SACH KA DESH NIKALA




سچ کو دیش نکا لا



 سراج فاروقی
۷۰۳،وادگھار،نزدکالج پھاٹہ،پنویل۔۴۱۰۲۰۶
ای میل : farooquisiraj@gmail.com 


  علی حسین بہت بڑا مصور تھا ۔وہ بڑ اہی حق پرست اور انصاف پسند تھا۔ وہ بڑ ی ہی اچھی ا ور نایاب تصویر یں بنا یا کر تا تھا ۔ مہا را ج کو اپنے اس غریب مصور کی کو ئی خبر نہ تھی۔ یا یو ں کہیں وہ ہمیشہ جھو ٹے اور چا پلوسو ں میں گھرا رہتا تھا ۔اسے وہ لو گ جو دکھا تے وہ وہی دیکھتا اور سنتا تھا ، اسے اپنی آنکھ ، کا ن ،نا ک پر جیسے کو ئی بھروسہ ہی نہیں تھا ۔ ایک با ر وہ پڑ وسی دیس میں گھو منے گیا ،تو اس کی وہا ں بڑ ی تعر یف سنی ۔محل آ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا ،’’علی حسین سے ہمیں ملوا یا جا ئے ۔ ہم بھی تو دیکھیں ،کیسی نا یا ب مورتی ہما رے نا ک کے نیچے چھپی بیٹھی ہے اور ہم کو خبر تک نہیں ہے۔۔۔۔۔‘‘
وزیر تو سب جانتا  تھا۔ وہ را جا کو اس کے نگارخانے میں لے گیا ۔ را جا نے بڑ ی ہی ہیچ نظروں سے اس پھٹے حا ل مصوراور اس کے نگارخانے کو دیکھا ۔جبکہ مصو ر نے را جا کا اپنے نگار خانے میں بڑی ہی خوش دلی سے استقبال کیا ۔ را جا اس مصور کے نگارخانے میں بڑے ہی تمکنت اور غرور سے سینہ تا نے، نیز ناک منہ بسورتے گھُسا ۔
’’ہم نے بیدیشو ں میں جا کر سنا ہے، تم بہت مہان چتر کا ر ہو ۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ بید یش وا لوں کی مہا نتا ہے،با دشا ہ سلا مت ۔۔۔۔۔‘‘مصور نے قدر ے جھک کر ادب و انکساری سے کہا،’’ورنہ میں تنگ زر ،تنگ زن ، تنگ زمین ،ننگ دھڑ ننگ ،پھٹے حا ل اور مست ملنگ ،میری بساط کیا ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’لیکن ،اب تنگ نہیں رہو گے۔۔۔۔۔‘‘را جا نے گردن ٹیڑھی کرکے کہا اور آ گے بڑھا ۔اس کو اس کی عظیم مصوری دیکھنے کی بڑ ی ہی بے چینی تھی کیونکہ ابھی تک اس نے اس کی ایک بھی تصویر نہیں دیکھی تھی،صرف سنا تھا بس ۔علی حسین کا نگار خانہ کیا تھا ؟ بس سمجھو ،گھا س پھو س کی ایک کٹیا تھی ؟ مگر علی حسین نے اس کو جس حسا ب سے مزیّن کیا تھا وہ اندر اور با ہر سے آرٹ کا ایک نمو نہ نظر آتی تھی ۔را جا کو علی حسین گھا س پھوس کے ایک کمرے میں لے گیا اور دیوا ر پر ٹنگی ایک بہت بڑی نایاب تصویر دکھا یا ۔ اس تصویر کی آنکھ پگھل پگھل کر با ہر آئی جا تی تھی اور خو ن ٹپک ٹپک کر با ہر گرا پڑتا تھا۔ را جا نے پہلے اس تصویر کو غور سے اور پھردلچسپی کے ساتھ دیکھا ،اس کے بعد ذرا پیچھے ہٹ کر بے زا ری سے سوال کیا ،’’یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہ ایک فنکا ر کا طنزہے، مہا را ج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا طنز ہے۔۔۔۔۔۔؟‘‘مہا را ج  غرّایا ۔
