Posts

Showing posts from April, 2018

MORNAMA BY INTIZAR HUSAIN

Image
۲۰۱۶؁ کو اردو کے ممتاز فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کا لاہور میں انتقال ہوگیا۔یہ خبر برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اردو داں حلقے پر بجلی کی طرح گری۔انتظار حسین ہمارے عہد کے سب سے بڑے قصہ گو تھے۔ان کے اب تک افسانوں کے آٹھ مجموعے،چار ناول،دو سفرنامے،کالموں کے تین مجموعے اور انگریزی میں متعدد کتابوں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ان کی سوانح’’چراغوں کا دھواں‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے اردو کے ادبی حلقے میں خوب سراہا گیا۔ ان کی موت قرۃالعین حیدر کے بعد اردوادب کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔وہ ۷؍دسمبر ۱۹۲۳؁ کو ضلع بلند شہر کے قصبہ ڈبائی میں پید ا ہوئے۔میرٹھ میں تعلیم حاصل کی اور تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ انتظار حسین کا شمار ترقی پسند دور کے آخری ایام میں ابھرنے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ابتدا میں انھوں نے ترقی پسند افسانہ نگاروں کے زیر اثر سماجی، سیاسی اور معاشرتی نوعیت کے افسانے ضرور لکھے لیکن بہت جلد انہیں احساس ہوگیا کہ اکہرے بیانیہ کے پامال اسلوب میں وہ اپنے عہد کا آشوب بیان نہیں کرسکتے۔علاوہ ازیں جدیدیت میں تجریدیت اور ابہام کے نام پ...

RISHTON KI SALIB BY TANWIR TIMMPAURI

Image
رشتوں کی صلیب تنویر احمد تماپوری،الریاض سودی عرب،موبائیل –00966501724826 خلیج کی لڑکیاں --- کالے لبادوں میں محصور ہونے کے باوجود بھی حسن سے لدی پھدی ہوتی ہیں۔ وہ نمائش کے ذرائع محدود ہونے پر بھی اداوں کی آتش بازیاں جانتی ہیں۔ دیکھنے والوں کو یہ یقین دالنے میں ماہر ہوتی ہیں کہ ان کے پاس کالے لبادوں کے عالوہ بھی بہت کچھ ہے اوربہت نایاب ہے۔ عبداللہ آفندی کی دونوں لڑکیاں بھی مذکورہ خوبیوں سے مزین تھیں ۔وہ حسن میں ایکہ تھیں اور متحیرکرنے میں حکم کا یکہ ۔ اگرآفندی قبیلہ حسن کی کان تھا تو نورہ اسکا سب سے قیمتی ہیراتھی ۔عربی قہوے جیسازعفران مال سنہرارنگ ۔ صحرا کے چاند کی طرح روشن چہرہ۔پام کے پیڑسا سڈول بدن۔ چال میں سراور ڈھال میں لئے تھی۔نورہ بر صغیرکی نورہ کشتی جیسی ہی تھی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ بظاہر نہایت شریف نیک بزرگوں کی چہیتی نظر یں نیچے رکھنے والی ۔ اسکی بظاہر جھکی رہنے والی معصوم آنکھیں دراصل چور بازاری کے ہنر جانتی تھیں ۔ موقعہ محل دیکھ کر کینچلی بدلنا اسکےڈی این اے میں تھا۔خلیج کی اکثر لڑکیوں کی طرح نورہ کا ڈبل رول بھی متاثر کن تھا وہ کہیں ستی ساوتری تھی ...

