Thanda Gosht by Manto par tabsera by Salam Bin Razzaque



ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔۔۔سعادت حسن منٹو

تشریحی نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔سلام بن رزاق

منٹونے جس زمانے میں لکھنا شروع کیا  وہ اردو میں ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا ۔اس وقت تحریک کا ایسا غلغلہ تھا کہ کسی ادیب کا اس کے اثرات سے بچ کر نکلنا مشکل تھا۔منٹوبھی اپنے ابتدائی دور میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ چند قدم چلامگر جلد ہی اس کے باغی ذہن اور سرکش فطرت نے تحریک کی جکڑ بندیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا لہذٰا اس نے نہ صرف تحریک سے انحراف کیا بلکہ اپنے گردوپیش کی دنیا کے خلاف بھی علم بغاوت بلندکردیا۔وہ زندگی کی پرخار ڈگر پر چلنے والا تنہا مسافر تھا جس نے ٹھوکریں کھا کر اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لئے راہ ہموار کی۔منٹونے زندگی کے تاریک ترین کوچوں کی سیر کی اور معاشرے کے غلیظ سے غلیظ گوشوں کو اجاگر کیا۔اس جرأت آمیز حق گوئی اور بیباکی کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑااور فحش نگاری کے الزام میں اس پر پانچ دفعہ مقدمہ دائر کیا گیا۔نقادوں نے اس کی تحقیر وتضحیک کی اور سوسائٹی نےمطعون کیا۔

منٹو کے افسانوں کی دنیا عام سماجی اور اخلاقی انسانوں کی دنیا سے الگ ہے۔یہ دنیا طوائفوں ،دلالوں،غنڈوں،بدمعاشوں،قاتلوں،جھوٹوں اور مکاروں سے آباد ہے۔منٹو نے اسی کانٹوں بھری دنیا کو اپنی جولاں گاہ کے لئےمنتخب کیا۔اس دنیا میںوہ کوئی سماجی مصلح،ناصح یا پیغمبربن کر داخل نہیں ہوتا بلکہ ایک مشاہد بن کر وارد ہوتا ہے۔منٹوہمیں وہی دکھاتا ہے جو وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔جب لاہور کی عدالت میں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘پر مقدمہ چلایا گیا تو منٹو نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہاتھا:

’’سوال ہے جو چیز جیسی ہے اسے من و عن کیوں نہ پیش کیا جائے۔ ٹاٹ کا اطلس کیوں بنایا جائے۔غلاظت کے ڈھیر کو عود و عنبر کے انبار میں کیوں تبدیل کیا جائے۔حقیقت سے انحراف کیاہمیں انسان بننے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔

منٹو کا یہ سوال بہت اہم ہے۔یہ سوال سماج اور مذہب کے ان ٹھیکیداروں سے ہے جو روایتی اخلاقیات کا لبادہ اوڑھے اپنے مکروہ چہروں کو تہذیب و شرافت کے نقابوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔مذہب و اخلاق کے نام نہاد محافظوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے منٹو اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:

’’اگر ہم اپنے مرمریں غسل خانے کی باتیں کرسکتے ہیں ،اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کرسکتے ہیں تو ان موریوں اوربدرئوں کا ذکر کیوں نہیں کرسکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔اگر مندروں اور مسجدوں کا ذکر کرسکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کرسکتے جہاں سےلوٹ کر کئی لوگ مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں‘‘۔

انسان کی باطن دنیا اس قدر پیچیدہ اور ناہموار ہے کہ کوری آنکھ سے اس کا مشاہدہ ناممکن ہے لہذٰا منٹو انسان کے باطن کو دیکھنے پرکھنے کے لئے جس عینک کا استعمال کرتا ہے اسے عرف عام میں جنس(sex)کہا جاتاہے۔منٹو جانتا ہے کہ ہمارے اطراف کی دنیا پر مذہب ،سیاست، اخلاقیات اور رسوم و عقائد کے ایسے دبیز پردے پڑے ہیں کہ ہمیں ان نقابوں کے پیچھے چھپے انسان کا اصلی چہرہ نظر ہی نہیںآسکتا۔لہذٰا اس نے جنس کی کھڑکی سے انسان کے باطن میں جھانک کر اس کے جبلی کرشمہ سازیوں کا نظارہ کیا ۔بالآخر وہیں وہ موتی بھی اس کے ہاتھ آیا جس کا نام ’’انسانیت‘‘ہے۔یہ اس کے عہد کے معاشرے کی کورنگاہی تھی کہ وہ اس کے افسانوں میں انسانیت کے رنگا رنگ جلوئوں کا نظارہ کرنے کی بجائے صرف’’جنس‘‘کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا رہا۔منٹو کا کوئی بھی افسانہ ایسا نہیں ہے جس میں جنسیت کو لذتیت کے لئے پیش کیا گیا ہو۔اس کے جنسی افسانے پڑھ کرقاری کے جذبات مشتعل نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک طرح کے اضطراب اور الہتاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس کا بدنام ترین افسانہ’’ٹھنڈ ا گوشت‘‘ بھی ایک ایسا ہی افسانہ ہے اسکے پانچ افسانوں پر مقدمے چلے۔’’کالی شلوار، بو،دھواں،اوپر نیچے درمیاں اور ٹھنڈا گوشت‘‘۔

’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر نہ صرف فحاشی کا مقدمہ دائر ہوا بلکہ اس زمانے کے اہم اور بڑے نقاد اور ادیب بھی اسے ایک فحش افسانہ قرار دیتے رہے۔حتٰی کہ مقدمے کے دوران جب تک خود منٹو نے اس افسانے کی معنویت کو اجاگر نہیں کیا اس پر فحاشی کا لیبل چسپاں رہا۔اگر منٹو پر مقدمہ نہ چلتا اور اسے اس افسانے کی حمایت میں لکھنے اور اس کی تشریح اور تعبیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تو افسانے کی معنویت افسانے کے تابوت میں ہی کسی مصری ممی کی طرح مردہ پڑی رہ جاتی۔

’’ٹھنڈا گوشت‘‘ فسادات کے پس منظر میں لکھا ہوا ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس کالب لباب یہ ہے کہ ایشر سنگھ ایک تندرست وتوانا سکھ ہے جس نے فسادات میں کتنے ہی لوگوں کو قتل کیا۔عورتوں کے زیور چھینے، لوگوں کے گھر لوٹے اور مکانوں کوآگ لگائی مگر ایک مغویہ لڑکی سے مباشرت کرتے ہوئے جوں ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ لڑکی مر چکی ہے۔اسے ایسا نفسیاتی دھچکہ لگتا ہے کہ اس کی مردانگی مفلوج ہوجاتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایشر سنگھ ظالم تھا، قاتل تھا، لٹیرا تھا مگر بے ضمیر نہیں تھا۔اس نے انسانوں کو قتل کیا مگر اس کے باطن کے اندھیرے میں کہیں انسانیت کی ایک جوت بھی روشن تھی۔اس لئے منٹو نے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘کے انتساب میں لکھا ہے:

’’ایشرسنگھ کے نام ۔۔ساری حیوانیات کے باوجود جس کے اندر انسانیت کی رمق باقی ہے‘‘اگر ہم بغور دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ منٹو نے اپنے بیشتر افسانوں میں اسی انسانیت کی رمق تلاش کی ہے۔

اس افسانے کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جب قاری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایشر سنگھ قاتل اور لٹیرا ہے تب اس کے دل میں ایشر سنگھ کے لئے ایک قسم کی نفرت پرورش پانے لگتی ہے مگر جب ایک مردہ لڑکی سے زنا کے ردعمل کے طور پر اس میں شدید احساس گناہ پیدا ہوتا ہے اور وہ نامرد ہوجاتا ہے۔اس وقت قاری کے دل میں بھی اس کے لئے اٹھنے والی نفرت کی لہریں دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگتی ہیں۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منٹو نے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ لکھ کر ایشر سنگھ کے گناہ کا کفارہ ادا کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھنڈا گوشت.......سعادت حسن منٹو

ایشر سنگھ جوں ہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا۔کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کر دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی۔رات کے بارہ بج چکے تھے۔شہرکا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گئی۔ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا ۔ہاتھ میں کرپان لئے ایک کونے میں کھڑا تھا۔چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزرگے۔کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر انہیں ہلانےلگی۔ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔چوڑے چکلے کولھے،تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپورکچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اٹھا ہوا سینہ،تیز آنکھیں،بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار،ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔سر پہ اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہورہی تھی۔اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اس کے قد و قامت اور خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لئے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔’’ایشر سیاں؟‘‘

ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا۔مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لاکر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کلونت کور چلائی’’ایشر سیاں‘‘لیکن فوراً ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ پر سے اٹھ کر اس جانب جاتے ہوئے بولی،’’کہاں غائب رہے تم اتنے دن‘‘۔

ایشرسنگھ نے خشک ہونٹوںپر زبان پھیری۔

’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔

کلونت کور بھنا گئی۔’’یہ بھی کوئی ہاں یا جواب ہے‘‘۔

ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیما رہے۔کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھاجو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا اور اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’جانی کیا ہوا تمہیں‘‘؟

ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔’’کلونت؟‘‘

آواز میں درد تھا۔کلونت کور ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آگئی۔

’’ہاں جانی!‘‘کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتر دی۔کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔اس کے گوشت بھرے کولھے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔

’’یہ کُڑی یا دماغ ہی خراب ہے‘‘۔

جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘

’’برے کی ماں کے گھر‘‘۔ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کر دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے بھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔’’قسم واہگورو کی ،بڑی جاندار عورت ہو‘‘۔

کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دئے اور پوچھا۔

’’تمہیں میری قسم بتائو کہاں رہے؟......شہر گئے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔’’نہیں‘‘۔

کلونت کور چڑگئی۔’’نہیں تم شہر ضرور گئے تھے..... اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپارہے ہو‘‘۔

’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے‘‘۔

کلونت کور تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئی،لیکن فوراً ہی بھڑک اٹھی۔’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا۔اس رات تمہیں ہوا کیا؟......اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے،مجھے تم نے وہ تمام گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔میری بھپیاں لے رہے تھے۔پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا،اٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گئے‘‘۔

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہوگیا۔کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔

’’دیکھاکیسے رنگ پیلا پڑ گیا.......ایشر سیاں،قسم واہگورو کی،ضرور کچھ دال میں کالا ہے‘‘۔

’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں‘‘۔

ایشر سنگھ کی آواز بےجان تھی۔کلونت کور کاشبہ اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’’ایشر سیاں !کیا بات ہے تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ ایکدم اٹھ بیٹھا،جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔کلونت کور کو اپنے تنومند بازوئوں میں سمیٹ کر اس نےپوری قوت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا۔

’’جانی میں وہی ہوں.گھٹ گھٹ یا چبھیاں،تیری نکلے ہڈاں دی گرمی‘‘۔

کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی،لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔

’’تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘

’’برے کی ماں کا وہ ہوگیا تھا‘‘۔

’’بتائوگے نہیں‘‘۔

’’کوئی بات ہو تو بتائوں‘‘۔

’’مجھے اپنے ہاتھوںسے جلائو اگر جھوٹ نہ بولو‘‘۔

ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دئیے۔مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔دونوں ہنسنے لگے۔ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔’’آئوجانی!ایک بازی تاش کی ہوجائے‘‘۔

کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیںاور کہا۔’’چل دفاں ہو‘‘۔

ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کولھے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔

’’نہ کر ایشر سیاں میرے درد ہوتا ہے ‘‘۔ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبالیا اور کچکچانے لگا۔کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ایشر سنگھ نے اپنا کرتا اتارکر پھینک دیا اور کہا۔

’’لو پھر ہوجائے تُرپ چال‘‘۔

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قیمص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح سے بکرے کی کھال اتارتے ہیں،اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔

’’کلونت!قسم واہگورو کی، بڑی کراری عورت ہے تو‘‘۔

کلونت کور اپنے بازو پر ابھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی۔

’’بڑا طالم ہے تو ایشر سیاں‘‘۔ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا۔

’’ہونے دے آج ظالم‘‘اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کئے۔کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔کان کی لوئوں کو کاٹا،ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا،بھرے ہوئے کولھوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے ۔گالوں کے منہ بھر بھر کر بوسے لئے۔چوس چوس کر اس کا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح ابلنے لگی۔لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت نہ پیداکرسکا۔جتنے گر اور جتنے دائوں اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کردئے،پر کوئی کارگر نہ ہوا۔کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کو خود بج رہے تھے۔غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا۔’’ایشر سیاں ،کافی پھینٹ چکاہے ،اب پتا پھینک!‘‘۔

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔

کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا لیکن جب کلونت کور کے منتظربہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے اتر گئی۔سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اتارکر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔’’ایشر سیاں،وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کے آیا ہے اور جس نے تجھے نچوڑ ڈالاہے؟‘‘