’’میں نے انصا ف کا خو ن ہو تے ہو ئے دیکھا ہے۔  ‘‘ اس تصو یر کے نیچے جو کیپشن لکھا ہو اتھا اس نے را جا کو سنا دیا ۔را جا گرم ہو گیا ’’یہ کیا بے وقوفی ہے ؟یہ کیا مصوری ہے؟کیا ہما ری حکو مت میں ایسا ہی ہو تا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘را جا اوپری چمک دمک کا قا ئل تھا ۔ اس کو اس میں  دلچسپی نہ لگی ۔ نا ک بھو ں سکو ڑ کر آگے بڑ ھ گیا ۔ اب آ گے جو تصو یر تھی با لکل ویسے ہی تھی ۔ بس، فرق اتنا تھا یہ با لکل سفید تھی ۔نڈھا ل تھی۔ را جا نے شاطرانہ معصو میت سے پو چھا ،’’اور یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
مصورعلی حسین نے سینہ تا نے ہو ئے کہا ،’’یہ آ نکھ کہتی ہے ،بے آبرو ئی کا میںنے ایسا ننگا سا مراج دیکھا ہے کہ مجھے اپنی سیا ہی پر شرم آ ئی اور میں سفید ہو گئی ۔۔۔۔ ‘‘
’’مصور!تم بے وقوف ہی نہیں ،بد تمیز بھی ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اس عزّ ت افزا ئی کا شکر یہ مہاراج۔۔۔۔۔‘‘عمر دراز مصور نے بڑی ہی خندہ پیشانی سے جو اب دیا ۔
را جا اور آ گے بڑ ھا ۔سا منے اس کے اب جو تصو یر تھی۔ اس میں بڑ ی سی ایک زبان کو پینٹ کیاگیا تھا اور اس پر بڑ ے بڑ ے سیا ہ بھا لے جیسے کا نٹے تھے۔را جا نے طنزیہ ڈ ھنگ سے کہا ،’’یہ کو ن سا شا ہکا ر ہے تمھارا ،چتر سین علی حسین۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہ زبا ن کہتی ہے، بھو ک میں اتنا سو کھی کی زبان پر کا نٹے اُگ آ ئے ۔۔۔۔۔!‘‘
’’چتر کا ر ،تم ہما ری تو ہین کر رہے ہو ۔ہما رے ہی دیش میں رہ کر ہما را ہی کھا تے ہو اور ہما را ہی دُش پرچا ر کرتے ہو۔اسی لئے ہم سو چیں ، دشمنو ں میں اپنو ں کے چر چے کیو ں ہیں ؟سنگترا ش  یا  چتر کا ر ہم تم کو سزا ئے مو ت دیں گے۔۔۔۔تا کہ دو با رہ کو ئی ایسی جرا ٔ ت نہ کر سکے ۔۔۔۔‘‘
’’سر آنکھو ں پر حضو ر ۔۔۔۔۔‘‘مصور مسلسل مؤدب بنا رہا ۔
’’یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟‘‘را جا اب ایک ایسی تصو یر کے آ گے کھڑا تھا ، جہاں کینوا س پر ایک کسا ن کی تصو یر اُبھری تھی ۔پچکا گا ل ، پیٹ اور پیٹھ ایک ، سینے کی پسلیا ں صا ف دِکھتی تھیں۔ اس کے اندر دل کو ایسے رنگو ں سے بنا یا تھا کہ یوں لگتا تھا اب ٹو ٹا کہ تب ٹوٹا ۔۔۔۔۔۔پھٹی ایڑ یو ں وا لا پا ئو ں ۔ چتھڑ ے دا ر دھو تی ۔ اور اوپر کا بدن بالکل ننگا۔ایک ہا تھ اس کا سر پر تھا ۔جیسے کچھ دیکھ رہا ہو ۔مگر آنکھیں گڑھوں میں نہ تھیں یا تھیں تو ایسی لگتی تھیں ،گویا آخری آ س میں اب اندر گئیں کہ تب گئیں۔ مصو ر نے بڑی ہی مہارت سے خدا لگتی تصو یر خلق کی تھی ۔ 
مگر را جا نے کہا ،’’چتر کا ر ،یہ کیا بھو نڈی تصویر بنا یا  ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہ اپنے دیش کا کسا ن ہے مہا را ج ۔۔۔۔۔‘‘مصور نے صاف گوئی سے کام لیا۔ ’’اس کو پھا نسی لگوا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مہا را ج آ گ بگولہ ہو گیا ۔وزیر اعظم کو حکم دیا،’’ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔۔بڑی کڑ وا ہٹ ہے اس چتر کا ر میں ۔کیا کر یلا کھا کر پیدا ہو ا ہے ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’حضو ر کے را جیہ میں دوا کے طو ر پر بھی وہ میّسر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا بکتے ہو ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’حقیقت کہتا ہو ں جہاں پناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مہا را ج تمھیں زندہ نہیںچھو ڑ یں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مصور بے خوفی سے بولا،’’یہ مہاراج کو اختیار ہے۔۔۔۔‘‘را جا دونوں ہاتھوں کو پیٹھ پر رکھے سانپ کی طرح غرّا تا ہوا آ گے بڑ ھا ،اُ س کا پا ر ہ ساتویں آسمان پرتھا ۔ وہ اب ایک دوسری تصویر کو دیکھ کر ٹھٹکا ،’’یہ کیا ہے؟ نو جا ت(نوزائیدہ) بچی کو ما ں با پ کو ڑ ے دا ن میں ڈا ل رہے ۔۔۔؟‘‘
’’ہا ں مہا را ج ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ اب آگے بڑھا،’’یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘اب جو منظر اس کے سامنے تھا اس کے بارے میں وہ بو لنے لگا،’’ ما ں با پ خو د اپنے بچے کو بیچ رہے ،اپنا اور دوسرے بچوں کا جیون گذار نے کے لئے ۔۔۔۔؟‘‘
’’ہا ں مہارا ج ۔۔۔۔۔‘‘
’’تو ،کیا یہ ہما رے را جیہ کی سچا ئی ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’سو فی صد ی ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اور تمھا رے فن کی ۔۔۔۔‘‘
’’یہ آ پ خو د پر کھ لیں ،حضو ر ۔۔۔۔۔‘‘
’’تم سرا سر ہمیں بد نا م کر رہے ہو ۔۔۔۔۔‘‘
’’مہارا ج ۔۔ہاتھ کنگن کو آ رسی کیا ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہم تمھیں معا ف نہیں کر یں گے ۔۔۔۔۔‘‘
’’را جا ئو ں کے یہا ں یہی ایک چیز کی تو قلت ہے۔۔۔۔‘‘
’’بڑ ے زبا ن درا ز ہو ۔۔۔۔۔‘‘
’’سچ کو اکثر لو گ یہی نا م دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہم تمھیں زندہ دیوا ر میں چنوا دیں گے۔۔۔۔‘‘
’’اپنے وطن کی خا ک میں مل جا ئو ں گا ۔۔۔۔۔‘‘
’’ہم تمھا ری خا ک کو ہوا میں اڑا دیں گے۔۔۔۔۔‘‘
’’میں اسے بھی مہا را ج کا انعا م سمجھو ں گا ۔۔۔۔۔‘‘
’’چترکا ر ۔۔۔‘‘را جا تھو ڑا نرم ہو تا ہو ابو لا ،’’تم ہیجان انگیزتصو یر یںکیو ں نہیں بنا تے ؟خدا نے تمہارے ہا تھ میں لو چ دیا ہے ۔ہنر دیا ہے ۔تم حسینو ں کی ، مہ جبینو ں کی گوری چٹیّ دلآویزتصو یر یں بناؤ ۔ ان کے شیشے جیسے بدن کوا پنے برش سے ا ور رنگو ں سے اُبھارو ۔سنسا ر میں کتنے چتر کار حسینو ں کی ننگی اورنیم عریاں تصو یر یں بنا بناکرمہا ن ہو گئے ؛اور تم ہو کہ بھو کی ،پیا سی ،غر بت میں ڈوبی،لا چا ری میں بھیگی ، پھٹی،پرانی،چتھڑی ا ورا نیا ئے میں لپٹی میلی، کچیلی ، خونی ،کالی، کلوٹی تصویریں بناتے ہو ،کما ل ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’مہا را ج ، میں کیاکرو ں ؟جب میں اپنے ارد گر د دیکھتا ہو ں ۔ جھو ٹ ،انیائے ، اتّیا چا ر ،غر یبی ،لو ٹ ما ر ،بھو ک ،پیا س ،لا چا ری ، مجبوری،بلاتکا ر،خو ن ، جہیز، عورت پر ظلم ،رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل، تومیرا دل وہ تصو یر یں بنا نے کو نہیں کر تا ۔۔۔۔۔ارے وہ فنکا ر ہی کیا جو عوام کے مسئلوںسے آ نکھ موند کر رئیسوں کے  عیش و عشرت کا سا ما ن مہیاکر ے ۔مہا را ج میں ان میں سے نہیں ہو ں جو ضمیر کو مارکراپنے فن کا سودا کر لیتے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’تو کیا ، تم سمجھتے ہو ان آ نسو ئو ں اور خو ن میں ڈو بی ہوئی تصویروں کو نو رتن کاانعا م ملے گا ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’نہیں مہا را ج ،میں تویہ سوچ ہی نہیں سکتا ۔یہ انعا م تو صرف سرکا ر کے رئیسو ں اور چا پلو سو ں کو ملتا ہے ۔ کسی غر یب اور ایما ندا ر فنکا ر کے نصیب میں کہاں ۔۔؟‘‘  
’’دیکھو ، تم پھر ہم پرالزا م لگا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سچا ئی بیان کر رہا ہو ں مہا را ج ۔۔۔۔۔‘‘
’’کتنا سچ بھرا  ہواہے تم میں ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جتنا جھو ٹو ں میں جھو ٹ ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’سچ ما را جا تا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یا د کیا جا تا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’وزیر اعظم،اس کی چتر شا لہ کو اس کا قبر ستا ن بنا دو ۔لگتا ہے ،یہ ہم سے کو ئی ذا تی دشمنی رکھتا ہے ۔ ہم ہندو ہیں اور یہ مسلما ن ،اسی لئے اَنا پ شنا پ بک رہا ہے ۔ اس کی سب کلا کرتیا ں دُھوست کر دی جا ئیں ۔۔۔۔۔دیش کے با ہر نہ جا نے پا ئیں۔۔۔۔۔۔‘‘
درا صل اس را ج کی یہی حالت تھی ۔ جوعلی حسین نے اپنی مصوری کے ذریعے دکھایا تھا ۔ وزیرِاعظم نے بھی کئی با ر را جا کو یہ سب بتایا تھا ۔ مگرسبھی شاہی اہلکار رشوت خو ر اور ظالم تھے ۔وزیرِاعظم کو بھی بادشاہ کے عتاب کا ڈر تھا اس لئے وہ بھی ز یادہ زور دے کر نہیں کہتا تھا۔ لیکن ،آ ج جب را جا نے خو د اس مصور سے ملنے کا ارا دہ ظا ہر کیا تو اس کا دل بہت خوش ہو ا ۔ وہ جا نتا تھا ،علی حسین دیانت دار،انصاف پسند ،انسان دوست ،امن کا راہی ،محبِ فن ، فطرت پسند، ایک سچا انسان اور عظیم فنکا ر ہے۔ وہ کو ئی چیز بیچنے کے لئے نہیں بنا تا ہے ،بلکہ سما ج میں ، دیش میں بیداری لانے کے لئے بنا تا ہے ۔ وہ ایک وطن پرست انسا ن تھا ،اُسے اپنے وطن سے پیار تھا ۔ دیش کی بگڑ ی ہو ئی حا لت کو اپنی مصوری سے راجا کو بتا نا چاہتا تھا ۔ ان کوجگانا چاہتا تھا۔ مگر وہ اس کوسُلا ناچا ہتا تھا ، مٹا نا چا ہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔افسو س!
وزیرِاعظم نے کہا ،’’نہیں مہا را ج ،فنکا ر کا ذا تی طور پر کو ئی دھر م نہیں ہو تا ۔اس کا تو بس ایک ہی دھر م ہو تا ہے اور وہ ہو تا ہے اس کا فن ؛اور رہ گیا علی حسین کی بات، تو اب وہ ایک اَنتر راشتریہ کھیاتی پراپت (بین لااقوامی شہرت یافتہ) فنکا ر ہو گیا ہے ۔اس کا یہ دیش پر یم ہی ہے جو وہ یہ دیش چھو ڑ کر نہیں جا تا ۔ورنہ کتنے دیش علی حسین کو اپنی پلکو ں پر بٹھا نے کو تیار ہیں ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کچھ بھی ہو ہم کو اس پر شک ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘مہا را ج نے  بڑی ہی مضبوطی سے کہا ،’’لگتا ہے یہ بیدیشی ایجنٹ ہے اور ہم کو بیدیشو ں میں بد نا م کر نا چا ہتا ہے ، تبھی تو ایسا زہر اُگل رہا ۔۔۔۔۔۔اس کو خا مو ش کر دیا جانا چا ہئے ۔۔۔۔۔‘‘
’’کو ئی بھی فنکا ر جتنا بڑ ا دیش پر یمی ہو تا ہے شا ید ہی کو ئی راجا بھی ہو ۔۔۔۔۔‘‘مصو ر نے عزت و احترام سے کہا ،’’آ پ ہم پر یہ الز ام لگا کر ہماری تو ہین کر رہے ہیں۔ کو ئی بھی فنکا ر ہو اس کو اپنے دیش سے بہت پر یم ہو تا ہے ۔اسی لئے وہ اُس کی برا ئیو ں کو اپنے فن کے ذ ریعہ ظاہر کرکے اس کی اصلا ح کرا نا چا ہتا ہے ، تا کہ و ہ دنیا کے نقشے پر اعلیٰ مقام حاصل کر سکے ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جھو ٹ ،یہ سراسرجھو ٹ ہے۔ تم بڑ ے جھو ٹے ہو ۔مکار ہو۔رنگے سیار ہو ۔ اگر تم کو اپنے دیش سے اتنا ہی پر یم ہے تو تم ایسی تصو یر یںہر گز نہیں بنا تے ۔۔۔‘‘
’’دیش پر یم کا کیا یہی ثبو ت ہے کہ فنکا ر جھو ٹ بو لے ،گو نگے کو گو نگا نہ کہے ۔۔۔۔۔۔اندھے کو اندھا نہ بولے،تو سچ مچ میں دیش پر یمی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا دیش پر یمی ہو نے سے کہیں اچھا ہے آدمی دیش دروہی ہو ۔۔۔۔۔‘‘فنکا ر چیخا ،’’مہا را ج ،جس دیش کا فنکا ربک جا تا ہے ۔یعنی سلطنت کے ترا زو میں تل جا تا ہے ،اس دیش کا مستقبل تاریک ہو جا تا ہے ۔۔۔۔‘‘
’’دیکھو ،زبان پر دل کی با ت آ ہی گئی ۔۔۔۔۔۔‘‘اب مہا را ج دہا ڑا ، ’’ فو ج کو بلا ئو اور اسے گرفتا ر کرا ئو ۔۔۔۔۔۔اور تحقیقا ت کرا ئو ،بیدیشیو ں سے اس کی سا نٹھ گا نٹھ تو نہیں۔۔۔۔۔ مسلما نوں پر مجھ کو بھرو سہ نہیں ۔یہ لو گ اس دیش کی جڑ کھو دنے پر تُلے ہو ئے ہیں ۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں مہا را ج !یہ غلط الزا م ہے۔۔۔۔۔‘‘وزیر اعظم نے مشورہ دیا۔
’’آ پ ان کی وکا لت کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سچ کا سا تھ دینا کیا بر ی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
مہا را ج کچھ دیر چپ رہا ،پھر منہ کھو لا ، ’’مسلما ن اس دیش کی ترقی میں رو ڑا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں مہا را ج ۔۔۔‘‘وزیرِاعظم رگھو را ج پر تا پ سنگھ نے احتجاج کیا ،’’مسلما ن نہیں ،بلکہ مسلما ن کی تر قی میں یہا ں کی سیاست روڑا ہے ۔۔۔‘‘
مہارا ج اب کچھ نہیں بو لا ،بس خا مو شی سے جھنجھلاتے  ہوئے آگے جا کر اُس نے ایک ایسی تصو یر دیکھی ،جس میں ایک معصوم لڑکی کی۷۔۷ لو گ عصت دری کر رہے تھے۔تصو یر میں عصمت دری کا ایسا رنگ بھرا گیا تھا کہ انسا نو ں کا وحشیا نہ رو پ اور کمسن لڑکی کا درد صا ف دکھتا تھا ۔مہا را ج نے کہا ،
  ’’یہ کیا ہے ۔۔۔؟‘‘
’’جو مہا را ج دیکھ رہے ہیں۔۔۔‘‘فنکا ر نے بر جستہ جوا ب دیا۔
’’ہم نگنتا و اشلیلتا کا چرم بندو دیکھ رہے  ہیں۔۔۔‘‘(عریانیت اور فحاشی کا عروج دیکھ رہے ہیں)۔
’’صحیح دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’تو کیا تم میں اتنی نگنتا (عریانیت)بھر ی ہو ئی ہے ۔۔۔۔؟‘‘
’’مہا را ج ان میں نہیں۔۔۔۔۔‘‘اب وزیرِاعظم سے رہا نہ گیا تو وہ بو ل پڑا ،’’نگنتا ہما ری ویو ستھا  (عریانیت ہمارے نظام )میں بھر ی ہو ئی ہے ۔سما ج میں بھر ی ہو ئی ہے ۔ فنکا ر تو بس آ ئینہ دا ر ہو تا ہے اور وہ ہم کو آ ئینہ دکھا تا ہے ۔۔۔۔‘‘
’’مہا را ج کو قطعی ایسا آ ئینہ منظو ر نہیں ،جس میں وہ ننگے نظرآ ئیں ۔۔۔۔‘‘وہ یہ کہہ کر جب اس تصو یر کو پھا ڑ کر دو سری طرف مڑا ،تو اس کے سا منے دیوا ر پر ایک ایسی تصویر لٹکی ہو ئی تھی ، جس میں وہ خو د آنکھ، کا ن اور ناک سے سپا ٹ ایک لا ٹھی کے سہا رے عریاں حالت میں کمر کوجھکا ئے چلتا چلا جا رہا تھا اور اس کے را ستے میں بھو کے، پیا سے،بیمار،پھٹے چتھڑے میں بچے بوڑھے ، جوا ن مر دو عو رت پڑ ے تھے۔ را جا یہ سب دیکھ کر آ گ بگولہ ہو گیا ۔ پھُپھکا ر کر بو لا ، ’’جا نتے ہو ۔۔۔۔اس کا انجا م کیا ہو گا ۔۔۔۔۔؟‘‘
فنکار نے آگے بڑھ کر اپنی دو تصویروں پر ہاتھ رکھ دیا،’’یا تو یہ۔۔۔۔یا تو یہ۔۔۔۔‘‘
ایک تصویر میں دکھایا گیا تھا سچ بولنے پر سر قلم اور دوسری میں سچ کو دیش نکالا۔
راجا بوکھلایا ہوا تھا۔اس نے وزیرِاعظم سے کہا،’’اس کا سر ابھی اور اسی وقت قلم کر دیا جائے۔۔۔‘‘
’’نہیں مہاراج!۔۔۔‘‘اس نے راجا کو روکنے کی کوشش کی،’’یہ گھور انّیائے ہوگا۔۔۔۔‘‘
’’ایسا کیوں۔۔۔۔؟‘‘وہ تِلملاتے ہوئے بولا۔
’’مہاراج۔۔۔۔‘‘وہ راجا کو سمجھانے کی ایک بار پھرکوشش کیا، ’’آج یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔۔۔۔بین الاقوامی سطح کا آدمی ہوگیا ہے۔ اگر ہم نے اس کے سائے کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو بین الاقوامی سطح  پرانسانی ہتک اور اعلیٰ فنکار کی بے عزتی کا مقدمہ کرکے لوگ ہم پر حملہ کر دیں گے۔۔۔اور ہم کچھ بھی نہ کر پائیں گے۔۔۔بیدیشیوں کے مقابل ہماری حیثیت کیا ہے،مہاراج یہ بخوبی جانتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
راجا اب سوچ میں پڑ گیا۔اس کا چہرہ جو اب تک تنا ہوا تھا ، وزیرِاعظم کی بات سن کر آہستہ آہستہ ڈھیلا پڑنے لگا۔
وزیرِاعظم نے آگے کہا،’’اب اس کی زندگی ہماری نہیں ہمارے ملک کی ہے۔۔۔۔اور موت۔۔۔اس کی ہم سب کی موت ہے۔۔۔۔‘‘
راجا نے وزیرِاعظم کو گھور کر دیکھا ،’’تم ہم کو ڈرا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں  مہاراج۔۔۔۔  ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
راجا نے فرمان جاری کیا،’’تو پھر اس کو دیش نکالا دے دیا جائے۔۔۔ہم اپنی اس سرزمیں پر اس کی ناپاک ہستی کو قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم نے صلاح دیا،’’ایک بار اور غور کر لیجئے مہاراج۔۔۔راجے سب ملک میں ہوتے ہیں مگر ایسے فنکار سب جگہ نہیں ہوتے۔۔۔۔۔‘‘
’’منتری!تم ہمارے فیصلے کی توہین کر رہے ہو۔۔۔۔‘‘
’’توہین۔۔۔نہیں مہاراج۔۔۔۔ہم تو یہ کہہ رہے ہیں فنکار کے طنز کی ایک بار تحقیقات کر لیں۔۔۔۔‘‘ ’’ہمیں اس کی فرصت ہی نہیں۔۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم خاموش کھڑا غور کر رہا تھا کہ مہاراج گیا کام سے۔۔۔ افسوس انہیں سچ جاننے کے لئے فرصت ہی نہیں۔۔۔کیسے ہیں یہ راجا؟
راجا بولا،’’علی حسین !ہم تمہیں دیش نکالا دیتے ہیں۔۔۔۔تم ہماری دریا دلی کی داد دو کہ ہم نے تمہیں سزائے موت نہیں دی۔تم ابھی اور اسی وقت ہماری سلطنت کی حدود سے دفع ہوجاؤ۔۔۔ورنہ مہاراج کو اپنا فیصلہ بدلنے میں دیر نہ لگے گی۔۔۔‘‘
’’مہاراج!آپ دیش نکالا دے کر مجھ پر بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ میں اِس ملک کی خاک میں پیدا ہوا،نشونما پائی اور اِسی کی مٹی میں دفن ہونا اپنی خوش قسمتی تصور کرتا۔مگر مہاراج!آپ مجھ سے میرا یہ حق چھین رہے ہیں۔میں کیسے مہاراج کی دریادلی کو مان لوں۔میں تو تب مانتا،جب مہاراج مجھے سزائے موت دیتے اور میں اس پاک خاک میں دفن ہوجاتا۔۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم کی آنکھیں بھر آئیں۔اس نے جلدی سے منھ پھیرکر آنکھوں سے آنسو کو پونچھ ڈالا کہ کہیں مہاراج دیکھ لیں گے توکچھ الزام لگا دیں گے۔
مہاراج بولے،’’تو کیا تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔‘‘
’’آپ کو کیا لگتا ہے،سچ بولنے والے موت سے ڈرتے ہیں۔؟‘‘ علی حسین نے جانبازی کی شان سے کہا۔
’’پھر کس سے ڈرتے ہیں۔۔۔۔؟‘‘
’’اُس زندگی سے۔۔۔۔۔۔جس میں جھوٹ ہی جھوٹ کا شائبہ ہو۔ ۔۔اور سچ کا نام و نشان بھی نہ ہو۔۔۔۔‘‘
’’تو تم سقراط کی نسل سے ہو۔۔۔۔‘‘
’’سچ کی کوئی ذات نہیں ہوتی مہاراج۔۔۔۔سچ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ۔۔سچ کا کوئی دیش نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔سچ کا کوئی بھیس نہیںہوتا۔۔۔سچ توبس سچ ہوتا ہے۔۔۔سوا اس کے کچھ بھی نہیں ۔۔۔‘‘
’’تو تم ہم کو سمجھا رہے ہو۔۔۔۔‘‘
’’کیا آپ بے وقوف ہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘     ’’پھر کیوں سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔‘‘
راجا بہت شرمندہ ہوا۔اس نے کھیج کر کہا،’’دیکھو تم پھر ہمارے کرودھ(غصے) کو ہوا دے رہے ہو۔۔۔‘‘
’’بے غیرتوں میں کرودھ نام کی کوئی چیز ہوتی کہاں ہے مہاراج۔۔۔۔؟‘‘
’’تو کیاہم بے غیرت ہیں۔۔۔۔؟‘‘
’’مہاراج خود میزان پر پرکھ لیں۔۔۔‘‘
’’ہم تمہیں توپ سے اُڑوا دیں گے۔۔۔‘‘
’’یہ مہاراج کے اختیار میں ہے۔۔۔۔۔‘‘
راجا اس کے جواب سے لاجواب ہوگیا اور منھ پھیر کر وزیرِاعظم سے بولا،’’منتری اسے کہو یہ یہاں سے چلا جائے۔ورنہ اس معمولی سے فنکار کو زندہ چنواکر ہم وشوا برادری کی دشمنی مول لینا نہیںچاہتے۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم جیسے رو پڑا۔اس نے کہا،’’کیسے کہہ دیں مہاراج کہ سچ ہمارے ملک سے چلا جائے۔۔۔۔؟‘‘
’’تو ہم کہتے ہیں،یہ سچ ہمارے ملک سے چلا جائے۔۔۔۔ہمیں ایسے سچ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم نے چیتایا،’’دیکھو مہاراج۔۔۔پچھتاؤگے۔۔۔‘‘
’’تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔۔۔۔‘‘   ’’نہیں۔۔۔۔ ہم سمجھا رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’تو تم پاگل ہو۔۔۔۔۔‘‘
اب وزیرِاعظم کچھ بھی نہیں بولا اوروہ دیکھتا رہا علی حسین کو جاتے ہوئے۔ایک درد کے ساتھ۔۔۔ایک آہ کے ساتھ۔۔۔ایک تکلیف کے ساتھ  اور پھر دوڑ کر مہاراج سے دوبارہ منت کی،’’اِسے  روک لو مہاراج۔۔۔۔ملک کا پرَان چلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘
مہاراج ٹھسّے سے بولا،’’ جانا ہے تو آپ بھی چلے جائیں۔۔۔مگر مہاراج اپنے ملک کو گالی دینے والے کو کبھی نہ رو کیں گے۔۔۔۔۔‘‘
وزیرِاعظم اشک آلود آنکھوں سے جاتے ہوئے علی حسین کوکچھ دیر تک دیکھتا رہا،اس کے بعد وہ بولا،’’جہاں سچ نہیں رہ سکتا  وہاں ہم بھی نہیں رہ سکتے۔۔۔۔۔‘‘اور پھروہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا چلا گیا۔ 
٭٭٭٭٭


Comments

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب