجلی تھی کہ سردیوں میں ہمیشہ گُل رہتی تھی جبکہ نلکوںسے پانی غائب ہو جاتا ۔ سردیوں میں زندگی کا ٹھپ ہوجانا ضروری امر تھا کیونکہ اُمرااور رؤسا نقل مکانی کرکے جموں چلے جاتے۔
اس نے پھر سے طلسمی عینک آنکھوں پر چڑھا دی اور کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا۔اس کے سامنے عجیب سا منظر تھا۔بڑے بڑے عالیشان بنگلے جن میںرنگ برنگے قمقمے روشن تھے حالانکہ حکومت ہر روز بجلی کو کم خرچنے پر زور دیتی تھی۔پس منظر میں پہاڑیوں کے سلسلے تھے اور پیش ِمنظر میں گلستان۔ان بنگلوں میں دو یا تین آدمیوں سے زیادہ لوگ نہیں رہتے تھے مگر ان کا سائز مکینوں کی دولت کا اشتہار تھا ۔
ادھرسامنے والے لان میں پارٹی چل رہی تھی اور میزبان مہمانوں کی خاطر مدارات میںکوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔ میزبان بر سرِ اقتدار پارٹی کا اہم رُکن تھا جوسماج سیوا کے لیے کم اورابن الوقتی کے لیے زیادہ مشہور تھا ۔اس نے دہلی میں ایسی ہوا پیدا کی تھی کہ وہاں کے سیاست دان یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر میں بس وہی ایک محب وطن بچا ہے اور اس کے بغیر ان کی پارٹی کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔وہ تیس بر س پہلے سیاسی میدان میں اترا تھا۔ابتدا میں رائے شماری ،انسانی حقوق کی پامالی اور غریبوں کی کسمپرسی کی جنونی باتیں کرتا ، پھر اپنی پارٹی چھوڑ کر بر سر اقتدار پارٹی میں گھس گیا اور اسمبلی ممبر بن کر منسٹر بن گیا۔ تب سے گورنمنٹ کے سبھی ا ہم ٹینڈر اس کے رشتے داروں کے نام ایشو ہوتے ہیں۔ اس نے کئی جگہ اپنے نام پر معمولی قیمتوں پر زمینیں الاٹ کروائیں۔محکمہ انڈسٹریز سے قرضے لے کر جھوٹ موٹ کے کارخانے لگوائے اور کمپنیوں کا دیوالیہ پٹوا کر لاکھوں روپے ہڑپ کر لیے۔ آج جہاں دیکھو وہاں اس کے مال کھڑے ہیںجن میں سوئی سے لے کرٹریڈمل تک سب کچھ ملتا ہے۔غرض یہ کہ وہ اپنی ساکھ بنانے میں جٹا ہو ا ہے جبکہ مرکزی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ کشمیر میں ہندوستان کی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔
دفعتاً بدرالدین کی نظر ایک داڑھی والے بزرگ پر پڑی جس نے اپنی داڑھی کو خضاب سے رنگ دیا تھا۔اسے یاد آیا کہ خواجہ صاحب تو اس کے ننھیال کے سامنے رہتا تھااور وُڈ کارونگ کاکام کرتا تھا ۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کئی بار لکڑی کے سامان میں چرس کی تسکری کی اور جب آسودہ حال ہوا تو حج کرکے توبہ کر لیا۔اب تو سبھی لوگ اسے حاجی صاحب کے نام سے ہی جانتے ہیں۔
کچھ دیرکے بعد ایک آئی اے ایس افسر میزبان کے قریب آیا اور اسے گفتگو کرنے لگا۔ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعدحکومت نے خصوصی طور پر بلایا تھا تاکہ وہ یہاں کے بگڑے ہوئے نظام کو درست کرسکے حالاں کہ وہ خود بھی تیس سال اسی نظام کا حصہ رہ چکا تھا۔دراصل ریٹائر منٹ کے بعد روپپہ کمانے کایہ سب سے آسان طریقہ ہے ۔اتنا تو سب کو معلوم ہے کہ جوافسر پوری عمر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہا وہ آخر ی وقت میں کیا خاک مسلمان ہوگا۔ اس پر طرہّ یہ کہ اب ان کی بیگم صاحبہ نے بھی این جی او کھول کر قوم کو لوٹنے کی ترکیبیں ڈھونڈنکالی ہیں ۔
پارٹی میں مس شہناز بھی شامل ہے۔بدر الدین کو یاد آیا کہ وہ کئی بار اجنبیوںکے ساتھ گیسٹ ہاوس میں آتی رہتی تھی اوربند کمرے میں نہ جا نے کیا گل کھلاتی رہتی تھی۔بازار سے شراب ، ٹکے اور کباب تو اس نے خود ہی لاکر دیے تھے۔آج کل شہناز کے سر پر سیاست کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔اسی لیے وہ بہت دنوںسے منسٹر صاحب کی ہر خواہش پوری کررہی ہے ۔اسے یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں اسے بھی ٹکٹ مل جائے گی۔کشمیر میں مقتدر پارٹی کی طرف سے الیکشن کی ٹکٹ ملی تو سمجھو چناؤ بھی ہو گیا۔
اچانک بدرالدین کو اپنی بیوی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔وہ چونک گیا ۔ عینک اپنی الماری میں چھپا لی اور نیچے باورچی خانے میں چلا گیا جہاں اس کی بیوی کھانا پروسنے کے لیے انتظار کر رہی تھی ۔ وہ باورچی خانے کے سامنے والی جگہ میں آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گیا۔آناً فاناً چار بچے اس کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ بقیہ صفحہ ۷۶؍ پر ملاحظہ کیجئے
صفحہ ۲۹؍سے آگے
طلسمی عینک
بدرالدین ہر روز ان کے لیے ٹافی لے کر آتا تھا مگر آج عینک کے چکر میں وہ بھول ہی گیا ۔ اس کی نظر جونہی بچوں پر پڑی وہ بوکھلاگیا۔بچوں کے کپڑے میلے کچیلے اور جگہ جگہ پھٹے ہوئے تھے۔ کسی کی آستین نہیںتھی اور کسی کا کالر غائب تھا۔ کسی کی ناک بہہ رہی تھی اور کوئی بخار سے تپ رہا تھا۔
’’تین دن سے کہہ رہی ہوں کہ آمنہ کو بخار آرہا ہے اور اترنے کا نام بھی نہیں لیتا۔اسے ڈاکٹر کو دکھا دو مگر تم ہو کہ تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘‘بیوی نے کھانے کی پلیٹ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ میں ڈسپنسری گیا تھا مگر وہاں ایک ہفتے سے ڈاکٹر آ ہی نہیںرہا ہے ۔ پرائیویٹ ڈاکٹر کودکھانے کی میری حیثیت کہاں ۔وہ تو لوٹتے ہیں۔یہ ٹیسٹ وہ ٹیسٹ۔ تم اپنے ماموں کے پاس کیوں نہیں لے جاتی ۔وہ تو عمر بھر بڑے ہسپتال میں کمپونڈر رہا ہے اور اب لوگوں کا علاج بھی کرتا ہے۔وہ تو ہسپتال کی ساری دوائیاں گھر لے کر آتا ہے ۔ تم سے تھوڑے ہی پیسے مانگے گا۔‘‘
’’بچوں کے ا سکول کی فیس بھی دینی ہے۔وہ بھی کب سے مانگ رہی ہوں ۔‘‘
’’ کس کے لیے چاہیے ۔ دیکھو وہ مسجد میں جو بہار سے مولوی صاحب آئے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو اسکول بھیجنا ٹھیک نہیں ہے۔ رہی بات لڑکوں کی ، وہ تو اب بڑے ہوگئے ہیں ، ان کو رمضان چاچا کے ساتھ باورچی کے کام پر بھیج دیا کرو ۔ کچھ سیکھیں گے بھی اور کمائیں گے بھی۔‘‘
’’ جیسے تمہاری مرضی۔ میں تو ان پڑھ گنوار ہوں ،مجھے کیا معلوم کیا صحیح ہے اورکیا غلط۔تم نے تو آٹھویں پاس کیا ہے اور دنیا بھی دیکھی ہے۔جو مناسب سمجھو کر لو ۔‘‘
’’ اسی بات پر تو نوکری مل گئی تھی۔آٹھویں پاس اور طباخی کی تربیت۔بس گیسٹ ہاؤس کے لیے اور کیا چاہیے تھا۔‘‘
رات بھر بدرالدین عجیب عجیب سے خواب دیکھتا رہا ۔کبھی میٹھے اور سہانے خواب اور کبھی خوفناک اور ڈراونے خواب۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ سب اس عینک کا کیا کرایا ہے۔وہ رات بھر بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتا رہا ۔ صبح ہوتے ہی اس نے عینک جیب میں رکھ لی اور پاس ہی عالی کدل پُل سے جہلم دریا میں پھینک دی۔
دو چار دن یوں ہی گزر گئے۔ بچوں نے ا سکول جانا بند کردیا۔ بیٹیاں ماںکے ساتھ نمدے بنانے اور ان پر کڑھائی کرنے میںلگ گئیں ۔ادھرشاہ رخ خان اور سلمان خان کی شکل و صورت والے بیٹے چوغہ پہن کر شادیوں میں کھانا بنانے لگے۔
اس دن کے بعد بدر الدین کی آنکھوں سے خواب ہی غائب ہوگئے۔
٭٭٭٭٭

Comments
Post a Comment