Posts

Showing posts from March, 2018
Image
عورتوں کے احترام میں ’’ وومنس ڈے ‘‘(یومِ عالم خواتین) منانے والے سبھی مرد و خواتین سے  میری پر زور اپیل ہےکہ، کم از کم آج کے دن تو ایسا نہ کرو۔۔۔ صرف ایک دن۔۔۔پلیز شوچی سمیتا بھٹاچاریہ  حنیف قمر (اسوسی ایٹ ممبر آل انڈیا فلم اسکرپٹ رائٹر ممبئی ) موبائیل:9594919597 قارئ ین ہم آپ کو آج ۲۰۱۴  میں کلکتہ سے ممبئی ہندی فلموں و سیرئلس میں متعارف ہونےوالی ایک ایسی خوبصورت فلمی اداکارہ سے ملوا رہے ہیں، جو نہ صرف اپنی مادری زبان بنگالی، بلکہ انگریزی، مراٹھی، ہندی اور اردو میں بھی اچھی طرح گفتگو کر لیتی ہے۔تو آیئے اس اداکارہ سے ملاقات کے دوران ہونے والی سیر حاصل گفتگو سے آپ بھی محظوظ ہولیجئے۔اس خوبصورت اداکارہ کا نام ہے شوچی سمیتا بھٹاچاریہ‘‘  حنیف قمر : میں نےآپ کو پہلی بار ہندوستانی پرچار سبھا میں منعقدہ اردو غزل پروگرام میں غزلوں پر کتھک ڈانس کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پروگرام کے اختتام پر آپ نے ہماری شخصی ملاقات کے بعد اردو فاونڈیشن کے تحت شائع ہونے والے انٹرنیشنل اردو رسالہ ماہنامہ’’تریاق‘‘ممبئی کو کسی مناسب وقت پر انٹرویو دینے کا وعدہ کیا تھا، جو آج پورا ...

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب

انور خان کے افسانوں کے موضوعات اور اسالیب نورالحسنین ۱۔۱۲۔۳۱،پرگتی کالونی گھاٹی،اورنگ آباد۔ ۴۳۱۰۰۱،مہاراشٹر انور خان شہر ِ ممبئی میں یکم مارچ ۱۹۴۲ ؁ء میںطالع یار خان کے گھر ناگپاڑہ میں پیدا ہوئے ۔ اُن کی والدہ کا نام آمنہ بیگم تھا ۔ وہ بچپن میں باسکٹ بال کے ایک اچھے کھلاڑی تھے اور شاید بچپن میں اُنھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اگلی زندگی میں اُن کی شہرت ایک کھلاڑی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک کامیاب افسانہ نگار کے طور پر ہوگی ۔ انورخان کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۶۵ ؁ء یا  ۱۹۶۶ ؁ء میں ہوا ، اور اُن کی پہلی کہانی بقول انیس امروہی ’ شاٹ ‘ تھی لیکن اُن کا پہلا افسانہ ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ ہے جو  ۱۹۷۰ ؁ء میں ماہنامہ کتاب لکھنو میں شائع ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اپنے ہمعصروں میں وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جن کا پہلا مجموعہ ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ مکتبہ جامعہ دہلی نے شائع کیا تھا اور اس سے بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ دوسرے ہی سال اُس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔ وہ اپنے ہم عمروں میں پہلے افسانہ نگار ہیں جن کا گوشہ کلام حیدری جیسے مستند افسانہ نگار نے اپنے رسالے ’ آہنگ ‘ میں ترتیب دیا تھا ۔...

مارچ ۲۰۱۸

Image
حکمت عملی ’’کیا ہوگا؟‘‘ ’’کیا ہوگا؟‘‘ ’’۲۰۱۹میں کیا ہوگا؟‘‘ اور نہ جانے کیا کیا،بس اسی طرح کی باتیں جہاں دیکھئے ،جسے دیکھئے،کر رہا ہے۔تمام ممالک میں ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں کچھ کرنے سے زیادہ ہم کچھ کہنے سننے میں یقین رکھتے ہیںعملی میدان میں ہمارا شمار نہیں ہوتا۔ اترپردیش اور بہار میں چند سیٹوں پر الیکشن ہوئے اور بھاجپا نہیں آئی ،بس بحث و مباحثہ شروع ہوگیا کہ ۲۰۱۹ میں کیا؟ ہندوستانیوں سے بھلا ہندوستانی نیوز چینل کیوں واقف نہ ہوں؟ بعض نیوزچینلس نے بھی ۲۰۱۹ کی باتیں شروع کر دی ہیں۔۲۰۱۹ ؁ کے لئے ابھی وقت ہے کچھ کر گزرنے کا ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے دن واقعی اچھے ہوں تو اس کے لئے شروعات ابھی کرنی ہوگی۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہودی اگلے دوسو برسوں کی پلاننگ کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں جبکہ ہم ہندوستانی بالخصوص مسلمان باتیں ایک ہزار سال آگے کی کرتے ہیں اور صرف باتیں کرتے ہیں عمل ہمیں آتا ہی نہیں۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے پچھلے چند برسوںمیں جو جو واقعات ہوئے ہیں ان سے ہم بخوبی واقف ہیں اب بھی نہ جاگے تو پھر شاید جاگنے کا موقع ہی نہ ملے۔بھاجپا نیتا سبرامنیم سوامی نے کھل...

جنوری ۲۰۱۸

Image
نیا سال۔۔۔۔۔نیا سال۔۔۔۔ لیجئے آہی گیا نیا سال۔۔۔۔۔۔۔ نئے سال سے کیا مطلب ہم سمجھتے ہیں؟ کیا دو چار دن چھٹی مل جاتی ہے اس لئے؟ یااخباروں میں سال بدل جاتے ہیں اس لئے؟ یا پھر کہنے کے لئے کہ نیا سال ہے بھئی نیا سال؟ جانے کیوں نئے سال کا انتظار ہوتا ہے جبکہ زندگی وہی پرانی ہے،حالات ویسے ہی ہیں، مظلوم وہی ہیں،ظالم بھی وہی ہیں،حالات بد سے بدتر ہوتے جارہےہیں۔حقیقی معنوں میں کچھ نہیں بدلا ہے بس کاغذات پر نقشے بدل رہے ہیں۔ ۲۰۱۷؁ جاتے جاتے ڈر، خوف، دہشت، اور نہ جانے کیا کیا دے گیا۔ تین طلاق بل پاس ہوگیا،مودی جی مسلم خواتین کے بھائی بن کر بہنوں کی فکر میں مبتلا ہیںجبکہ لاکھوں کی تعداد میں ہندو بہنیں ذلیل و خوار ہورہی ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ہندودھرم میں طلاق نہ ہونے کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر جی رہی ہیں۔کیا ان کا بھی بھلا ہوگا؟ ’’گئو رکشا ‘‘کے نام پر مسلمانوں کو ستایا جارہا ہے مسلمان ہی کیوں دلت بھائی بھی کہاں بچے ہیں؟ گجرات الیکشن میں راہل گاندھی بھلے ہی ایک مضبوط لیڈر بن کر ابھرے ہو ں مگر سرکاری مشینری تو وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے ۔گجرات کے فاتح بن کر مودی جی نے اعلان کردی...

دو فرلانگ لمبی سڑک ۔۔۔۔۔۔۔۔کرشن چندر

دو فرلانگ لمبی سڑک تجزیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلام بن رزاق سرسید کی اصلاحی تحریک کے بعداردو ادب میں ترقی پسند تحریک سب سے توانا اور فعال رہی ہے۔اس تحریک نے فرسودہ سماجی ،تہذیبی اور اخلاقی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اردو ادب کے زمین آسمان ہی بدل دئے۔اس میں کرشن چندر،اوپیندرناتھ اشک، خواجہ احمد عباس،راجندرسنگھ بیدی،حیات اللہ انصاری اور عصمت چغتائی جیسے فکشن نگاروں کے نام نمایاں تھے۔البتہ کرشن چندر اپنے رومانی اسلوب نگارش،اشتراکی اورانقلابی نظریے کے سبب ترقی پسندوں کے محبوب افسانہ نگار بن گئے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ پریم چند کے بعد اردو فکشن کو ثروت مند بنانے میں کرشن چندر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔کرشن چندر نے ۴۰ سے ۶۰ تک اردو افسانے کے قارئین کے دلوں پر حکومت کی ہے۔اس لئے انہیں قلم کا بےتاج بادشاہ کہا جاتا تھا۔پریم چند کے بعد سماجی حقیقت نگاری کا بےلاگ فنکارانہ استعمال کرشن چندر کے سوا کسی اور کے ہاں نہیں ملتا۔وہ اردو فکشن کے ایک جری سپاہی تھے جنھوں نے سماجی کمزوریوں،اقتصادی ناہمواریوں اور سیاسی جبرواستحصال کے خلاف قلمی جہاد کیا ہے۔انھوں نے مزدور ،فقیر ،چمار،بھنگی،کلرک جیسے سمان اور نچ...