SACH KA DESH NIKALA

Image
سچ کو دیش نکا لا  سراج فاروقی ۷۰۳،وادگھار،نزدکالج پھاٹہ،پنویل۔۴۱۰۲۰۶ ای میل : farooquisiraj@gmail.com    علی حسین بہت بڑا مصور تھا ۔وہ بڑ اہی حق پرست اور انصاف پسند تھا۔ وہ بڑ ی ہی اچھی ا ور نایاب تصویر یں بنا یا کر تا تھا ۔ مہا را ج کو اپنے اس غریب مصور کی کو ئی خبر نہ تھی۔ یا یو ں کہیں وہ ہمیشہ جھو ٹے اور چا پلوسو ں میں گھرا رہتا تھا ۔اسے وہ لو گ جو دکھا تے وہ وہی دیکھتا اور سنتا تھا ، اسے اپنی آنکھ ، کا ن ،نا ک پر جیسے کو ئی بھروسہ ہی نہیں تھا ۔ ایک با ر وہ پڑ وسی دیس میں گھو منے گیا ،تو اس کی وہا ں بڑ ی تعر یف سنی ۔محل آ کر اس نے اپنے وزیر اعظم کو حکم دیا ،’’علی حسین سے ہمیں ملوا یا جا ئے ۔ ہم بھی تو دیکھیں ،کیسی نا یا ب مورتی ہما رے نا ک کے نیچے چھپی بیٹھی ہے اور ہم کو خبر تک نہیں ہے۔۔۔۔۔‘‘ وزیر تو سب جانتا  تھا۔ وہ را جا کو اس کے نگارخانے میں لے گیا ۔ را جا نے بڑ ی ہی ہیچ نظروں سے اس پھٹے حا ل مصوراور اس کے نگارخانے کو دیکھا ۔جبکہ مصو ر نے را جا کا اپنے نگار خانے میں بڑی ہی خوش دلی سے استقبال کیا ۔ را جا اس مصور کے نگارخانے میں ب...
Image
 طلسمی عینک               دو روز پہلے اس کے گیسٹ ہاؤس میںایک نامور جادوگرسی کے نرولا رہ کے گیا تھا۔خوش قسمتی سے جادو گر کے کرتب اس نے بھی دیکھے تھے۔تماشہ دیکھ کر وہ بھی ایک خیالی اورطلسماتی دنیا میں کھو گیا تھا۔دل چاہتا تھا بس یہی دنیا ہمیشہ سامنے رہے کیونکہ اصلی دنیا سے اس کا جی گھبراتا تھا۔          بدرالدین شہر کے پائیں علاقے وازہ پورمیں رہتا تھاجہاں کے لوگ طباخی کے ہنر میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں لیکن خود نوالوں کے لیے ترستے ہیں۔یہ بات الگ کہ اس کی وادی اپنی خوبصورتی کے لیے ساری دنیا میں اپنا ثانی نہیںرکھتی ۔برف سے ڈھکے آسماں کو چھوتے ہوئے نیلگوںپہاڑ، نت کھسکتے یخ بستہ گلیشئر ،فرازِکوہ سے گرتے اور اپنے دامن میں جھاگ کا انبار لگاتے ہوئے آبشار ،صاف و شفاف بلوریں جھیلیں ، ناگن کی طرح بل کھاتے ندی نالے، زمین کے  بطن سے ابلتے میٹھے پانی کے چشمے اور روح پرور تازہ ہوائیں ۔لیکن اس کے لیے یہ سب بے کار تھا۔اس کی دنیا میںتو تاریکی ہی تاریکی تھی۔          جس دن نرولا واپس چلا گیا ،ا...
Image
میں بن گیا میر صاحب حسن ممبئی گریجویشن مکمل کئے مجھے چار سال ہوچکے تھے مگر آج تک میری پہچان یہی تھی کہ میں نواب صاحب کا بیٹا ہوں ،میری خود کی کوئی پہچان نہ تھی جبکہ میرے کئی دوست یار سیٹل ہوچکے تھے ۔میرا جگری یار اشرف ڈاکٹر بن چکا تھا ، سہیل کامیاب تاجر تھا ،راشد ٹھیکیداربن چکا تھا غرض اس طرح ان کی ایک اپنی پہچان بن چکی تھی۔اشرف اپنے والد کے ساتھ کہیں جاتا تو لوگ کہتے کہ یہ اشرف صاحب ہیں اور یہ ان کے والد ہیں اور جب میں کہیں جاتا تو میری پہچان یہ ہوتی کہ فلاں نواب صاحب کا بیٹا ہے۔بارہاوالد صاحب نے کہا کہ کچھ کرو ،اگر کچھ نہیں کرسکتے ہوتو اپنا ہی کاروبار دیکھو مگر اب ہم بھی تو ہم ہی تھے ابھی تک تو گریجویشن کا جشن ہی منا رہے تھے۔ مگر اس دن تو حد ہی ہوگئی ۔ابھی ابھی عید ختم ہوئی تھی کہ بڑے ماموں اور ان کافرزند اکبر تشریف لائے ،ان سے مل کر ہمیں خوشی ہوئی مگر ماموں جان نے والد صاحب کے سامنے ہی ہمیں آسمان سے زمین پر اٹھا پھینکا۔ ’’میرے لڑکے کو دیکھو ،انجینئر ہے ،تم کیا ہے ؟بس باپ کی دولت ہے،نوابی ٹھاٹ ہیں،یہ سب کب تک رہے گا ،میاں کچھ کرو‘‘ماموں نے کہا۔اسی طرح وہ اور بھ...