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہااور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔’’میں پوچھتی ہون ،کون ہے وہ چڈو.....کون ہے وہ الفتی۔کون ہے وہ چورپتّا‘‘۔

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا ۔’’کوئی بھی نہیں کلونت ،کوئی بھی نہیں ‘‘کلونت کورنے اپنے ابھرے ہوئے کولھوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔

’’ایشر سیاں!میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی ...... کھا واہگورو جی کی قسم.....کیااس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں.....تکا بوٹی کردوں گی۔اگر تونے جھوٹ بولا.......لے اب کھا واہگورو جی کی قسم...... کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ‘‘۔

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں اپنا سر ہلایا۔کلونت کور بالکل دیوانی ہوگئی۔لپک کر کونے میں کرپان اٹھائی۔میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کرایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پروار کردیا۔

آن کی آن میں لہوکے فوارے پھوٹ پڑے۔کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تواس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دئے۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر بعد نقاہت بھری آواز میں التجا کی۔

’’جانے دے اب کلونت جانے دے‘‘۔آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

’’میری جان!تم نے بہت جلدی کی.......لیکن جو ہوا ٹھیک ہے‘‘۔

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔’’مگر وہ کون ہے تمہاری ماں؟‘‘

لہو، ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

اور میں .......... اور میں ..........بھینی یا چھہ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں.......اسی کرپان سے‘‘۔کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔

’’میں پوچھتی ہوں کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ایک ہلکی سی چمک ان میں پید اہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔

’’گالی نہ دے اس بھڑوی کو‘‘کلونت چلائی۔

’’میں پوچھتی ہوں وہ ہے کون؟‘‘ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔

’’بتاتا ہوں‘‘۔یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔

’’انسان بھی ایک عجیب چیز ہے‘‘۔کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی۔

’’ایشر سنگھ تو مطلب کی بات کر‘‘۔ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔

’’مطلب ہی کی بات کررہا ہوں.......گلا چرا ہوا مایا میرا...... اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتائوں گا‘‘۔اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔

’’کلونت!میری جان.......میں تمہیں نہیں بتا سکتا،میرے ساتھ کیا ہوا........انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے.......شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا........گہنے پائے اور روپیہ پیسہ جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمھیں دے دئے.........لیکن ایک بات تمھیں نہ بتائی‘‘۔ 

ایشر سنگھ نے گھائو میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بےرحمی سے پوچھا۔

’’کون سی بات؟‘‘ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمے ہوئے لہوکو پھونک کے ذریعہ سے اڑاتے ہوئے کہا۔

’’جس مکان پر.........میں نے دھاوا بولا تھا .......اس میں سات ....... اس میں سات آدمی تھے .......چھ میں نے .......قتل کردئے .......اسی کرپان سے جس سے تونے مجھے .......چھوڑاسے .......سن .......ایک لڑکی تھی بہت ہی سندر اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا‘‘۔

کلونے کور خاموش سنتی رہی۔ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر لہو اڑایا .......کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں،کتنی سندر تھی ....... میں اسے بھی مار ڈالتا،پر میں کہا۔’’نہیں، ایشر سیاں،کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے،یہ میوہ بھی چکھ دیکھ‘‘۔

کلونت کور نے صرف اس قدر کہا’’ہوں‘‘۔

’’اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔ .......راستے میں .......کیا کہہ رہا تھا میں .......ہاں راستے میں .......نہر کی پٹری کے پاس، تھوہڑ کی جھاڑیوںتلے میں نے اسے لٹا دیا .......پہلے سوچا کہ پھینٹوں،لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں‘‘ .......یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کراپنا حلق تر کیا اور پوچھا’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ کے حلق سے بہ مشکل یہ الفاظ نکلے’’میں نے .......میں نے پتا پھینکا .......لیکن .......لیکن .......‘‘

اس کی آواز ڈوب گئی۔

کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا۔’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔

’’وہ ....... وہ مری ہوئی لاش تھی .......بالکل ٹھنڈا گوشت .......جانی مجھے اپنا ہاتھ دے .......‘‘

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

Comments

  1. بہت عمدہ تبصرہ لکھا ہے جناب سلام بن رزاق صاحب نے میں ان کی خدمت میں
    مبارکبادی پیش کرتا ہوں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

ZAUQ KI GHAZAL GOI BY ABUL QALAM QASMI

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب